اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
سیاستدان کس مرض کی دوا ہیں؟ جب وہ خود اپنے پیدا کردہ جھگڑے خود چکا نہیں سکتے۔۔۔
ISLAMABAD:
گزشتہ دو راتوں کو دیر تک ٹی وی کے آگے (خلاف معمول) اس امید پر ڈٹے رہے کہ (پہلی رات) ملکی بگڑتی صورتحال پر کوئی حتمی رائے یا فارمولا حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے میں کامیاب ہو جائے۔ مگر حالات جوں کے توں رہے۔ کور کمانڈر کانفرنس نے حکومت کو چند صائب مشورے دیے وطن عزیز کے تحفظ اور جمہوریت کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی، دارالحکومت کی بگڑتی صورتحال اور طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا حالات کو درست کرنے کی ذمے داری حکومت اور سیاستدانوں یعنی دھرنے والوں پر ڈال دی۔ بات بھی درست ہے کہ افواج پاکستان ملک کی دفاعی ذمے داریاں سنبھالیں اور ملک کے اندرونی معاملات سیاستداں۔ اگر ملک اندرونی خلفشار میں مبتلا ہوتا ہے اور فوج مداخلت کرے تو پھر اس پر تنقید کی جاتی ہے۔
تو آخر سیاستدان کس مرض کی دوا ہیں؟ جب وہ خود اپنے پیدا کردہ جھگڑے خود چکا نہیں سکتے تو پھر ملک تو ایسے ہی چلے گا۔ مگر ہر سیاستدان ایسا ہوتا نہیں ہے مخلص سیاستدان ملک کو نقصان پہنچانے والے اقدام کے خلاف کھل کر اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر حق بات کہنے اور اصولوں پر کسی قسم کی سودے بازی سے دامن بچانے کی جرأت کرتے ہیں۔ وہ سیاستدان جن کی ''عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں ''اس کی تازہ مثال (باغی کا خطاب رکھنے والے) جناب جاوید ہاشمی نے پیش کی ہے۔
حالانکہ ایک وقت تھا کہ اخبارات اور دیگر ذرایع ابلاغ میں ان کے پی ٹی آئی میں شمولیت کو ''ہوا کا رخ دیکھ کر بدل جانیوالوں'' کے طور پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ اب یہ ہاشمی صاحب کی غلطی تھی یا سیاسی حکمت عملی بہرحال یہ تو طے ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے غیر محتاط اور متزلزل انداز سیاست پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا (ان کو اپنے تجربات کی روشنی میں نہ صرف سمجھاتے رہے بلکہ انھیں درست سیاسی رویہ اختیار کرنے پر بھی محنت کرتے رہے) موجودہ اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں میاں صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انھیں اپنا لیڈر کہنے پر کپتان صاحب نے نہ صرف (ایک اطلاع کے مطابق) تحریری بلکہ میڈیا کے سامنے بھی انھیں اپنے اس جملے پر معذرت کرنے اور الفاظ واپس لینے پر مجبور کیا۔ اس صورتحال پر ہاشمی صاحب کبیدہ خاطر ہوکر کچھ دنوں تک ایوان میں نہ آئے اور جب آئے بھی تو پچھلی نشستوں پر سب سے الگ تھلگ بیٹھے رہتے تھے اور پی ٹی آئی کا کوئی فرد ان کو مناکر ان کی مخصوص نشست پر لانے تک کا روادار نہ ہوا۔
دھرنوں کے آغاز پر بھی ہاشمی صاحب کپتان کے انداز سے ناراض ہوکر اپنے گھر جا بیٹھے تھے مگر پارٹی کے کچھ لوگ ان کو کسی نہ کسی طرح مناکر لانے میں کامیاب ہوگئے طبیعت کی ناسازی کے باوجود اس عمر میں وہ مسلسل پارٹی ڈسپلن کی خاطر دھرنوں میں موجود رہے۔ مگر کیونکہ آدمی ذرا اصولی ہیں لہٰذا جب لاہور سے چلتے وقت جن لوگوں نے درمیان میں پڑ کر ان دونوں کو (کپتان اور علامہ) مارچ کی اجازت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ان سے انھوں نے (دونوں سربراہان دھرنا) وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام آباد میں مقررہ جگہ پر دھرنا دیں گے اور ریڈ زون میں ہرگز داخل نہ ہوں گے۔ اس وعدے پر دونوں حضرات کو ''انقلاب اور آزادی مارچ'' کی اسلام آباد روانگی کی اجازت دلوائی گئی۔ مگر اسلام آباد پہنچ کر موصوف اپنے مطالبات میں نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کرتے رہے بلکہ اپنے محسنوں سے وعدہ کو بھی فراموش کردیا اور ریڈ زون کی طرف تمام تر رکاوٹوں کو ہٹاکر بڑھنے کا اعلان بھی کردیا۔
