سیاسی سمجھوتہ یا انارکی

جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی اداروں کے ذریعے اچھی حکمرانی قائم کرنا ہے۔۔۔

ISLAMABAD:
تاریخی طور پر ترقی پسند ہونے کے ناتے پاکستان کے بورژوا (اشرافیہ) طبقے نے سامراجیت اور جاگیردار / قبائلی عناصر کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے اور پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں جاگیردارانہ طرز پر کام کرتی ہیں۔ کسی بھی قابل عمل جمہوریت کے لیے انتخابات اور ان کے نتیجے میں تشکیل دی جانے والی پارلیمنٹ اب محض رسمی قسم کی کارروائیوں کے لیے محدود رہ گئی ہے اور جو منتخب ہوتے ہیں وہ اقتدار کو لوٹ مار اور پہلے سے کچلے ہوئے عوام کو آیندہ پانچ سال کی مدت کے لیے مزید استحصال کرنے کے ہدف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس موقع پر میں 5 مئی1995 ء

میں Direct Vote and Democracy (یعنی براہ راست ووٹ اور جمہوریت) کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کا حوالہ دوں گا کہ ہماری سیاسی قیادت اپنے بچاؤ کے لیے غلط مشوروں کے علاوہ خصوصی مفادات کے گروپوں (اور افراد) پر انحصار کرتی ہے اور اقتدار میں آتے ہی لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے جب کہ انھیں ان لوگوں کا قطعاً کوئی احساس ہی نہیں رہتا جن کے ووٹوں سے وہ منتخب ہو کر اقتدار میں پہنچتے ہیں۔

احتساب کو جمہوریت کے مقدس پتھر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اب آپ عوام کی بے کسی اور بے بسی کے مقابلے میں دوسری طرف اقربا پروری اور کرپشن کے انبار دیکھیں جو ہم نے ایک قوم کی حیثیت سے مشاہدہ کیے ہیں جس میں ہمیں ان کرپٹ لیڈروں کو قبول کرنے سے انکار کر دینا چاہیے جو جمہوریت کے عمل کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے ہیں۔ ایک لیڈر جو اپنے تئیں خود کو جمہوریت کا آفاقی نمونہ قرار دیتے ہیں اور جو ڈائیلاگ ڈائیلاگ کے نعرے بلند کرتے رہے ہیں ان کے 60 ملین ڈالر کے سوئس اکاؤنٹس کے بارے میں کیا خیال ہے۔

کیا کسی نے ان کے نعروں میں کرپشن، کرپشن، کرپشن کی صدائیں بلند ہوتی سنیں؟ کبھی حیرت ہوئی کہ اس کرپشن نے خورشید شاہ کی نیند کبھی اچاٹ نہیں کی۔ سچی جمہوریت میں تو کرپٹ کو پکڑ کر اس کا احتساب کیا جانا چاہیے اور پھر اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ انتخابی عمل کی ان خرابیوں کو دور کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے جن کی وجہ سے تمام انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور اس حوالے سے احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سب سے پہلے مناسب طریقے سے قومی مردم شماری کرائی جائے۔ (واضح رہے کہ ہماری آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔)

نئی مردم شماری کے ساتھ ہی سابقہ انتخابی حلقوں کو بھی کھول دیا جانا چاہیے اور جو بہت واضح اور نمایاں سقم ہیں انھیں دور کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر سندھ کی دیہی حلقہ بندیوں میں پندرہ ہزار ووٹر شامل ہیں جب کہ کراچی میں ایک انتخابی حلقے کے ووٹروں کی تعداد 45000 ہے جو کہ ایک فرد ایک ووٹ کے اصول کی صریح نفی ہے۔ ووٹروں کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ 15 سے 20% تک فرق تو ہو سکتا ہے لیکن 300% کا فرق ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

ہمارا موجودہ انتخابی نظام تقریبا وہی ہے جس کا آغاز بارہویں صدی عیسوی سے ہوا۔ جس کو Majoritarian یعنی اکثریتی یا First past the post (FPTP) سسٹم کہتے ہیں جو کہ بہت سے ممالک میں اصلاح پذیر بھی ہے۔ بہت سی نئی پیدا ہونے والی جمہوریتوں میں یہ مطمئن نہ کرنے والا نظام نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک انتخابی حلقہ 100 ووٹروں اور دس امیدواروں پر مشتمل ہونا چاہیے۔

A گیارہ ووٹ لیتا ہے، B نو لیتا ہے، 8 امیدوار 10,10 فی کس لیتے ہیں، ہم 100% ووٹ کو فرض کر رہے ہیں۔ کوئی یہ انتخاب صرف 11% ووٹوں سے جیت لیتا ہے جب کہ 98% ووٹ اس کے خلاف پڑتے ہیں۔ اگر پاکستان میں اہل ووٹروں میں سے صرف 40% ووٹر ووٹ دیتے ہیں جو کہ پاکستان کا ایک عمومی رجحان ہے تو جیتنے والا امیدوار صرف 5% ووٹ حاصل کر کے بھی جیت سکتا ہے۔


