اب لکیر پیٹا کر

ممکن ہوسکے تو اُسے موم بتیوں کے کچھ بنڈل بھی بھجوا دیے جائیں اور ساتھ ’’بگلا‘‘ پکڑنے کا فارمولا بھی لکھ دیا جائے.

مشرف کے معاملے میں بیچارے انٹرپول کو اپنی اوقات کا علم ہے۔ ہمیں اُس سے خط و کتابت جاری رکھنی چاہیے۔

LOUISVILLE, KENTUCKY, US:
''وہ'' کا لفظ کسی اور لفظ کی جگہ جان بوجھ کر لکھا ہے، یہ احترام کا تقاضا ہے۔

بہرحال اب حکومت لکیر پیٹنے پر تلی ہوئی ہے تو اس حوالے سے وہ تحریف شدہ مصرعہ بھی لکھنا لازمی ہے۔ گیا ہے ''وہ'' نکل اب لکیر پیٹا کر۔

اس تحریر میں '' وہ'' سے مراد جنرل مشرف ہے اور لکیر پیٹنے کی تازہ ترین واردات وزارت داخلہ کا وہ بیان ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کو گرفتار کر کے وطن لانے کیلیے انٹرپول سے دوبارہ رابطہ کیا جائے گا۔

انٹرپول نے پچھلے ہفتے بیان دیا تھا کہ محترمہ بے نظیر کے قتل کے حوالے سے مشرف کے خلاف کافی شواہد نہیں دیے گئے، اس لیے وہ انھیں گرفتار نہیںکرے گا۔ سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ کیا دفتر داخلہ کے پاس کچھ ایسے اضافی یا نئے شواہد آگئے ہیں جو انٹرپول کیلیے قابل قبول ہوں گے۔

اگر آگئے ہیں تو پہلے انھیں '' اتنا پھیلانا'' چاہیے تھا کہ انٹرپول پر دبائو آ جاتا۔ لیکن اندر کی کہانی یہ ہے کہ ایسی کوئی کامیابی ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے۔ محترمہ بے نظیر کا قتل کئی فریقوں کی '' تکنیکی مہارت'' کا شاہکار تھا۔ پھر جس پھرتی سے ثبوت مٹائے گئے۔

وہ بھی باکمال لوگوں کا لاجواب کارنامہ تھا لیکن لگتا ہے کہ انٹرپول والے چاہتے ہیں کہ اُنھیں واردات کی ویڈیو فلم دکھائی جائے جس میں مجرم، جرم کا منصوبہ بناتے اور پھر عمل کرتے دکھائے گئے ہوں تاکہ وہ عملی اقدامات کرسکیں۔

انٹرپول سے بحث تو خیر چلتی رہے گی ۔ سوچنے والی اصل بات یہ ہے کہ مشرف کو گرفتار کر کے وطن واپس لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہی حکومت تھی جس نے مشرف کو باعزت ''فرار'' کا راستہ دیا۔ اُس وقت حکومت میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل تھی۔

ملک میں تقریباً تین چوتھائی اکثریت والی حکومت قائم تھی جو مشرف کا مواخذہ کر کے انہیں گرفتار کر سکتی تھی۔ لیکن اس کے بجائے اس نے مفاہمت کے پیکیج میں مشرف کو بھی باندھ لیا۔ اِس '' کارخیر'' کا پیپلز پارٹی کو کوئی سیاسی فائدہ تو نہیں ہوا، اُلٹا اسے مخالفوں کے ہاتھوں مسلسل ''چھترول'' برداشت کرنا پڑی جو ابھی تک جا ری ہے۔

حکومت نے نہ صرف یہ کہ مشرف کو باعزت ملک چھوڑنے دیا بلکہ گارڈ آف آنر بھی پیش کیا جس سے وہ دنیا میں ''مزید معتبر'' ہوگئے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس عزت افزائی سے رخصتی کے بعد حکومت مشرف کو وطن واپس بلا کر اس پر مقدمہ چلانے کا سوچے گی تو اُسے تائید کہاں سے ملے گی اور حکومت کے پاس صرف بے نظیر صاحبہ کے قتل اور اُس کے عدم شواہد کا معاملہ ہی نہیں، اکبر بگٹی کے قتل کا کیس بھی موجود ہے جو بادی النظر میں زیادہ مضبوط ہے۔


