پاکستان کی نقلی مصنوعات کی صنعت
جانے پہچانے چہرے ان نقلی مصنوعات کو مستند مال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی ذاتی طور پر تصدیق کرتے ہیں۔
یہ کالم سیاسی ہونا چاہیے مگر سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ میں اس وقت نہیں لکھ سکتا۔ تفصیلات جاوید ہاشمی نے ویسے بھی بیان کر دی ہیں، ان میں کوئی کیا اضافہ کرے۔ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، یہاں تو اشاروں کی موج دریافت ہو گئی ہے۔ لہٰذا کسی اور موضوع پر قلم کو زحمت ہوگی۔
ہم پاکستان کی ایک ایسی صنعت کی بات کرتے ہیں جو ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ پھل پھول رہی ہے۔ منافعے کی شرح نا قابل یقین حد تک بہترین ہے۔ اس کے چلانے والے خوش و خرم ہیں۔ اس سے بنی ہوئی اشیاء ہماری زندگی کا ایک ایسا حصہ بن چکی ہیں جن سے کوئی پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔میں بات کر رہا ہوں نقلی مصنوعات کی صنعت کی۔ پہلے سمجھ لیجیے کہ یہ مصنوعات ہوتی کیا ہیں۔ یہ اصل کی نقل ہے۔ ان کے خد و خال، تصویر، شکل ان پر لگے ہوئے لیبل سب بالکل اصل کی مانند لگتے ہیں۔ ان کے پاس دی جانے والی ہدایاتی چِٹ پر درج تفصیلات ان کے وہ تمام خواص بیان کرتی ہیں جو ان سے اعلیٰ یا اصلی مصنوعات میں پائی جاتی ہیں۔
خریدنے والے کو ہر قسم کی تسلی دی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ڈبے میں موجود یہ شے با کمال ہے۔ ہمیشہ کار آمد رہے گی ۔ اس کو خریدنے سے جیب پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور کام بھی خوب ہو گا۔ ان مصنوعات کو مزید موثر بنانے کے لیے ان پر باہر کے ٹھپے بھی لگائے جاتے ہیں ۔ کسی پر کینیڈا لکھا ہوتا ہے اور کسی پر برطانیہ۔ عام فہم رکھنے والے خریدار ان مہروں سے بہت متاثر ہوتے ہیں، بیرون ملک کے حوالے پڑھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے برطانوی یا کینیڈین مال ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ جو ان کی زندگی ویسے ہی بنا دے گا جیسے وہاں کے شہری گزارتے ہیں۔ یعنی پر سکون، با مقصد اور اپنی خرید سے لطف اندوز ہونے کے تمام مواقعوں سے بھر پور۔
یہ نقلی اشیاء تشہیر کے بغیر گاہکوں تک نہیں پہنچائی جا سکتیں۔ تشہیر کے لیے ذرایع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ کبھی اشتہاروں کی صورت میں اور کبھی عوام کی فلاح اور بھلائی کے کھاتے میں ممکنہ منڈی میں گاہکوں کو بڑھانے کے لیے اس دو نمبر مال کو بار بار دکھایا جاتا ہے۔ ایسی تعریفیں کی جاتی ہیں کہ جیسے من و سلویٰ اُتر رہا ہو۔ ان تمام اشتہاروں میں جھٹ پٹ اور فٹافٹ تسکین کے پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔ـ 'یہ لے لیں جوان ہو جائیں گے'۔ 'اس کو اپنا لیں زندگی سنور جائے گی'۔ 'اس کو پا لیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلا ہو گا' وغیرہ وغیرہ۔ مشتہر کرنے کے لیے اشتہاروں کے علاوہ منادی کرنے والوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
جانے پہچانے چہرے ان نقلی مصنوعات کو مستند مال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی ذاتی طور پر تصدیق کرتے ہیں۔ ترغیب دیتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جس کی سب کو برسوں سے تلاش تھی۔ ایک دروغ گوئی اور ابلاغ کے امتزاج سے یہ تصور دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بیچا جا رہا ہے وہ سچا ہے اور اس کے بارے میں جو کچھ بتایا جا رہا ہے وہ سچ ہے۔
ان مصنوعات کے خریدار کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے۔ عموماً یہ لوگ اصل تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتے یا بہتر اور معیاری مصنوعات میسر نہیں ہوتیں۔ دونوں صورتوں میں طلب اور رسد کے اصول کے تحت جو بھی مال مہیا ہوتا ہے اسی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ مگر چونکہ یہ گاہک جیب کی کمزوری کے باوجود خود کو یہ تسلی دینا ضرور چاہتا ہے کہ اس کی خریداری کسی سے کم نہیں۔ لہذا وہ لفظی چھان پھٹک ضرور کرتا ہے۔
