سیاست اور پشتونوں کے مسائل
11مئی 2013کے انتخابات میں پشتون خواہ میپ کے عوامی مینڈیٹ کو کچھ حلقوں نے ۔۔۔
محمود خان اچکزئی پشتونوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں۔ طویل عرصے تک ان کی شخصیت غیرمتنازعہ رہی، تاہم گزشتہ ایک سال سے وہ بھی تنقیدی خبروں کی زد میں ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محمود خان اچکزئی پر تنقید کے باوجود آج بھی بلوچستان کے پچانوے فیصد پشتون عوام سیاسی وسماجی زعماء اور سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی کارکن اس بات پر متفق ہیں کہ محمود خان اچکزئی کے سیاسی فیصلوں میں غلطی اور کمزوری تو ہو سکتی ہے تاہم وہ بے ایمانی،ضمیر فروشی اور قوم فروشی جیسے غیر انسانی عمل میں ملوث نہیں ہو سکتے۔
11مئی 2013کے انتخابات میں پشتون خواہ میپ کے عوامی مینڈیٹ کو کچھ حلقوں نے انتہائی منفی انداز میں پیش کیا ہے جو سیاسی تنگ نظری اور بددیانتی ہے ۔ حالانکہ 2013کے انتخابات میں اب بھی پشتون خواہ میپ کو اپنے اہدا ف سے کم نشستیں ملی ہیں۔ 2013کے سیاسی ومعروضی حالات کے پیش نظر مقامی تجزیوں کے مطابق پشتون خواہ میپ کو پندرہ جنرل نشستیں ملنی تھیں کیونکہ پشتون بیلٹ میں پشتون خواہ میپ کا ہمیشہ سے انتخابات میں مقابلہ جے یو آئی (ف) سے رہا ہے،2013کے انتخابات میں بلوچستان میں بالخصوص پشتون بیلٹ جے یو آئی دو واضح دھڑوں میں تقسیم تھی ۔ جس کا زیادہ فائدہ بھی پشتون خواہ میپ کے امیدواروں کو ملا۔ اس کے علاوہ 2002ء سے 2013ء تک کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے شہروں میں بد امنی اور اغواء برائے تاوان کے وارداتوں کے خلاف سب سے مؤثر آواز بھی پشتون خواہ میپ نے اٹھائی ۔ جب کہ سابق صوبائی حکومت کے ناقص پالیسیوں اور کرپشن وکمیشن کے خلاف بھی سب سے زیادہ جدوجہد پشتون خواہ میپ کے پلیٹ فارم سے ہوئی ۔
اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پشتون خواہ میپ کو زیادہ نشستیں ملنی چاہئیں تھی۔ کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ کی قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں ماضی میں بھی محمود خان اچکزئی جیت چکے ہیں جہاں تک اپنے بھائی کو گورنر بنانے کی بات ہے تو ا س حوالے سے بھی میڈیا میں غیر ضروری تنقید کی گئی ہے ۔ محمود خان اچکزئی اور ان کے والد کی سیاسی تاریخ تقریبا ً کم ازکم 75سال پر مبنی ہے ۔ اتنی طویل مدت میں اس خاندان نے آج تک کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں کیا ۔ جس گورنر ہاؤس میں آج محمو د خان اچکزئی کا بھائی گورنر ہے اسی گورنر ہاؤس میں ان کے والد شہید عبدالصمد خان اچکزئی سیاسی قیدی رہے ہیں ۔
یہ تاریخ کا ایک خوشگوار لمحہ ہے کہ آج اسی گورنر ہاؤ س میں ان کا بیٹا گورنر ہے اور ویسے بھی انھوں نے گورنر ہاؤس کے پہلی مرتبہ ہر عام وخواص کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ اب تو کمشنر سے ملاقات مشکل اور گورنر بلوچستان سے ملاقات آسان ہے ۔ گورنر ہاؤس میں غریب بلوچوں اور پشتونوں کے مسائل نہ صرف سنے جارہے ہیں بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے گورنر ہاؤس سے تمام متعلقہ محکموں کو تحریری وزبانی احکامات بھی دیے جارہے ہیں جو ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ محمو د خان اچکزئی پر یہ بھی تنقید ہو رہی ہے کہ انھوں نے خاندان کے کئی افراد کو پارلیمانی عہدے دیے ہیں جو درست نہیں ۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کو پارٹی کے شہید کارکنوں کے خاندانوں میں انتہائی میرٹ پر تقسیم کیا گیا ہے ۔ محمود اچکزئی کی پارٹی کو مشرف دورمیں بھی گورنشپ کے عہدے کی پیش کش ہوئی جواس پارٹی نے قبول نہیں کی 2008 کے انتخابات میں جب محمود خان اچکزئی کی پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اور محمود خان اچکزئی پارلیمنٹ کے رکن نہیں تھے تو بھی نواز شریف اور آصف زرداری دونوں نے انھیں لاہور اور سندھ کے ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کی آفر کی جو انھوں نے شکریے کے ساتھ واپس کی۔ جب کہ جمہوری اور عوامی مینڈیٹ سے گورنر کا عہدہ ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے ۔ اور یہ اس پارٹی کا اندرونی مسئلہ ہے کہ وہ گورنر کے عہدے کے لیے کس کو منتخب کرتے ہیں۔
ایسی روایات ہمارے ملک میں پہلے سے چلی آرہی ہیں یعنی نوازشریف ، شہباز شریف ، حمزہ شہباز ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا عطاء الرحمن اور مولانا لطف الرحمن تینوں بھائی سیاست میں قومی اسمبلی کے ممبران ہیں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے دوبیٹے ایم این اے رہے ۔ ماضی میں خان عبدالولی خان اور ان کی اہلیہ دونوں سیاست میں اور اقتدار میں رہیں۔ اسفند یار ولی پارٹی کے صدر ایم این اے ان کے رشتہ دار حید ر ہوتی صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ۔ تو پھر صرف محمود خان اچکزئی کو اپنے بھائی کے گورنر کے طعنے کیوں دیے جارہے ہیں۔ ان باتوں میں یقیناً کوئی وزن نہیں ہے ۔ اگر وزن ہے تو اس بات میں ہے کہ محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت اس وقت بلوچستان کے لاکھوں پشتونوں کی نہ صرف نمایندگی کر رہی ہے بلکہ صوبے کی نصف حکمرانی ان کے پاس ہے ۔
جب کہ مرکز میں بھی محمود خان اچکزئی کی کسی جائز بات کو وزیر اعظم نوازشریف نظر اندازنہیں کر سکتے ۔ بلوچستان کے لاکھوں پشتون محمود اچکزئی اور ان کی جماعت سے یہ پوچھنے حق بجانب ہیں کہ آج ان کے مسائل ومشکلات میں کمی کیوں نہیں آرہی۔ اگر محمود خان اچکزئی وزیر اعظم نوازشریف کو کابل کے دورے کرا سکتے ہیں تو پھر کیوں آج وزیر اعظم اوروفاقی وزراء صوبے کے پشتون اضلاع کے دورے نہیں کر رہے ۔ وفاقی بجٹ میں بقول پشتون خواہ میپ کے رکن اسمبلی عبدالقہار خان کے وفاقی سالانہ بجٹ میں صوبے کے پشتون اضلاع کو نظر انداز کیا گیا ہے جو حیران کن اور خود موجودہ دور میں پشتون خواہ میپ کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
کیونکہ آج اخباری بیانات کا دور نہیں بلکہ عملی اقدامات کا وقت ہے۔ پشتون قوم نے تقریباً بیس سال تک جلسہ جلوس اور ہڑتالوں مظاہروں میں پشتون خواہ میپ کا بھر پور ساتھ دیا اور2013کے انتخابات میں ووٹ کی طاقت سے صوبے اور مرکزمیں انھیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ہے۔ لہذا آج پشتون عوام کو عملی اقدامات نظر آنے چاہئیں۔ بلوچستان کے پشتونوں کو وفاقی محکموں ریلوے ، پی آئی اے ، واپڈا ، مالیاتی اداروں ، بینکوں ، گیس کمپنی سمیت دیگر وفاقی محکموں میں تعلیم یافتہ پشتون و بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے کیوں اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ 65سالہ پاکستانی تاریخ میں آج تک پشتون علاقوں میں کوئی میگا پروجیکٹ یا بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا جا رہاہے۔ پورا پشتون علاقہ بھوک وافلاس اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پشتون قوم کا واحد ذریعہ معاش زراعت مکمل تباہ ہو چکا ہے ۔ آج پشتون خواہ میپ بالخصوص محمود خان اچکزئی کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ جمہوریت کابل اور اسلام آباد کے معاملات کے ساتھ ساتھ پشتونوں کے مسائل اور مشکلات کو مد نظر رکھیں ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جمہوریت اور سیاست کی رو سے محمود خان اچکزئی کابل اور جمہوریت سے زیادہ بلوچستان کے پشتونوں کے نمایندہ لیڈر ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت میں بلوچستان کے پشتونوں کی تعداد 342کے ایوان میں محض سات ممبران بنتی ہے۔ لہذا جمہوریت کی خدمت بھی اسی تناسب سے ہونی چاہیے ۔
پاکستان کی اکثر بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں آصف زرداری ، نواز شریف ، الطاف حسین ،اسفند یار ولی ،سراج الحق ، مولانا فضل الرحمن ،حاصل بزنجو سمیت ملک کی تمام جمہوری لیڈرشپ نے حالیہ طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں کے حوالے سے جمہوری رویہ اپنایا ہے اور محتاط انداز میں الفاظ کا استعمال کیا ہے مثلاً جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، ماورائے آئین اقدام قبول نہیںکریں گے غیر جمہوری اقدام قبول نہیں ۔ لہذا محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی بھی اپنے سیاسی جلسوں اور تقریروں اور بیانات میں فوج اور جی ایچ کیو کا براہ راست نام اگر نہ لے تو مناسب بات ہوگی۔
جتنی بھی بڑی اور اچھی جمہوریت ہوگی تو حکمرانی زرداری یا نوازشریف کی ہوگی ۔جمہوریت کی گونج صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنی پارٹی کے اندر بھی جمہوریت کے جلوے نظر آنے چاہئیں ۔ پارٹی کو ایک ٹرسٹ کی طرز کی بجائے مہذب جمہوری اورسیاسی انداز میں چلایا جائے ۔ ہر تین سال بعد پارٹی میں رکن سازی اور یونین کونسل سے تحصیل وضلع صوبائی ومرکزی عہدوں پر باضابطہ خفیہ رائے دہی کی طرز پر الیکشن کروائے جائیں ۔ یہی گراس روٹ جمہوریت ہوتی ہے۔
11مئی 2013کے انتخابات میں پشتون خواہ میپ کے عوامی مینڈیٹ کو کچھ حلقوں نے انتہائی منفی انداز میں پیش کیا ہے جو سیاسی تنگ نظری اور بددیانتی ہے ۔ حالانکہ 2013کے انتخابات میں اب بھی پشتون خواہ میپ کو اپنے اہدا ف سے کم نشستیں ملی ہیں۔ 2013کے سیاسی ومعروضی حالات کے پیش نظر مقامی تجزیوں کے مطابق پشتون خواہ میپ کو پندرہ جنرل نشستیں ملنی تھیں کیونکہ پشتون بیلٹ میں پشتون خواہ میپ کا ہمیشہ سے انتخابات میں مقابلہ جے یو آئی (ف) سے رہا ہے،2013کے انتخابات میں بلوچستان میں بالخصوص پشتون بیلٹ جے یو آئی دو واضح دھڑوں میں تقسیم تھی ۔ جس کا زیادہ فائدہ بھی پشتون خواہ میپ کے امیدواروں کو ملا۔ اس کے علاوہ 2002ء سے 2013ء تک کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے شہروں میں بد امنی اور اغواء برائے تاوان کے وارداتوں کے خلاف سب سے مؤثر آواز بھی پشتون خواہ میپ نے اٹھائی ۔ جب کہ سابق صوبائی حکومت کے ناقص پالیسیوں اور کرپشن وکمیشن کے خلاف بھی سب سے زیادہ جدوجہد پشتون خواہ میپ کے پلیٹ فارم سے ہوئی ۔
اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پشتون خواہ میپ کو زیادہ نشستیں ملنی چاہئیں تھی۔ کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ کی قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں ماضی میں بھی محمود خان اچکزئی جیت چکے ہیں جہاں تک اپنے بھائی کو گورنر بنانے کی بات ہے تو ا س حوالے سے بھی میڈیا میں غیر ضروری تنقید کی گئی ہے ۔ محمود خان اچکزئی اور ان کے والد کی سیاسی تاریخ تقریبا ً کم ازکم 75سال پر مبنی ہے ۔ اتنی طویل مدت میں اس خاندان نے آج تک کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں کیا ۔ جس گورنر ہاؤس میں آج محمو د خان اچکزئی کا بھائی گورنر ہے اسی گورنر ہاؤس میں ان کے والد شہید عبدالصمد خان اچکزئی سیاسی قیدی رہے ہیں ۔
یہ تاریخ کا ایک خوشگوار لمحہ ہے کہ آج اسی گورنر ہاؤ س میں ان کا بیٹا گورنر ہے اور ویسے بھی انھوں نے گورنر ہاؤس کے پہلی مرتبہ ہر عام وخواص کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ اب تو کمشنر سے ملاقات مشکل اور گورنر بلوچستان سے ملاقات آسان ہے ۔ گورنر ہاؤس میں غریب بلوچوں اور پشتونوں کے مسائل نہ صرف سنے جارہے ہیں بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے گورنر ہاؤس سے تمام متعلقہ محکموں کو تحریری وزبانی احکامات بھی دیے جارہے ہیں جو ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ محمو د خان اچکزئی پر یہ بھی تنقید ہو رہی ہے کہ انھوں نے خاندان کے کئی افراد کو پارلیمانی عہدے دیے ہیں جو درست نہیں ۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کو پارٹی کے شہید کارکنوں کے خاندانوں میں انتہائی میرٹ پر تقسیم کیا گیا ہے ۔ محمود اچکزئی کی پارٹی کو مشرف دورمیں بھی گورنشپ کے عہدے کی پیش کش ہوئی جواس پارٹی نے قبول نہیں کی 2008 کے انتخابات میں جب محمود خان اچکزئی کی پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا اور محمود خان اچکزئی پارلیمنٹ کے رکن نہیں تھے تو بھی نواز شریف اور آصف زرداری دونوں نے انھیں لاہور اور سندھ کے ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کی آفر کی جو انھوں نے شکریے کے ساتھ واپس کی۔ جب کہ جمہوری اور عوامی مینڈیٹ سے گورنر کا عہدہ ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے ۔ اور یہ اس پارٹی کا اندرونی مسئلہ ہے کہ وہ گورنر کے عہدے کے لیے کس کو منتخب کرتے ہیں۔
ایسی روایات ہمارے ملک میں پہلے سے چلی آرہی ہیں یعنی نوازشریف ، شہباز شریف ، حمزہ شہباز ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا عطاء الرحمن اور مولانا لطف الرحمن تینوں بھائی سیاست میں قومی اسمبلی کے ممبران ہیں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے دوبیٹے ایم این اے رہے ۔ ماضی میں خان عبدالولی خان اور ان کی اہلیہ دونوں سیاست میں اور اقتدار میں رہیں۔ اسفند یار ولی پارٹی کے صدر ایم این اے ان کے رشتہ دار حید ر ہوتی صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ۔ تو پھر صرف محمود خان اچکزئی کو اپنے بھائی کے گورنر کے طعنے کیوں دیے جارہے ہیں۔ ان باتوں میں یقیناً کوئی وزن نہیں ہے ۔ اگر وزن ہے تو اس بات میں ہے کہ محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت اس وقت بلوچستان کے لاکھوں پشتونوں کی نہ صرف نمایندگی کر رہی ہے بلکہ صوبے کی نصف حکمرانی ان کے پاس ہے ۔
