حالات تازہ ترین

جو پاکستان پرست ہیں وہ یا تو اقتدار پرستوں سے اس قدر مرعوب ہو گئے ہیں کہ ان کے سامنے بولتے نہیں یا پھر ۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ISLAMABAD:
وطن عزیز پاکستان کا کیا حال ہے یہ جاننے کے لیے آج کا اخبار سامنے رکھ لیجیے جس میں آپ کو گزشتہ کل کے پاکستان کا حال صاف صاف لکھا دکھائی دے گا۔ ہر قیمت پر اقتدار پرست لوگوں کی باتیں اور چند احمق پاکستان پرست لوگوں کی باتیں۔ان دونوں طبقوں کا حال پاکستان کا حال ہے۔

اخبار میں پاکستان پرستوں کا حال احوال مختصر سی کسی خبر یا بیان میں مل جائے گا جسے دیکھ کر آپ کو لگے گا کہ اخبار کے نیوز ایڈیٹر نے بڑی بے دلی کے ساتھ یہ خبر اپنے اخبار میں شامل کر لی ہے اس لیے کہ اخبار کے بازار میں اس خبر اور ایسی خبروں کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے اور بازار میں جس مال کی طلب نہ ہو اور جس کی کھپت نہ ہو اسے دکان پر کون رکھتا ہے۔

جو پاکستان پرست ہیں وہ یا تو اقتدار پرستوں سے اس قدر مرعوب ہو گئے ہیں کہ ان کے سامنے بولتے نہیں یا پھر اپنے آپ کو اس قدر ناکارہ اور فضول سمجھتے ہیں کہ سر جھکا کر کسی کونے کھدرے میں زندگی بسر کرنے یا کاٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج کا پاکستان جیسا بھی ہے یہ اقتدار کے لیے سرگرم لوگوں کا پاکستان ہے جنہوں نے پاکستان کے عام گلی کوچوں سے لے کر دارالحکومت اسلام آباد کے خیابانوں تک کو اپنی عملداری میں لے رکھا ہے۔ کسی ملک کی ہنگامہ آرائی بلکہ اس کی سیاسی و حکومتی بے چینی کی سب سے بڑی خبر یہ ہوتی ہے کہ اس کے ریڈیو اسٹیشن پر باغیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔

ہمارے ہاں یہی ہوا کہ حکومتی حکم کے باغی ہجوم کے ایک گروہ نے اسلام آباد میں پاکستان ٹیلی وژن پر قبضہ کر لیا۔ ان میں غالباً کچھ اوباش لوگ بھی شامل تھے۔ انھیں ایک خاتون کارکن دکھائی دی تو اس سے بدتمیزی کی اس کے پرس سے اس کا موبائل فون اور بٹوا بھی اڑا لیا۔ اس نے بھاگ کر کہیں پناہ لی دوسری خواتین نے بھاگ کر ادارے کی مسجد میں پناہ لی۔ جب یہ لوگ ٹی وی کے سازو سامان کا بڑا حصہ تباہ کر چکے تو سیکیورٹی والے بھی یہاں پہنچ گئے ۔ انھوں نے ہنگامہ کرنے والوں کو نکال دیا اور ایک عالمی خبر بنا گئے جس سے دنیا کو اندازہ ہوا کہ پاکستان میں اعلیٰ سطح پر افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور باغیوں نے سرکاری ٹی وی پر قبضہ کر لیا ہے۔

ایسی وارداتوں میں سب سے پہلے ٹی وی پر قبضہ کیا جاتا ہے اور باغی قوم کے نام کوئی پیغام نشر کرتے ہیں لیکن یہ لوگ چونکہ محض ایک ہڑبونگ تھے کسی منصوبے کا حصہ نہ تھے اس لیے ٹی وی کو کچھ نقصان پہنچا کر اور ٹی وی کی کینٹین مکمل طور پر لوٹ کر چلتے بنے۔ یعنی ہمارے باغی بھی کوئی شوقیہ فنکار تھے۔ وہ مسجد کی چٹائیاں لاؤڈ اسپیکر اور نماز کا دوسرا سامان بھی لے گئے۔