اس وعدہ خلافی پر ہاشمی صاحب نے کپتان کو نہ صرف سمجھانے بلکہ وعدہ خلافی کے ردعمل سے بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر کپتان کے آگے جب ان کی نہ چلی تو وہ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر گھر چلے گئے۔ بعد میں اس صورتحال کو پریس کے سامنے بھی پیش کردیا۔ کپتان صاحب نے ہاشمی صاحب کو پارٹی کی صدارت سے فارغ کرکے اپنے راستے ان سے جدا کرکے (یعنی ایک منتخب صدر کو غیر منتخب چیئرمین نے صدارت سے الگ کردیا) نہ صرف ریڈ زون بلکہ پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سترہ اٹھارہ دن کے دھرنے میں حکومت نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا کسی قسم کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا (سوائے وزراء کے منتشر بیانات کے) اور بار بار اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر مظاہرین پرامن رہیں سرکاری اور غیرملکی املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے تو ہم بھی کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے ''ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں'' واقعی انھوں نے سرکاری اور غیرملکی عمارات کے تحفظ کے لیے جو ممکنہ اقدام کیے تھے اس کے سوا کچھ نہ کیا۔
مگر جس بات کا خدشہ تھا وہ ہوکر رہا۔ حکومتی ارکان کی جانب سے یہ بات بار بار کہی جا رہی تھی کہ علامہ اور کپتان خون خرابہ چاہتے ہیں۔ وہ کسی بھی صورت معاملات کو گفت و شنید سے حل کرنے پر آمادہ نہیں۔ کچھ دور اندیشوں اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں نے دھرنوں اور مارچ کے آغاز سے قبل ہی اس امکان کا اظہار کردیا تھا کہ دونوں مارچ ایک ہی دن ایک ساتھ اسلام آباد پہنچیں گے اور بالآخر اختتام سے قبل ایک ہی ہوجائیں گے اور واقعی ایک نکاتی ایجنڈے پر دونوں ہم خیال ہوگئے وہ ایجنڈا وزیر اعظم کا مستعفی ہونا تھا۔
اب ذرا ان مارچوں اور دھرنوں کی چند روزہ تاریخ پر نظر ڈالیے تو دونوں حضرات کن مقاصد کو لے کر چلے تھے اور کن مطالبات پر آکر ٹھہرے؟ ایک وقت تھا جب کپتان فرما رہے تھے کہ نہ ہم جمہوریت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور نہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر آنچ آنے دیں گے اور اب وہ نہ جمہوریت کو تسلیم کر رہے ہیں نہ پارلیمنٹ کو (رات وہ ان سب کو فراڈ اور دھاندلی کی پیداوار قرار دے چکے ہیں) اور تمام اراکین پارلیمنٹ نے عوام کا مینڈیٹ چرایا ہے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ''ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں'' ہمارے کئی تجربہ کارکالم نگار، اور بہترین تجزیہ کار کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ جس جمہوریت کو بچانے کی بات ہو رہی ہے وہ ہے کہاں؟ حکمرانوں کو تو پہلے ہی بادشاہ کا خطاب مل چکا ہے۔
ملکی آبادی کا 98 فیصد اس نام نہاد جمہوریت کے ثمرات سے تاحال محروم ہے۔مسلم لیگ کی قیادت کو تین بار قوم کی خدمت کا موقع ملا اس بار لوگوں کو ان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ گزشتہ تلخ تجربات نے انھیں بہت کچھ سکھایا ہوگا۔ مگر وائے نادانی ہماری کہ ہم ہر بار بھول جاتے ہیں کہ ہم دنیا کی وہ انوکھی قوم ہیں جو بڑے سے بڑے حادثے اور تلخ سے تلخ تجربے سے بھی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ حکومت کی ناقص کارکردگی اپنی جگہ عوام کے حالات بد سے بدتر۔ مگر کیا کہنے والوں اور لکھنے والوں نے یہ نہیں لکھا کہ ''بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔'' تو جو جمہوریت بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں وہ دراصل یہی چاہتے ہیں کہ اصلاحات پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتی رہیں اور جمہوریت قائم رہے آخر کار حقیقی جمہوریت رائج ہوجائے۔
