یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے

کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا

چلیں آپ ہی کی مان لیتے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات غلط ہیں، چلیں آپ ہی کی مان لیتے ہیں کہ مطالبات منوانے کے لیے ان کا طریقہ کار غلط ہے، چلو آپ ہی کی مان لیتے ہیں کہ ان کے احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے 20 دنوں سے بالخصوص اسلام آباد اور بالعموم پاکستان کا کاروبار زندگی شدید متاثر ہوا لیکن جناب اعلیٰ آپ نے جو 30 اگست کی رات ان کے ساتھ کو جو کچھ کیا اس کو کیسے درست مان لیں ۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار شاہراہ دستور پر بہنے والے انسانی خون کو کیسے درست مان لیں معصوم بچوں، بزرگوں، خواتین، شیر خوار بچوں، نوجوانوں کے خلاف ایکشن کو کیسے درست مان لیں۔ آپ کے احکامات پر نہتے معصوم بے گنا ہ بزرگوں، بچوں، خواتین پر پولیس کے وحشیانہ غیر انسانی اقدامات کو کیسے درست مان لیں۔ سیمنٹ اور اینٹوں سے بنی بے جان عمارتوں کی حفاظت کی خاطر زندہ انسانوں کی تذلیل، ان کے قتل، مار پیٹ کو کیسے درست مان لیں، اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں۔

تاج شاہی سر پر سجانے کے 8 برس بعد اشوک اپنے عظیم لشکر کے پاس پڑوس کی طاقت اور دولت مند ریاست کالنگا پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کر دیا جب طاقت کے نشے میں سر شار اشوک اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا۔ جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئیں تھیں مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے۔

بہت سے نیم مردہ تھے کر اہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھر ی ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے دار ڈھونڈتی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔ کالنگا کے میدان میں بادشاہ اشو ک نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے اس کے بدن پر لزرہ طاری ہو گیا وہ اپنے گھوڑے سے اتر اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اتر گیا۔ اشو ک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا یا اور نو حہ کیا یہ میں نے کیا کر دیا، اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں یہ فتح ہے یا شکست۔ یہ انصاف ہے یا ناانصافی۔ یہ شجاعت ہے یا بزدلی۔

کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے کیا۔ کسی نے اپنا شوہر کھو دیا کسی نے اپنا با پ اور کسی نے اپنا بچہ اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا لاشوں کے یہ انبار کیا ہیں یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے۔


2500 سال قبل سقراط نے کہا تھا اگر تم سمجھتے ہو کہ دوسروں کو قتل کرنے تم انھیں اس بات سے باز رکھ سکو گے کہ وہ تمہاری برائی پر تمہیں ملامت نہ کریں تو یہ تمہاری بھول ہے فرار کا یہ راستہ عزت کا راستہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا تسلسل کے ساتھ کرنا ممکن ہے سب سے آسان اور سہل طریقہ یہ ہے کہ دوسروں پر جبر و تشدد کر نے کے بجائے تم لوگ خود اپنی اصلاح کر لو۔'' حکمرانوں اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم نے کبھی بھی کہیں بھی اپنے کرتوتوں کا جواب نہیں دینا ہے تو تم ایک اور غلطی کر رہے ہو۔ جلد یا بدیر سب کو اپنے رب کے سا منے حساب دینا ہے۔

ایک اللہ والے کی کریانہ کی دکان تھی جب وہ دنیا سے رخصت ہو گئے تو اپنی وفات کے بعد ایک اور اللہ والے کو خواب میں ملے سلام دعا کے بعد انھوں نے فوت ہونے والے بزرگ سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا حال ہے فوت ہونے والے بزرگ نے فرمایا کہ اور تمام مراحل خیر خیریت سے طے ہو گئے تھے لیکن دانے نہیں چھوڑ رہے انھوں نے پوچھا کہ کون سے دانے۔ بزرگ نے بتایا کہ جب وہ زندہ تھے تو ان کی دکان پر ایسے گاہگ بھی آتے تھے جو رقم کے بجائے گندم وغیرہ لے کر آتے تھے تا کہ اس کے بدلے دکان سے سودا سلف لے سکیں جب میں ان سے گند م لے کر تو ل رہا ہوتا تو بعض اوقات اس گندم میں سے کچھ دانے ترازو سے نیچے گر جاتے۔

ان بغیر تول کے دانوں کو گاہک بھی معمولی بات سمجھتا اور میں بھی خیال نہ کرتا بعد میں ان دانوں کو جو زمین پر بکھرے ہوتے تھے۔ جھاڑو سے اکٹھا کر کے دوسر ی گند م میں ڈال دیتا وہ زمین پر بکھر ے ہوئے دانے گاہک کے ہوتے تھے، ان پر میرا حق نہ تھا بس وہی گند م کے دانے مجھے نہیں چھوڑ رہے اور ان کی پکڑ میں ہوں۔ تو جناب اعلیٰ اچھی طرح سے سو چ لیں آپ کس کس پکڑ سے بچیں گے اور کیسے بچیں گے بے گناہوں کا خون چیخ چیخ کر تمہارے خلاف گواہی دے گا لوگوں کے گریے اور آہ و بکا تمہارا دامن کبھی نہیں چھوڑے گا۔ یاد رہے ہاتھوں سے لگائی گرہ دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے ۔

ہماری زندگی باز گشت جیسی ہے ہم وہی پاتے ہیں جو دیتے ہیں دنیا میں سب سے تیز رفتار چیز دعا اور بددعا ہے کیونکہ وہ دل سے زبان تک پہنچنے سے پہلے خدا تک پہنچ جاتی ہے، حکمرانو اگر تمہیں ذرا سی بھی فرصت مل جائے تو دیکھ لو کہ جو انتقام کی انگیٹھی تم نے اتنی گرم کر دی تھی اب وہ انگیٹھی تمہیں خود کو جلانے لگی ہے۔

اب تم کسی کو نقصان نہیں پہچاؤ گے اگر کسی کو نقصان پہنچے گا یا پہنچ رہا ہے تو وہ تم خود ہو۔ ہر انسان اپنی ذات کی حد تک فیصلے کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے لیکن اگر آپ اپنے علاوہ دوسروں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں۔ تو پھر آپ کو کسی بھی صورت میں غیر انسانی، غیر دانش مندانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کسی بھی صورت میں نہیں دی جا سکتی ملک کسی شخص کی جاگیر نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگ اس کے مزارعے ہوتے ہیں۔ اکثر آدمی اپنے اندر ایک جیل بنا لیتے ہیں اور وہ ساری عمر اس جیل سے آزاد ہی نہیں ہو پاتے، دراصل وہ ان کا اپنا قید خانہ ہوتا ہے وہ اپنے قید ی خود ہوتے ہیں اور وہ خو د ہی اپنے پہرے دار بھی ہوتے ہیں کوئی لاکھ کوشش کر لے ان کو اپنے آپ سے رہائی دلوانے میں ناکام ہی رہتا ہے۔

آج جو نتیجہ ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے یہ اس ہی بیمار، انتقامی اور قیدی ذہنیت کی تخلیق ہے، صرف 14 ماہ میں بر بادی نے ایک دیو کی شکل اختیار کر لی ہے اب یہ دیو کسی کے قابو میں نہیں ہے اور نہ ہی ان کے قابو میں ہے جنہوں نے اس کو جنم دیا ہے۔ شوپن ہار کہتا ہے انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس بربادی کے دیو سے کیسے نجات پاتے ہیں۔
Load Next Story