بچپن میں ٹیپ بال سے بالنگ کا فائدہ ٹی 20 مقابلوں میں ہوا عمر گل
ٹیپ بال سے کھیلتے ہوئے میں نے گیند کی سمت اور رفتار بدلنے کا ہنر سیکھا جو اب کام آیا ہے، عمر گل
KARACHI:
پاکستان کے مایہ ناز بالر عمر گل کہتے ہیں کہ بچپن میں انہوں نے ٹیپ بال سے بہت بالنگ کی جس کا فائدہ انہیں ٹی 20 مقابلوں میں ہوا۔
جرمن خبر رساں ادارے کو انٹرویو کے دوران عمر گل نے کہا کہ فٹنس مسائل اور فاسٹ بولرز کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے مگر انہوں نے فٹنس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، مستقبل میں ان کا تینوں طرز کی کرکٹ میں حصہ لینے کا ارادہ ہے لیکن اس کے لئے وہ ٹیم پر بوجھ نہیں بنیں گے، یہی وجہ ہے کہ وہ ویسٹ انڈیز میں ٹی 20 عالمی کپ سے خود ہی دستبردار ہو گئے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کی ٹیسٹ وکٹوں کی اوسط زیادہ ہے لیکن ان کی اولین ترجیح ٹیسٹ کرکٹ رہی ہے کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی کرکٹر کی پہچان اس کے ٹیسٹ ریکارڈ سے ہوتی ہے۔ اگر ان کے گھٹنوں نے ساتھ دیا تو وہ دیگر فارمیٹس کی طرح ٹیسٹ اوسط میں بھی بہتری لانے کی کوشش کریں گے۔
عمر گل کا کہنا تھا کہ بچپن میں وہ گلی محلے اور مقامی میدانوں میں ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اوراسی کا فائدہ انہیں ٹی 20 میچوں میں ہورہا ہے، کرکٹ کے اس مختصر ترین فارمیٹ میں ایک بالر زیادہ سے زیادہ 4 اوورز کراتا ہے، اس لئے ہر گیند پر پورا زور لگتا ہے اور ٹیپ بال کھیلتے ہوئے انہوں نے گیند کی سمت اور رفتار بدلنے کا ہنر سیکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم متوازن ہے۔ نئی انتظامیہ کے آنے سے یہ مزید بہتر ہوگی، پاکستانی ٹیم آل راؤنڈرز کی موجودگی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے عالمی کپ میں اچھی کارکردگی دکھائے گی اور انہیں امید ہے کہ قومی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلے گی۔
قومی کھلاڑی کا کہنا تھا کہ وہ کئی کھلاڑیوں کی قیادت میں کھیل چکے ہیں لیکن مصباح الحق کے کپتانی کرنے اور کھیلنے کا اپنا انداز ہے۔ انہوں نے کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا اور ہمیشہ اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ انہیں ناجائز تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ وہ ایک اچھے کپتان اوراچھے انسان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ کرکٹ کو مقدم جانا اور ٹیم میں آنے کے بعد اپنی سرگرمیوں کو گراؤنڈ سے ہوٹل تک محدود رکھا۔ اپنے کام سے کام رکھا اور اسکینڈلز سے بچا رہا۔
پاکستان کے مایہ ناز بالر عمر گل کہتے ہیں کہ بچپن میں انہوں نے ٹیپ بال سے بہت بالنگ کی جس کا فائدہ انہیں ٹی 20 مقابلوں میں ہوا۔
جرمن خبر رساں ادارے کو انٹرویو کے دوران عمر گل نے کہا کہ فٹنس مسائل اور فاسٹ بولرز کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے مگر انہوں نے فٹنس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، مستقبل میں ان کا تینوں طرز کی کرکٹ میں حصہ لینے کا ارادہ ہے لیکن اس کے لئے وہ ٹیم پر بوجھ نہیں بنیں گے، یہی وجہ ہے کہ وہ ویسٹ انڈیز میں ٹی 20 عالمی کپ سے خود ہی دستبردار ہو گئے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کی ٹیسٹ وکٹوں کی اوسط زیادہ ہے لیکن ان کی اولین ترجیح ٹیسٹ کرکٹ رہی ہے کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی کرکٹر کی پہچان اس کے ٹیسٹ ریکارڈ سے ہوتی ہے۔ اگر ان کے گھٹنوں نے ساتھ دیا تو وہ دیگر فارمیٹس کی طرح ٹیسٹ اوسط میں بھی بہتری لانے کی کوشش کریں گے۔
عمر گل کا کہنا تھا کہ بچپن میں وہ گلی محلے اور مقامی میدانوں میں ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اوراسی کا فائدہ انہیں ٹی 20 میچوں میں ہورہا ہے، کرکٹ کے اس مختصر ترین فارمیٹ میں ایک بالر زیادہ سے زیادہ 4 اوورز کراتا ہے، اس لئے ہر گیند پر پورا زور لگتا ہے اور ٹیپ بال کھیلتے ہوئے انہوں نے گیند کی سمت اور رفتار بدلنے کا ہنر سیکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم متوازن ہے۔ نئی انتظامیہ کے آنے سے یہ مزید بہتر ہوگی، پاکستانی ٹیم آل راؤنڈرز کی موجودگی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے عالمی کپ میں اچھی کارکردگی دکھائے گی اور انہیں امید ہے کہ قومی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلے گی۔
قومی کھلاڑی کا کہنا تھا کہ وہ کئی کھلاڑیوں کی قیادت میں کھیل چکے ہیں لیکن مصباح الحق کے کپتانی کرنے اور کھیلنے کا اپنا انداز ہے۔ انہوں نے کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا اور ہمیشہ اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ انہیں ناجائز تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ وہ ایک اچھے کپتان اوراچھے انسان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ کرکٹ کو مقدم جانا اور ٹیم میں آنے کے بعد اپنی سرگرمیوں کو گراؤنڈ سے ہوٹل تک محدود رکھا۔ اپنے کام سے کام رکھا اور اسکینڈلز سے بچا رہا۔