اس انداز فکر کو سامنے رکھیں تو یہ کچھ غیر مناسب بھی نہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک'' آخر اس حقیقی جمہوریت کے نمودار ہونے کا کوئی حتمی وقت بھی تو متعین ہونا چاہیے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر جو الزامات عاید کیے جا رہے ہیں ان دونوں میں وزن بھی ہے اور خاصے مدلل بھی (کون درست کون غلط یہ وقت بتائے گا) جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ بالآخر اپنا فیصلہ سناتی ہے ایک نسل کی غلطیوں کا خمیازہ آیندہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ یہ غلطیاں اور خودغرضیاں تو پوری پوری قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہیں (اللہ نہ کرے ہم اس قوم میں شامل ہوں)
بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ہونے کے آثار واضح تھے یعنی غریب عوام کی جانوں کا ضیاع اور ہمیشہ کی طرح قائدین کو خراش تک نہ آئی۔ وہ تو ایئرکنڈیشنڈ کنٹینرز میں محفوظ رہے عوام چلچلاتی دھوپ، بارش، گرمی اور حبس کی سختیاں جھیلتے رہے اور صبح بہاراں کی آس میں نعرے لگاتے، رقص کرتے مرتے رہے۔ انھیں کیا ملا؟ یہ آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ ایک بات ہے کہ ان دھرنوں سے ملک کو جو معاشی نقصان ہوا وہ تو ہوا مگر عوام کو کچھ کچھ اپنے حقوق اور حکمرانوں کو کچلے ہوئے عوام کی طاقت کا اندازہ ضرور ہوگیا ہوگا اور شاید وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہوجائیں اقتدار جس کو وہ جمہوریت کہتے ہیں اس کو واقعی عوام کی امانت سمجھیں۔ آیندہ کے حکمران شاید دیوار سیاست پر لکھا واضح پیغام پڑھنے کی جرأت ضرور کریں گے۔
گزشتہ دو راتوں کو دیر تک ٹی وی کے آگے (خلاف معمول) اس امید پر ڈٹے رہے کہ (پہلی رات) ملکی بگڑتی صورتحال پر کوئی حتمی رائے یا فارمولا حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے میں کامیاب ہو جائے۔ مگر حالات جوں کے توں رہے۔ کور کمانڈر کانفرنس نے حکومت کو چند صائب مشورے دیے وطن عزیز کے تحفظ اور جمہوریت کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی، دارالحکومت کی بگڑتی صورتحال اور طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا حالات کو درست کرنے کی ذمے داری حکومت اور سیاستدانوں یعنی دھرنے والوں پر ڈال دی۔ بات بھی درست ہے کہ افواج پاکستان ملک کی دفاعی ذمے داریاں سنبھالیں اور ملک کے اندرونی معاملات سیاستداں۔ اگر ملک اندرونی خلفشار میں مبتلا ہوتا ہے اور فوج مداخلت کرے تو پھر اس پر تنقید کی جاتی ہے۔
تو آخر سیاستدان کس مرض کی دوا ہیں؟ جب وہ خود اپنے پیدا کردہ جھگڑے خود چکا نہیں سکتے تو پھر ملک تو ایسے ہی چلے گا۔ مگر ہر سیاستدان ایسا ہوتا نہیں ہے مخلص سیاستدان ملک کو نقصان پہنچانے والے اقدام کے خلاف کھل کر اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر حق بات کہنے اور اصولوں پر کسی قسم کی سودے بازی سے دامن بچانے کی جرأت کرتے ہیں۔ وہ سیاستدان جن کی ''عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں ''اس کی تازہ مثال (باغی کا خطاب رکھنے والے) جناب جاوید ہاشمی نے پیش کی ہے۔