ڈبوں کو الٹا پلٹا کر دیکھیے گا یہ جانتے ہوئے کہ دکان دار اس سے سفید جھوٹ بول رہا ہے پھر بھی دو چار سوال ضرور کریگا۔ اس طرح کی دوسری اشیاء کے ساتھ موازنہ بھی کریگا اور پھر خرید کر خوشی خوشی گھر لوٹے گا۔ بچوں کو بتائے گا کہ جو ان کو نظر آ رہا ہے وہی درست ہے اس کے علاوہ دنیا میں اس جیسی کوئی اور شے مہیا نہیں۔ یہ گاہک پسماندہ مجبور کم فہم یا سادہ لوح اس پاکستان کی مصنوعی صنعت کی جان ہے۔ یہ جس یقین کے ساتھ خود کو دھوکہ دیتے ہیں وہ اس تمام کاروباری کامیابی کی کنجی ہے۔ دھوکا کھانے کی عادت اپنا لینے کے بعد ان کو اصل کی تلاش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
بعض اوقات یہ عادت ان کی زندگی کا محور بن جاتی ہے۔ دکاندار اپنا روز گار اس محور کے گرد گھماتے ہیں۔ دو نمبر مال سے قوم کے گردے خراب ہوں یا دماغ ان کی بلا سے۔ جسم ٹوٹ پھوٹ جائے یا اچھا بھلا توانا جسم نیم مردہ ہو جائے ان کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہ کباڑ کو تخلیق کمال کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں اور آرام دہ زندگی گزارتے ہیں۔
نقلی مصنوعات کی یہ صنعت چلانے والوں کا ذکر کیے بغیر یہ تصویر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ طاقتور لوگ ہیں۔ ان کے پاس مال کی فراوانی ہے۔ ہر قصبے میں فیکٹریاں لگوائی ہوتی ہیں۔ دو نمبر چیزوں کو اکٹھا کر نے والے تمام کارندے اور کاریگر ان کے خدمت میں ہر وقت کار فرما رہتے ہیں۔ پاکستان میں کامیاب کاروبار کی بنیاد رکھنے کے بعد انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ اب یہاں کی منڈی میں خالص مال کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہر پانچ سال بعد نئے ماڈل کا اجراء کرتے ہیں۔ گاہکوں کی ضرورت کو بھانپتے ہوئے اُس نئے ماڈل کی شکل اور تشبیہہ تراش خراش دیتے ہیں۔ کبھی وہ جاذب نظر اور دلکش نظر آتا ہے اور کبھی اس کو دیکھ کر علم و فکر کے حوالے ذہن میں آتے ہیں۔ کبھی اُس میں فوری صحت یابی کے اجراء کا ذکر کر دیا جاتا ہے اور کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ اس شے کے استعمال کے بغیر زندگی کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
یہ نئے نئے ماڈل تواتر سے اس قوم پر پھینکے جاتے ہیں۔ حسرت و یاس سے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہ لوگ پہلے پہل ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ انھوں نے عظیم تحفہ حاصل کر لیا ہے، تشہیر کی چکا چوند سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کر دیتی ہے۔ استعمال کے کچھ عرصے کے بعد ان کی خامیوں کو اپنی استعمال کی صلاحیت سے نا آشنا ئی کا ثبوت مانتے ہوئے خریدار خود کو یہی طفل تسلی دیتا رہتا ہے کہ ' مال اچھا ہے ہم ہی ناکارہ ہیں۔ جھوٹ اور تسلیوں کے اس منافع بخش گورکھ دھندے کو اس حد تک پھیلا دیا گیا کہ عام آنکھ پرکھ سے محروم ہو گئی ہے۔ اگر ہم پاکستان کو دنیا کی نقلی مصنوعات کی سب سے بڑی فیکٹری اور منڈی قرار دیں تو اس میں کچھ جھوٹ نہیں ہو گا۔
مگر اس پھیلتے ہوئے کاروبار اور ان نقلی مصنوعات کی خریداری کے اس کاروبار کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی وجہ سے دو نمبر مال بنانے والے اور اس کو مارکیٹ کرنے والے سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی کھوٹے پن کی قلعی کھول ہی دیتا ہے۔ جعل، فریب، بناوٹ، مکاری پر سے پردہ اٹھ ہی جاتا ہے۔ کاروبار چلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس منڈی میں سب ہی اندھے ہیں۔ مال کی تشہیر اسے اصل نہیں بناتی، تصویریں دکھا کر بکوانے سے دو نمبری چھپ نہیں جاتی۔
