سچ

ہم بات کرتے کرتے یوں دوسری طرف چلے جاتے ہیں کہ ’’بد امنی‘‘ اور ’’بے ایمانی‘‘ کی کھلی شاہراہیں۔۔۔

سچ عمل سقراط ہے۔ اور سچ کہنا ... سقراط جیسے انجام کو دعوت دینا ہے ... مگر لوگ ہوتے ہیں ایسے ... جو سچ کہتے ہیں جنھیں وہ طاقت حاصل نہیں ہوتی جو بعض سچ کہنے والوں کو حاصل ہوتی ہے ... دراصل ان کے سچ اور ''سچ'' میں بھی تفاوت ہے۔ ان کی میزان بھی الگ ہے ... یہ ہمیشہ مفاد کی جانب جھکی رہتی ہے اور کمال کے فنکار ہیں یہ کہ ''سرکاری سچ'' اس قدر خوب صورتی سے '' غیر سرکاری'' انداز میں بیان کر دیتے ہیں اور لوگوں کی داد بھی سمیٹ لیتے ہیں اور ''سرکار'' سے رابطہ بھی ''استوار'' رہتا ہے۔ کانفرنسوں میں شرکت ... باہر کے TRIP اور بھی سرکاری وفود کے ''دورے'' ان میں یہ شامل انگریز کو ہم نے بدنام کر دیا ہے کہ وہ برصغیر میں آ کر ایسے قوانین اور اصول بنا گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ''تاریخ نویسوں'' سے لے کر سرکاری فرمودات لکھنے والوں تک سب ''دربار'' کے وظیفہ خوار تھے ... اور سرکار کا ''دم بھرتے'' تھے۔

اب ذرا یہ سلسلہ موڈرانائز ہو گیا ہے۔ اب پلاٹوں کی حد تک تو زمینوں کے معاملے رہ گئے۔ بقیہ ''CASH'' اور ''عیش'' اس کی ایک صورت ''منافع بخش'' اسامیوں پر تعیناتی بھی ہے جس کے ذریعے ان ''فرمانبرداروں'' کو نوازا جاتا ہے، نوازا جاتا رہے گا کیونکہ اس ''مد'' میں کوئی انقلاب نہیں آنیوالا۔ چاہے وہ کسی ''خان'' کا ہو یا ''علامہ'' کا کیونکہ اس کے بغیر کوئی گاڑی پاکستان میں تو نہیں چلنے والی۔ایک چیز ہوا کرتی تھی ''MERIT'' جس کی ''تدفین'' کو بھی زمانہ گزر گیا۔ ہر شعبے سے اسے ''نکالا'' مل گیا اور آخر کار یہ ''وفات'' پا گئی۔ اس کے ہوتے معاشرے میں سے ہر شعبے سے لوگ کیا آتے تھے جیسے ''ہیرے جواہرات'' معاشرے کو ملتے تھے۔

ذہین کھلے دل و دماغ کے لوگ جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے بارے میں سر گرم رہا کرتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے منصوبے دیر پا، عوامی ہوا کرتے تھے ... اور 67 سال میں کم از کم 40 سال تک تو ہم ایسے لوگوں سے استفادہ کرتے رہے مگر اب ''خال خال'' ہی یہ لوگ ہیں اور وہ بھی ''بے اثر'' ان کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے کیوں کہ وزیر کا رشتے دار ان سے زیادہ ''طاقت ور'' ہے۔یہ کسی اچھی جگہ لگا دیے جائیں تو ''ہا ہا کار'' مچ جاتی ہے۔ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ... وہ فلاں کام منظور نہیں کریگا ... ٹھیکوں کا کیا ہو گا ... کمیشن کیسے ملے گا وغیرہ وغیرہ ... یعنی امرت کو ''زہر'' بھلا کیسے پسند کرے گا کہ اس سے تو زہر کا خاتمہ ہے۔


ہم بات کرتے کرتے یوں دوسری طرف چلے جاتے ہیں کہ ''بد امنی'' اور ''بے ایمانی'' کی کھلی شاہراہیں ہمیں گفتگو کی دعوت دے دیتی ہیں اور ہم ادھر چل پڑتے ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اس کا ''انجام'' کیا ہو گا۔ ہم سے مراد صرف میں نہیں ... ہم سب لکھنے والے ہیں جو ''واقعی'' لکھتے ہیں۔ بظاہر ہموار نظر آنے والے راستے پر گھاٹیاں ہیں جن میں ''عفریت'' گھات لگائے بیٹھے ہیں جو ہاتھ لگا وہ ''ختم'' اس طرح یا... مگر کالم ... سچا کالم ... ایک سچی گواہی کی طرح ہے اور قرآن مجید فرقان حمید میں ''سچی گواہی'' کا حکم ہے۔ عدالت میں ''سچی گواہی'' دینے کے لیے جانے والوں کے انجام سے کون واقف نہیں ۔ کالم بھی عوام کی عدالت میں ایک سچی گواہی تو ہے مگر ہم ان حکومتوں سے بھی پوچھتے ہیں کہ سچ کو دبا کر انھوں نے کیا پایا۔