حالانکہ ایک وقت تھا کہ اخبارات اور دیگر ذرایع ابلاغ میں ان کے پی ٹی آئی میں شمولیت کو ''ہوا کا رخ دیکھ کر بدل جانیوالوں'' کے طور پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ اب یہ ہاشمی صاحب کی غلطی تھی یا سیاسی حکمت عملی بہرحال یہ تو طے ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے غیر محتاط اور متزلزل انداز سیاست پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا (ان کو اپنے تجربات کی روشنی میں نہ صرف سمجھاتے رہے بلکہ انھیں درست سیاسی رویہ اختیار کرنے پر بھی محنت کرتے رہے) موجودہ اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں میاں صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے انھیں اپنا لیڈر کہنے پر کپتان صاحب نے نہ صرف (ایک اطلاع کے مطابق) تحریری بلکہ میڈیا کے سامنے بھی انھیں اپنے اس جملے پر معذرت کرنے اور الفاظ واپس لینے پر مجبور کیا۔ اس صورتحال پر ہاشمی صاحب کبیدہ خاطر ہوکر کچھ دنوں تک ایوان میں نہ آئے اور جب آئے بھی تو پچھلی نشستوں پر سب سے الگ تھلگ بیٹھے رہتے تھے اور پی ٹی آئی کا کوئی فرد ان کو مناکر ان کی مخصوص نشست پر لانے تک کا روادار نہ ہوا۔
دھرنوں کے آغاز پر بھی ہاشمی صاحب کپتان کے انداز سے ناراض ہوکر اپنے گھر جا بیٹھے تھے مگر پارٹی کے کچھ لوگ ان کو کسی نہ کسی طرح مناکر لانے میں کامیاب ہوگئے طبیعت کی ناسازی کے باوجود اس عمر میں وہ مسلسل پارٹی ڈسپلن کی خاطر دھرنوں میں موجود رہے۔ مگر کیونکہ آدمی ذرا اصولی ہیں لہٰذا جب لاہور سے چلتے وقت جن لوگوں نے درمیان میں پڑ کر ان دونوں کو (کپتان اور علامہ) مارچ کی اجازت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ان سے انھوں نے (دونوں سربراہان دھرنا) وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام آباد میں مقررہ جگہ پر دھرنا دیں گے اور ریڈ زون میں ہرگز داخل نہ ہوں گے۔ اس وعدے پر دونوں حضرات کو ''انقلاب اور آزادی مارچ'' کی اسلام آباد روانگی کی اجازت دلوائی گئی۔ مگر اسلام آباد پہنچ کر موصوف اپنے مطالبات میں نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کرتے رہے بلکہ اپنے محسنوں سے وعدہ کو بھی فراموش کردیا اور ریڈ زون کی طرف تمام تر رکاوٹوں کو ہٹاکر بڑھنے کا اعلان بھی کردیا۔
اس وعدہ خلافی پر ہاشمی صاحب نے کپتان کو نہ صرف سمجھانے بلکہ وعدہ خلافی کے ردعمل سے بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر کپتان کے آگے جب ان کی نہ چلی تو وہ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر گھر چلے گئے۔ بعد میں اس صورتحال کو پریس کے سامنے بھی پیش کردیا۔ کپتان صاحب نے ہاشمی صاحب کو پارٹی کی صدارت سے فارغ کرکے اپنے راستے ان سے جدا کرکے (یعنی ایک منتخب صدر کو غیر منتخب چیئرمین نے صدارت سے الگ کردیا) نہ صرف ریڈ زون بلکہ پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سترہ اٹھارہ دن کے دھرنے میں حکومت نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا کسی قسم کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا (سوائے وزراء کے منتشر بیانات کے) اور بار بار اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر مظاہرین پرامن رہیں سرکاری اور غیرملکی املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے تو ہم بھی کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے ''ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں'' واقعی انھوں نے سرکاری اور غیرملکی عمارات کے تحفظ کے لیے جو ممکنہ اقدام کیے تھے اس کے سوا کچھ نہ کیا۔
مگر جس بات کا خدشہ تھا وہ ہوکر رہا۔ حکومتی ارکان کی جانب سے یہ بات بار بار کہی جا رہی تھی کہ علامہ اور کپتان خون خرابہ چاہتے ہیں۔ وہ کسی بھی صورت معاملات کو گفت و شنید سے حل کرنے پر آمادہ نہیں۔ کچھ دور اندیشوں اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں نے دھرنوں اور مارچ کے آغاز سے قبل ہی اس امکان کا اظہار کردیا تھا کہ دونوں مارچ ایک ہی دن ایک ساتھ اسلام آباد پہنچیں گے اور بالآخر اختتام سے قبل ایک ہی ہوجائیں گے اور واقعی ایک نکاتی ایجنڈے پر دونوں ہم خیال ہوگئے وہ ایجنڈا وزیر اعظم کا مستعفی ہونا تھا۔