جب کہ مرکز میں بھی محمود خان اچکزئی کی کسی جائز بات کو وزیر اعظم نوازشریف نظر اندازنہیں کر سکتے ۔ بلوچستان کے لاکھوں پشتون محمود اچکزئی اور ان کی جماعت سے یہ پوچھنے حق بجانب ہیں کہ آج ان کے مسائل ومشکلات میں کمی کیوں نہیں آرہی۔ اگر محمود خان اچکزئی وزیر اعظم نوازشریف کو کابل کے دورے کرا سکتے ہیں تو پھر کیوں آج وزیر اعظم اوروفاقی وزراء صوبے کے پشتون اضلاع کے دورے نہیں کر رہے ۔ وفاقی بجٹ میں بقول پشتون خواہ میپ کے رکن اسمبلی عبدالقہار خان کے وفاقی سالانہ بجٹ میں صوبے کے پشتون اضلاع کو نظر انداز کیا گیا ہے جو حیران کن اور خود موجودہ دور میں پشتون خواہ میپ کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
کیونکہ آج اخباری بیانات کا دور نہیں بلکہ عملی اقدامات کا وقت ہے۔ پشتون قوم نے تقریباً بیس سال تک جلسہ جلوس اور ہڑتالوں مظاہروں میں پشتون خواہ میپ کا بھر پور ساتھ دیا اور2013کے انتخابات میں ووٹ کی طاقت سے صوبے اور مرکزمیں انھیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ہے۔ لہذا آج پشتون عوام کو عملی اقدامات نظر آنے چاہئیں۔ بلوچستان کے پشتونوں کو وفاقی محکموں ریلوے ، پی آئی اے ، واپڈا ، مالیاتی اداروں ، بینکوں ، گیس کمپنی سمیت دیگر وفاقی محکموں میں تعلیم یافتہ پشتون و بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے کیوں اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ 65سالہ پاکستانی تاریخ میں آج تک پشتون علاقوں میں کوئی میگا پروجیکٹ یا بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا جا رہاہے۔ پورا پشتون علاقہ بھوک وافلاس اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پشتون قوم کا واحد ذریعہ معاش زراعت مکمل تباہ ہو چکا ہے ۔ آج پشتون خواہ میپ بالخصوص محمود خان اچکزئی کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ جمہوریت کابل اور اسلام آباد کے معاملات کے ساتھ ساتھ پشتونوں کے مسائل اور مشکلات کو مد نظر رکھیں ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جمہوریت اور سیاست کی رو سے محمود خان اچکزئی کابل اور جمہوریت سے زیادہ بلوچستان کے پشتونوں کے نمایندہ لیڈر ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت میں بلوچستان کے پشتونوں کی تعداد 342کے ایوان میں محض سات ممبران بنتی ہے۔ لہذا جمہوریت کی خدمت بھی اسی تناسب سے ہونی چاہیے ۔
پاکستان کی اکثر بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں آصف زرداری ، نواز شریف ، الطاف حسین ،اسفند یار ولی ،سراج الحق ، مولانا فضل الرحمن ،حاصل بزنجو سمیت ملک کی تمام جمہوری لیڈرشپ نے حالیہ طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں کے حوالے سے جمہوری رویہ اپنایا ہے اور محتاط انداز میں الفاظ کا استعمال کیا ہے مثلاً جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، ماورائے آئین اقدام قبول نہیںکریں گے غیر جمہوری اقدام قبول نہیں ۔ لہذا محمود خان اچکزئی اور ان کی پارٹی بھی اپنے سیاسی جلسوں اور تقریروں اور بیانات میں فوج اور جی ایچ کیو کا براہ راست نام اگر نہ لے تو مناسب بات ہوگی۔
جتنی بھی بڑی اور اچھی جمہوریت ہوگی تو حکمرانی زرداری یا نوازشریف کی ہوگی ۔جمہوریت کی گونج صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنی پارٹی کے اندر بھی جمہوریت کے جلوے نظر آنے چاہئیں ۔ پارٹی کو ایک ٹرسٹ کی طرز کی بجائے مہذب جمہوری اورسیاسی انداز میں چلایا جائے ۔ ہر تین سال بعد پارٹی میں رکن سازی اور یونین کونسل سے تحصیل وضلع صوبائی ومرکزی عہدوں پر باضابطہ خفیہ رائے دہی کی طرز پر الیکشن کروائے جائیں ۔ یہی گراس روٹ جمہوریت ہوتی ہے۔