حکومت اِس کیس کی عدالت میں سرگرمی سے پیروی کرے تو مضبوط شواہد مل جائیں گے اور سماعت کے دوران وہ سب کچھ سامنے آ جائے گا جو شاید انٹرپول کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ لیکن حکومت مشرف کو وطن لا کر مقدمہ چلانے میں صرف اتنی ہی سنجیدہ ہے کہ انٹرپول سے رابطے کرتی رہے تاکہ لوگ یہ سمجھتے رہیں کہ وہ سچ مچ مشرف کے ''تعاقب'' میں ہے۔

اس قسم کے کاموں کو ''کارروائی'' ڈالنا بھی کہا جاتا ہے حالانکہ کچھ ''کارروائیاں'' بعض اوقات بہت مہنگی پڑتی ہیں۔

جمعہ کو سرکاری یومِ احتجاج منانے کا فیصلہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے، ''انھیں'' پرسکون یا مطمئن کرنے کے اور بھی طریقے تھے لیکن احتجاج کو '' نیشنلائز'' کرنے کی اِس کوشش سے ملک اور حکومت کو جو کچھ بھگتنا پڑا، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

مشرف کے معاملے میں کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے۔ ایک طرف مقتدر اداروں سے مفاہمت ہے جس کا تقاضا ہے کہ جنرل مشرف کو کچھ نہ کہا جائے اور اگر مشرف کے خلاف عدالتیںکچھ کرتی ہیں تو انھیں کر نے دیا جائے۔ حکومت سکون سے بیٹھی رہے۔ دوسری طرف سیاست اور عوام کے جذبات کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

بہرحال دونوں تقاضوں کو ساتھ ساتھ نبھانے کی کوشش کا انجام یہی ہوگا کہ نئے شواہد ملنے کے بعد بھی انٹرپول کی طرف سے دو حرفی معذرت آ جائے گی۔ جہاں تک محترمہ بے نظیر کے قتل کا تعلق ہے میں نے اوپر بھی لکھا ہے کہ وہ کئی فریقوں کی فنی مہارت کا نتیجہ تھا اور اب بھی اِن جملہ فریقوں کا اتحاد اس بات پر ہے کہ اس کیس کو حقیقی معنوں میں ''ری اوپن'' نہ ہونے دیا جائے۔

مزید ''اتحاد'' یہ بھی ہے کہ کیس ری اوپن ہو جائے تو بات کو زیادہ آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ یہ کوششیں اس حد تک کامیاب رہی ہیں کہ اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کی کیسی حکومت ہے جو اپنی قائد کے قتل کا مقدمہ نہیں چلاسکتی۔ لوگوں کے پاس یہ کہنے کیلیے بھی جواز ہے کہ مشرف کی واپسی کا طبلہ محض اس لیے بجایا جا رہا ہے کہ الیکشن قریب آتا جا رہا ہے۔

بلاشبہ پیپلزپارٹی بے نظیر کے قاتلوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچانا چاہتی ہے اور اکبر بگٹی کے قتل کے کیس میں بھی انصاف کی خواہاں ہے لیکن ''طاقتور'' مجبوریوں نے اسے ''لو پروفائل''کا پابند بنا رکھا ہے۔

حکومت کو اچھی طرح علم ہے کہ پرویز مشرف نہ صرف برطانیہ اور امریکا کے محبوب ہیں بلکہ سعودی عرب نے جلا وطنی کے بعد انھیں اپنے پاس بلا کر عزت افزائی کا جو نمونہ پیش کیا تھا، اُس کا صاف مطلب یہ تھا کہ جو طاقتیں پرویز مشرف کو بحفاظت پاکستان سے با ہر لے گئی ہیں، وہ انہیں ''ملزم'' بنانے اور گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔

ہمیں خط لکھتے اور بیان جاری کرتے رہنا چاہیے۔ مشرف کے معاملے میں بیچارے انٹرپول کو اپنی اوقات کا علم ہے۔ ہمیں اُس سے خط و کتابت جاری رکھنی چاہیے۔

ممکن ہوسکے تو اُسے موم بتیوں کے کچھ بنڈل بھی بھجوا دیے جائیں اور ساتھ ''بگلا'' پکڑنے کا فارمولا بھی لکھ دیا جائے۔ مشرف کو پکڑ کر پاکستان لانے کی یہی ایک صورت ہے ورنہ لکیر پیٹتے جایئے اور میاں نوازشریف کی طرح تالیوں کی گونج میں ایسے اعلان بھی کرتے رہیے، اگر ہم برسر اقتدار آگئے تو بی بی کے قاتلوں کو کٹہرے میں لائیں گے۔
Load Next Story