پاکستان میں یہ امید بڑھ رہی ہے کہ تمام تر مجبوری کے باوجود کبھی نہ کبھی تو نقلی مصنوعات کے خریدار یہ جانچنے کی صلاحیت پا لیں کہ جس سے ان کو 67 سال سے عاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غیر سیاسی کالم ختم ہوا اب آپ جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس کا دوبارہ سے سنیئے اور عمران خان اور قادری کے دھرنوں پر بھی ایک مرتبہ غور کیجیے اور سوچیے جی آپ کو اب کیا نظر آ رہا ہے۔
ہم پاکستان کی ایک ایسی صنعت کی بات کرتے ہیں جو ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ پھل پھول رہی ہے۔ منافعے کی شرح نا قابل یقین حد تک بہترین ہے۔ اس کے چلانے والے خوش و خرم ہیں۔ اس سے بنی ہوئی اشیاء ہماری زندگی کا ایک ایسا حصہ بن چکی ہیں جن سے کوئی پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔میں بات کر رہا ہوں نقلی مصنوعات کی صنعت کی۔ پہلے سمجھ لیجیے کہ یہ مصنوعات ہوتی کیا ہیں۔ یہ اصل کی نقل ہے۔ ان کے خد و خال، تصویر، شکل ان پر لگے ہوئے لیبل سب بالکل اصل کی مانند لگتے ہیں۔ ان کے پاس دی جانے والی ہدایاتی چِٹ پر درج تفصیلات ان کے وہ تمام خواص بیان کرتی ہیں جو ان سے اعلیٰ یا اصلی مصنوعات میں پائی جاتی ہیں۔
خریدنے والے کو ہر قسم کی تسلی دی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ڈبے میں موجود یہ شے با کمال ہے۔ ہمیشہ کار آمد رہے گی ۔ اس کو خریدنے سے جیب پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور کام بھی خوب ہو گا۔ ان مصنوعات کو مزید موثر بنانے کے لیے ان پر باہر کے ٹھپے بھی لگائے جاتے ہیں ۔ کسی پر کینیڈا لکھا ہوتا ہے اور کسی پر برطانیہ۔ عام فہم رکھنے والے خریدار ان مہروں سے بہت متاثر ہوتے ہیں، بیرون ملک کے حوالے پڑھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے برطانوی یا کینیڈین مال ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ جو ان کی زندگی ویسے ہی بنا دے گا جیسے وہاں کے شہری گزارتے ہیں۔ یعنی پر سکون، با مقصد اور اپنی خرید سے لطف اندوز ہونے کے تمام مواقعوں سے بھر پور۔
یہ نقلی اشیاء تشہیر کے بغیر گاہکوں تک نہیں پہنچائی جا سکتیں۔ تشہیر کے لیے ذرایع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ کبھی اشتہاروں کی صورت میں اور کبھی عوام کی فلاح اور بھلائی کے کھاتے میں ممکنہ منڈی میں گاہکوں کو بڑھانے کے لیے اس دو نمبر مال کو بار بار دکھایا جاتا ہے۔ ایسی تعریفیں کی جاتی ہیں کہ جیسے من و سلویٰ اُتر رہا ہو۔ ان تمام اشتہاروں میں جھٹ پٹ اور فٹافٹ تسکین کے پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔ـ 'یہ لے لیں جوان ہو جائیں گے'۔ 'اس کو اپنا لیں زندگی سنور جائے گی'۔ 'اس کو پا لیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلا ہو گا' وغیرہ وغیرہ۔ مشتہر کرنے کے لیے اشتہاروں کے علاوہ منادی کرنے والوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
جانے پہچانے چہرے ان نقلی مصنوعات کو مستند مال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی ذاتی طور پر تصدیق کرتے ہیں۔ ترغیب دیتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جس کی سب کو برسوں سے تلاش تھی۔ ایک دروغ گوئی اور ابلاغ کے امتزاج سے یہ تصور دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بیچا جا رہا ہے وہ سچا ہے اور اس کے بارے میں جو کچھ بتایا جا رہا ہے وہ سچ ہے۔
ان مصنوعات کے خریدار کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے۔ عموماً یہ لوگ اصل تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتے یا بہتر اور معیاری مصنوعات میسر نہیں ہوتیں۔ دونوں صورتوں میں طلب اور رسد کے اصول کے تحت جو بھی مال مہیا ہوتا ہے اسی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ مگر چونکہ یہ گاہک جیب کی کمزوری کے باوجود خود کو یہ تسلی دینا ضرور چاہتا ہے کہ اس کی خریداری کسی سے کم نہیں۔ لہذا وہ لفظی چھان پھٹک ضرور کرتا ہے۔