ظلم کے ذریعے سچ کو بظاہر ''دبا'' دیا گیا مگر آج جب سچ کو دبانے اور سچ کہنے والے دونوں دنیا میں نہیں تو رزلٹ کیا ہے؟ ... سچ کو دبانے کی کوشش کرنے والوں کا نام بھی نہیں باقی اور سچ کہنے لکھنے والوں کے نام شاہراہوں پہ کھلے ہوئے ہیں۔ جیت کس کی ہوئی؟ سچ کی۔ سچ کبھی نہیں ہارتا۔ یہ پانی کی طرح راستہ بنا لیتا ہے اور مشکل راہوں سے گزر جاتا ہے۔ پانی بظاہر تو ایک چلو بھر زمین پر پھینک دو کچھ بھی نہیں اور جب یہ اﷲ کے حکم سے آسمانوں سے پرواز کرتا ہوا برستا ہے تو خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے۔ ایک بات جو ہم ان لوگوں سے کرنا چاہتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ سچ ''عیاں'' نہ ہو ''آشکار'' نہ ہو وہ کیوں فرسودہ طریقوں پر عمل کرتے ہیں۔

اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کہیں گے کہ بے عقلی کی بات ہے کہا جائے گا تو لوگ سنیں گے، پڑھیں گے اور لوگوں تک ''سچ'' پہنچ جائے گا۔تو کیا ہو گا... مجھ سے پوچھئے کچھ بھی نہیں ہو گا ... سچ کو سننے ... جاننے ... پرکھنے اور ... عمل کرنے والی یہ قوم ہی نہیں ہے... پاکستان میں آج تک جتنی تحریکیں چلیں سب کسی نہ کسی ''مقصد'' کی تحریکیں نہیں عوامی تحریک صرف ایک تھی برصغیر میں اور وہ تھی تحریک پاکستان جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں سامنے ہے اس کے بعد کی تحریکوں کا نتیجہ کیا ہے ''آدھا پاکستان'' اور بہت کچھ ۔ جس کا پس منظر بھی کچھ اور ہے وہ نہیں جو پیش کیا جاتا ہے۔آپس کس قوم سے ڈر رہے ہیں ... اس قوم سے جس پر آپ نے ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا مگر اس کی عیاشی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جس کے لوگ ملک بھر میں روزانہ دس پندرہ مارے جاتے ہیں اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جو رات دن اپنے ملک کے غریبوں کو بے عزت کرتی ہے اور غریب ہر دوسرے روز بے عزت ہونے کو تیار رہتا ہے۔ جس کے پینے کے لیے پانی نہیں ہے تو یہ ''کیچڑ'' پی لیتی ہے آواز نہیں بلند کرتی۔ جو کوڑے سے روٹی تلاش کر کے کھا لیتی ہے اور فٹ پاتھ پر سو جاتی ہے۔

غلط ہیں وہ دعوے کہ یہ بیدار لوگ ہیں ... ہر گز نہیں... یہ اپنی نیند آپ سوئے ہوئے آج کے ''اصحاب کہف'' لوگ ہیں ... وہ اٹھے بھی تھے پھر سو گئے اﷲ کے حکم سے ... یہ نہیں اٹھیں گے۔ فلسطین سے کراچی تک یہ سوئے رہیں گے ... تم ان سے ڈرتے ہو جن کے مقدس مقامات دین کے دشمنوں نے بارود سے اڑا دیے یہ کچھ نہ کر سکے ... ان کی عزت کے جنازے نکل گئے یہ کچھ نہیں بولے اور اب بھی روز ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔یہ کیا کسی کا اہم کا پیغام سمجھیں گے ... یہ کیا کسی تحریر کو حرز جاں کریں گے ... انھوں نے کسی پیغام پر آج تک کان نہیں دھرے... یہ کسی انقلاب کو نہیں مانتے ... یہ ایک نشے میں ڈوبی ہوئی قوم ہے جس کو کسی کی پرواہ نہیں اپنے علاوہ... انھوں نے دنیا میں سب کچھ دیکھا ہے ... ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ... اگر یہ جاگ سکتے تو ... کربلا میں جاگ گئے ہوتے ... فلسطین میں جاگ گئے ہوتے، ان کی مدد کو بڑھتے ... کشمیر میں جاگ گئے ہوتے۔ یہ نہیں جاگیں گے ان سے مت ڈرو۔ ہونے دو عیاں سچ۔ کچھ نہیں ہو گا۔
Load Next Story