تازہ خبر اخباروں نے یہ دی ہے کہ شاہراہ دستور کا نصف حصہ اب حکومت نے واگزار کرا لیا ہے جب کہ باقی حصہ دھرنے والوں کے پاس ہے جو 14-13 اگست سے اسلام آباد پر قابض ہیں اور قبضہ بدستور چلا آ رہا ہے۔ ہمارے عزیز دوست مرحوم اکرام اللہ نیازی کا بیٹا عمران نیازی دھرنے کے ایک حصے کا کمانڈر ہے اوردوسرے کا کمانڈر ایک مشکوک کردار والا طاہر القادری نام کا نصف پاکستانی اور نصف کینیڈی ہے یعنی جو پورا پاکستانی بھی نہیں اس نے پاکستان کے ایک طبقے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ حکومت کا مقصد چونکہ صرف اپنا اقتدار قائم رکھنا ہے اس لیے وہ ان دھرنوں سے بڑی حد تک صرف نظر کر رہی ہے اور سری پائے اور دہی کھا رہی ہے۔

ملک کے حالات پر چھائے ہوئے یہ دن رات کے دھرنے اور حکومت کے اپنے مشغلے ملک کو سولی پر لٹکائے ہوئے ہیں۔ تعجب ہے کہ 14 اگست کو شروع ہونے والے ان ہنگاموں پر اب 4 ستمبر گزرنے والا ہے مگر ہماری حکومت ان دھرنوں پر بیانات تو ہزاروں دے چکی ہے عمل ذرا بھر نہیں کیا اور اب تو حکومت کا اختیار اور رٹ بھی مشکوک ہو چکی ہے۔ وزیراعظم کے پہلو میں کھڑے ہوکر تقریر کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے وزیراعظم کے بار بار کہنے پر بھی وزیراعظم کے ایک پسندیدہ ٹی وی کا نام نہیں لیا اس پر جناب وزیراعظم کے اقتدار کا تصور کر لیں ادھر اسلام آباد کو کنٹرول کرنے کے لیے تین اعلیٰ ترین پولیس افسروں نے معذرت کر لی ہے اور ایسے واقعات تو ہو ہی رہے ہیں کہ پولیس ادھر ادھر ہو گئی اور ہنگامہ کرنے والے اپنی راہ چلے گئے۔

اس دوران جناب اعتزاز احسن کے ایک لطیفے کے سائے میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ جس کے شرکاء کا تاثر یہ تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں مگر حکومت بھی کچھ اپنی اصلاح کر لے۔ ادھر جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق دیوانوں کی طرح سیاسی لیڈروں کے پاس حاضری دے رہے ہیں کہ خدا کے لیے بندے بن جاؤ اور ملک کو بچا لو لیکن اب تک وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ انھیں ڈر ہے کہ یہ لیڈر حضرات تو گھر و گھر چلے جائیں گے لیکن کسی سانحے کی سزا جماعت کو ملے گی جو سقوط ڈھاکہ کی اب تک مل رہی ہے اور بنگلہ دیش میں سولی گڑی ہے۔

جماعت پاکستان کی سلامتی پر مر مٹتی رہی ہے اور اس کا یہ کردار جاری رہے گا لیکن میں جماعت کے قائدین اور کارکنوں سے ایک ضروری عرض کروں گا کہ خدا نخواستہ اگر پھر کوئی سانحہ ہو گیا تو وہ اپنوں کو بھی معاف نہ کریں۔ سقوط ڈھاکہ کے مجرموں کو حالات اور قدرت نے سزا دی۔ اندرا، مجیب اور بھٹو تینوں مرکزی کردار تقدیر کے ہتھے چڑھ گئے۔ یحییٰ خان ایک اذیت ناک زندگی کی سزا پا کر رخصت ہوا لیکن ان قومی مجرموں کو کسی پاکستانی نے کچھ نہ کہا۔ اب عرض یہ ہے کہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہو تو جماعت کے کارکن پہلے اپنے غداروں پر ہاتھ صاف کریں اور پاکستان کا بدلہ ان سے لیں۔

ان دنوں حالات بہتر نہیں ہیں اور سیاسی لیڈر بھی مشکوک ہیں۔ ادھر بھارت بھی پہلے سے زیادہ مشتعل ہے اور امریکا بار بار کہہ رہا ہے وہ حالات میں تبدیلی نہیں آنے دے گا۔ چند الفاظ میں عرض ہے کہ امریکا کی مسلمان ملکوں کے بارے میں تازہ پالیسی ان ملکوں کے اندر بے چینی پیدا کرنا ہے۔ حالات کا ذکر کرتے کرتے اب ہمت جواب دے گئی ہے کل حاضری ہو گی۔
Load Next Story