اب ذرا ان مارچوں اور دھرنوں کی چند روزہ تاریخ پر نظر ڈالیے تو دونوں حضرات کن مقاصد کو لے کر چلے تھے اور کن مطالبات پر آکر ٹھہرے؟ ایک وقت تھا جب کپتان فرما رہے تھے کہ نہ ہم جمہوریت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور نہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر آنچ آنے دیں گے اور اب وہ نہ جمہوریت کو تسلیم کر رہے ہیں نہ پارلیمنٹ کو (رات وہ ان سب کو فراڈ اور دھاندلی کی پیداوار قرار دے چکے ہیں) اور تمام اراکین پارلیمنٹ نے عوام کا مینڈیٹ چرایا ہے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ''ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں'' ہمارے کئی تجربہ کارکالم نگار، اور بہترین تجزیہ کار کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ جس جمہوریت کو بچانے کی بات ہو رہی ہے وہ ہے کہاں؟ حکمرانوں کو تو پہلے ہی بادشاہ کا خطاب مل چکا ہے۔
ملکی آبادی کا 98 فیصد اس نام نہاد جمہوریت کے ثمرات سے تاحال محروم ہے۔مسلم لیگ کی قیادت کو تین بار قوم کی خدمت کا موقع ملا اس بار لوگوں کو ان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ گزشتہ تلخ تجربات نے انھیں بہت کچھ سکھایا ہوگا۔ مگر وائے نادانی ہماری کہ ہم ہر بار بھول جاتے ہیں کہ ہم دنیا کی وہ انوکھی قوم ہیں جو بڑے سے بڑے حادثے اور تلخ سے تلخ تجربے سے بھی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ حکومت کی ناقص کارکردگی اپنی جگہ عوام کے حالات بد سے بدتر۔ مگر کیا کہنے والوں اور لکھنے والوں نے یہ نہیں لکھا کہ ''بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔'' تو جو جمہوریت بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں وہ دراصل یہی چاہتے ہیں کہ اصلاحات پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتی رہیں اور جمہوریت قائم رہے آخر کار حقیقی جمہوریت رائج ہوجائے۔
اس انداز فکر کو سامنے رکھیں تو یہ کچھ غیر مناسب بھی نہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک'' آخر اس حقیقی جمہوریت کے نمودار ہونے کا کوئی حتمی وقت بھی تو متعین ہونا چاہیے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر جو الزامات عاید کیے جا رہے ہیں ان دونوں میں وزن بھی ہے اور خاصے مدلل بھی (کون درست کون غلط یہ وقت بتائے گا) جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ بالآخر اپنا فیصلہ سناتی ہے ایک نسل کی غلطیوں کا خمیازہ آیندہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ یہ غلطیاں اور خودغرضیاں تو پوری پوری قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہیں (اللہ نہ کرے ہم اس قوم میں شامل ہوں)
بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ہونے کے آثار واضح تھے یعنی غریب عوام کی جانوں کا ضیاع اور ہمیشہ کی طرح قائدین کو خراش تک نہ آئی۔ وہ تو ایئرکنڈیشنڈ کنٹینرز میں محفوظ رہے عوام چلچلاتی دھوپ، بارش، گرمی اور حبس کی سختیاں جھیلتے رہے اور صبح بہاراں کی آس میں نعرے لگاتے، رقص کرتے مرتے رہے۔ انھیں کیا ملا؟ یہ آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ ایک بات ہے کہ ان دھرنوں سے ملک کو جو معاشی نقصان ہوا وہ تو ہوا مگر عوام کو کچھ کچھ اپنے حقوق اور حکمرانوں کو کچلے ہوئے عوام کی طاقت کا اندازہ ضرور ہوگیا ہوگا اور شاید وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہوجائیں اقتدار جس کو وہ جمہوریت کہتے ہیں اس کو واقعی عوام کی امانت سمجھیں۔ آیندہ کے حکمران شاید دیوار سیاست پر لکھا واضح پیغام پڑھنے کی جرأت ضرور کریں گے۔