ڈبوں کو الٹا پلٹا کر دیکھیے گا یہ جانتے ہوئے کہ دکان دار اس سے سفید جھوٹ بول رہا ہے پھر بھی دو چار سوال ضرور کریگا۔ اس طرح کی دوسری اشیاء کے ساتھ موازنہ بھی کریگا اور پھر خرید کر خوشی خوشی گھر لوٹے گا۔ بچوں کو بتائے گا کہ جو ان کو نظر آ رہا ہے وہی درست ہے اس کے علاوہ دنیا میں اس جیسی کوئی اور شے مہیا نہیں۔ یہ گاہک پسماندہ مجبور کم فہم یا سادہ لوح اس پاکستان کی مصنوعی صنعت کی جان ہے۔ یہ جس یقین کے ساتھ خود کو دھوکہ دیتے ہیں وہ اس تمام کاروباری کامیابی کی کنجی ہے۔ دھوکا کھانے کی عادت اپنا لینے کے بعد ان کو اصل کی تلاش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
بعض اوقات یہ عادت ان کی زندگی کا محور بن جاتی ہے۔ دکاندار اپنا روز گار اس محور کے گرد گھماتے ہیں۔ دو نمبر مال سے قوم کے گردے خراب ہوں یا دماغ ان کی بلا سے۔ جسم ٹوٹ پھوٹ جائے یا اچھا بھلا توانا جسم نیم مردہ ہو جائے ان کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہ کباڑ کو تخلیق کمال کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں اور آرام دہ زندگی گزارتے ہیں۔
نقلی مصنوعات کی یہ صنعت چلانے والوں کا ذکر کیے بغیر یہ تصویر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ طاقتور لوگ ہیں۔ ان کے پاس مال کی فراوانی ہے۔ ہر قصبے میں فیکٹریاں لگوائی ہوتی ہیں۔ دو نمبر چیزوں کو اکٹھا کر نے والے تمام کارندے اور کاریگر ان کے خدمت میں ہر وقت کار فرما رہتے ہیں۔ پاکستان میں کامیاب کاروبار کی بنیاد رکھنے کے بعد انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ اب یہاں کی منڈی میں خالص مال کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہر پانچ سال بعد نئے ماڈل کا اجراء کرتے ہیں۔ گاہکوں کی ضرورت کو بھانپتے ہوئے اُس نئے ماڈل کی شکل اور تشبیہہ تراش خراش دیتے ہیں۔ کبھی وہ جاذب نظر اور دلکش نظر آتا ہے اور کبھی اس کو دیکھ کر علم و فکر کے حوالے ذہن میں آتے ہیں۔ کبھی اُس میں فوری صحت یابی کے اجراء کا ذکر کر دیا جاتا ہے اور کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ اس شے کے استعمال کے بغیر زندگی کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
یہ نئے نئے ماڈل تواتر سے اس قوم پر پھینکے جاتے ہیں۔ حسرت و یاس سے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہ لوگ پہلے پہل ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ انھوں نے عظیم تحفہ حاصل کر لیا ہے، تشہیر کی چکا چوند سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کر دیتی ہے۔ استعمال کے کچھ عرصے کے بعد ان کی خامیوں کو اپنی استعمال کی صلاحیت سے نا آشنا ئی کا ثبوت مانتے ہوئے خریدار خود کو یہی طفل تسلی دیتا رہتا ہے کہ ' مال اچھا ہے ہم ہی ناکارہ ہیں۔ جھوٹ اور تسلیوں کے اس منافع بخش گورکھ دھندے کو اس حد تک پھیلا دیا گیا کہ عام آنکھ پرکھ سے محروم ہو گئی ہے۔ اگر ہم پاکستان کو دنیا کی نقلی مصنوعات کی سب سے بڑی فیکٹری اور منڈی قرار دیں تو اس میں کچھ جھوٹ نہیں ہو گا۔
مگر اس پھیلتے ہوئے کاروبار اور ان نقلی مصنوعات کی خریداری کے اس کاروبار کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی وجہ سے دو نمبر مال بنانے والے اور اس کو مارکیٹ کرنے والے سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی کھوٹے پن کی قلعی کھول ہی دیتا ہے۔ جعل، فریب، بناوٹ، مکاری پر سے پردہ اٹھ ہی جاتا ہے۔ کاروبار چلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس منڈی میں سب ہی اندھے ہیں۔ مال کی تشہیر اسے اصل نہیں بناتی، تصویریں دکھا کر بکوانے سے دو نمبری چھپ نہیں جاتی۔
پاکستان میں یہ امید بڑھ رہی ہے کہ تمام تر مجبوری کے باوجود کبھی نہ کبھی تو نقلی مصنوعات کے خریدار یہ جانچنے کی صلاحیت پا لیں کہ جس سے ان کو 67 سال سے عاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غیر سیاسی کالم ختم ہوا اب آپ جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس کا دوبارہ سے سنیئے اور عمران خان اور قادری کے دھرنوں پر بھی ایک مرتبہ غور کیجیے اور سوچیے جی آپ کو اب کیا نظر آ رہا ہے۔