داعش کے خلاف امریکی کریک ڈاؤن
اقوام متحدہ کے مطابق اگست میں عراق میں پرتشدد واقعات کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
KARACHI:
عراق میں امریکی فوج نے داعش جنگجوؤں کے دو اہم مراکز پر فضائی حملے کیے ہیں جس میں متعدد جنگجو ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔ عراق و شام میں انتہا پسند اسلامی تنظیم داعش کے خلاف امریکی کریک ڈاؤن میڈیا میں اہم ایشو بن گیا ہے تاہم اوباما انتظامیہ پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ داعش کے خطرہ سے نمٹتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھے کہ عراقی علاقہ آمریلی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا اندیشہ ہے۔
تازہ حملہ شمالی عراق کے شورش زدہ قصبے آمریلی میں کیا گیا جب کہ دوسرا موصل ڈیم کے قریب شدت پسند جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر کیا گیا۔ عراقی فورسز نے امریلی کے قریب سلیمان بیک قصبے پر باغیوں کو پسپا کرکے قبضہ کرلیا ۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگست میں عراق میں پرتشدد واقعات کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ امریکی میڈیا کا اصرار ہے کہ داعش تنظیم کی بربریت کو کنٹرول کرنے کے لیے اوباما کو رچرڈ البروک جیسے ڈپلومیٹ اور مدبر کی ضرورت ہے، ادھر جریدہ ''اکنامسٹ'' نے استدلا پیش کیا ہے کہ اگر عراق میں اسلامی حکومت یا خلافت کاقیا روکنا شرط ہے تو یہی کام شام میں بھی ہونا چاہیے۔
عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے کہا کہ عراق داعش کے لیے قبرستان بنے گا۔ دوسری طرف شام کے پہاڑی علاقے گولان میں فوج اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق داعش کے جنگجوؤں نے شام میں کلسٹر بم استعمال کیے ہیں۔ ادھر شام کی نئی کابینہ نے حلف اٹھالیا، شامی حکومت کے ایک ترجمان نے جاری بیان میں کہا کہ نئی کابینہ نے حلف اٹھالیا ہے، نئی کابینہ سے شام کے صدر بشارالاسد نے حلف لیا۔ شام اور عراق میں داعش پر فضائی حملوں کے بعد رد عمل کا خطرہ بھی ہے، برطانوی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں کی جہادی کمیونٹی اپنے آئیڈیاز اور میتھڈ برآمد کر رہی ہے، جب کہ رقا کا علاقہ داعش کا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے۔
عالمی قوتوں اور اقوام متحدہ کو داعش سمیت مشرق وسطیٰ کی مخدوش صورتحال اور غزہ کے معاملہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ادھر لیبیا میں انارکی کا خطرہ ہے، امریکی عوام یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ مغربی فوجیں عراق و شام میں کیوں بھیجی جارہی ہیں، ایک سوال عالم اسلام امریکا سے کرے کہ اس کا امن، جمہوریت، انصاف اور آزادی کا روڈ میپ کہاں ہے؟
عراق میں امریکی فوج نے داعش جنگجوؤں کے دو اہم مراکز پر فضائی حملے کیے ہیں جس میں متعدد جنگجو ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔ عراق و شام میں انتہا پسند اسلامی تنظیم داعش کے خلاف امریکی کریک ڈاؤن میڈیا میں اہم ایشو بن گیا ہے تاہم اوباما انتظامیہ پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ داعش کے خطرہ سے نمٹتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھے کہ عراقی علاقہ آمریلی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا اندیشہ ہے۔
تازہ حملہ شمالی عراق کے شورش زدہ قصبے آمریلی میں کیا گیا جب کہ دوسرا موصل ڈیم کے قریب شدت پسند جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر کیا گیا۔ عراقی فورسز نے امریلی کے قریب سلیمان بیک قصبے پر باغیوں کو پسپا کرکے قبضہ کرلیا ۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگست میں عراق میں پرتشدد واقعات کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ امریکی میڈیا کا اصرار ہے کہ داعش تنظیم کی بربریت کو کنٹرول کرنے کے لیے اوباما کو رچرڈ البروک جیسے ڈپلومیٹ اور مدبر کی ضرورت ہے، ادھر جریدہ ''اکنامسٹ'' نے استدلا پیش کیا ہے کہ اگر عراق میں اسلامی حکومت یا خلافت کاقیا روکنا شرط ہے تو یہی کام شام میں بھی ہونا چاہیے۔
عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے کہا کہ عراق داعش کے لیے قبرستان بنے گا۔ دوسری طرف شام کے پہاڑی علاقے گولان میں فوج اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق داعش کے جنگجوؤں نے شام میں کلسٹر بم استعمال کیے ہیں۔ ادھر شام کی نئی کابینہ نے حلف اٹھالیا، شامی حکومت کے ایک ترجمان نے جاری بیان میں کہا کہ نئی کابینہ نے حلف اٹھالیا ہے، نئی کابینہ سے شام کے صدر بشارالاسد نے حلف لیا۔ شام اور عراق میں داعش پر فضائی حملوں کے بعد رد عمل کا خطرہ بھی ہے، برطانوی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں کی جہادی کمیونٹی اپنے آئیڈیاز اور میتھڈ برآمد کر رہی ہے، جب کہ رقا کا علاقہ داعش کا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے۔
عالمی قوتوں اور اقوام متحدہ کو داعش سمیت مشرق وسطیٰ کی مخدوش صورتحال اور غزہ کے معاملہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ادھر لیبیا میں انارکی کا خطرہ ہے، امریکی عوام یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ مغربی فوجیں عراق و شام میں کیوں بھیجی جارہی ہیں، ایک سوال عالم اسلام امریکا سے کرے کہ اس کا امن، جمہوریت، انصاف اور آزادی کا روڈ میپ کہاں ہے؟