سپریم کورٹ نے جون 2012ء میں ورکرز پارٹی کے مقدمے میں قرار دیا تھا کہ برٹش ماڈل ایف جی ٹی پی سسٹم اکثریت کے اصول کی خلاف ورزی ہے (2008ء کے انتخابات میں معمولی اکثریت سے یعنی 5% سے کم صرف 40% تک ووٹ لینے والے جیت گئے) اور متناسب نمایندگی کے اصول کے تحت ''رن آف'' ووٹنگ بھی نہیں ہوئی جو کہ اس موقع پر لازمی سمجھی جاتی ہے جب کوئی امیدوار واضح اکثریت حاصل نہ کر سکا ہو۔

جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی اداروں کے ذریعے اچھی حکمرانی قائم کرنا ہے جب کہ اقتدار میں آنیوالے جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ 19 مارچ 2014ء کو سپریم کورٹ میں ایک سول اپیل نمبر 297 دائر کی گئی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ بلدیاتی الیکشن کو نو سال تک نظرانداز کیے رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ 45 دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کریں۔ یہ مدت 3 مئی 2014ء کو ختم ہو گئی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 19 مارچ 2014ء سے5 مہینے کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروانے تھے۔ (یہ تاریخ بھی 18 اگست 2014ء کو ختم ہو گئی) لیکن کوئی نہیں سنتا۔ ہمارے عزت مآب چیف جسٹس اپنے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں خاموش نہ رہیں کیونکہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے جب کہ جمہوریت میں آئین سب سے سپریم ہوتا ہے۔ اس کے لیے خواہ آپ حکومت ہوں، سیاسی پارٹی ہوں یا عوام الناس۔ آپ پر سپریم کورٹ کا اتباع لازم ہے۔ کیونکہ آپ اگر ایسا نہ کریں گے تو آپ کو اس کے مضمرات کا سامنا کرنا پڑے گا اور قانون کے تحت آپ کو جیل بھی ہو سکتی ہے۔

جب تک انتخابی عمل میں کوئی ندرت اور تازگی پیدا نہیں کی جائے گی ہمارے قانون ساز اپنے اختیارات اور مراعات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہیں گے جو مراعات اس نظام نے نہایت فراخدلانہ طور پر ان پر نچھاور کر رکھی ہیں جب کہ معاشرہ اسی طرح تڑپتا رہے گا۔

اہم انتخابی اصلاحات فوری طور پر اور اتفاق رائے سے کی جانی چاہئیں۔ (1) تمام اسمبلیوں بشمول سینیٹ کا انتخاب براہ راست ووٹ سے کرایا جائے۔ (2) امیدوار کو سب سے پہلے پارٹی کی بنیادی سطح پر منتخب ہونا چاہیے اور اسے ایک سے زیادہ نشست کے لیے کھڑے ہونے کی اجازت نہ ہونی چاہیے۔ (3) امیدوار رجسٹرڈ ٹیکس دہندہ ہونا چاہیے جو اپنے تمام اثاثوں کا اعلان کرے اور ثبوت کے ساتھ بتائے کہ پچھلے تین سال میں اس نے کتنا ٹیکس دیا ہے۔ کامیاب ہونے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ 50% سے زیادہ اکثریت حاصل کرے۔ بصورت دیگر پہلے دو امیدواروں کو ''رن آف'' الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔

اسے اپنے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں کے اثاثے بھی بتانا پڑیں گے۔ (5) اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات کے فوراً بعد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ اسمبلی کی مدت 4 سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسمبلیوں میں 25% نشستیں متناسب نمایندگی (PR) کے ذریعے پُر ہونی چاہئیں جس کے لیے پارٹیاں ووٹ ڈالیں اور اسی طرح 25% نشستیں پارٹی کی بنیاد پر خواتین کو دی جانی چاہئیں۔ صدارتی انتخاب براہ راست ووٹ سے ہونا چاہیے اور صدارتی امیدوار کی کسی پارٹی سے وابستگی نہیں ہونی چاہیے لیکن اسے وہ پارٹی نامزد کرے جس کے قومی اسمبلی میں 10% سے کم ووٹ نہ ہوں اور صوبوں میں گورنر کے انتخاب کے لیے اسی طریق کار پر عمل ہونا چاہیے۔ تمام امیدواروں کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے اور ان کے احتساب کا انتظام بھی رکھا جائے۔

انتخابی عمل کی بنیادی اصلاح سے حقیقی جمہوریت کی شکل نظر آنی چاہیے اور اس کا آغاز گراس روٹ کی سطح سے کیا جانا چاہیے۔ آیا عمران خان یا طاہر القادری منتخب ہوتے ہیں یا نہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ البتہ انھوں نے ایک تبدیلی کا دروازہ ضرور کھول دیا ہے۔
Load Next Story