ایشیا کے بہترین ہاکی پلیئرکا اعزازمحمد توثیق کے نام
تیسری بارکارنامہ انجام دیا، کامیابی کا سہرا استاد روڈا کے سر ہے، قومی اسٹار
پاکستان کے محمد توثیق نے ایشیا کے بہترین ہاکی کھلاڑی کا اعزاز پالیا، قومی ٹیم کے سینٹر ہاف نے مجموعی طور پرایشیائی سطح پر تیسری بار یہ کارنامہ انجام دیا، اس سے قبل وہ 2009 اور2010 میں ملکی نیک نامی کا باعث بن چکے ہیں۔
محمد توثیق قومی کھیل کو اولمپئنز کی بڑی کھیپ فراہم کرنے والے استاد روڈا کے بھتیجے ہیں،وہ اس بات پر خفا ہیں کہ کرکٹر ز سمیت دیگرکھیلوں سے وابستہ پلیئرزکے تو خوب ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں لیکن ہاکی میں ملک کا نام روشن کرنے والوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نمائندہ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مزیدکہا کہ پاکستان کو ہاکی کے میدانوں میں فتوحات دلانے میں گوجرہ کا ہمیشہ سے اہم کردار رہا، میں خوش قسمت ہوں کہ استاد روڈا کے خاندان سے تعلق ہے، میرے گھرانے نے اسلم روڈا، محمد سرور، ایم رشید، محمد اصغر، جاوید علی، ایم ظفر اور محمد اعظم سمیت 11اولمپئنز پیدا کیے ۔
انھوں نے کہا کہ میرے والد محمد ارشد بھی ہاکی کے کھلاڑی تھے، میں نے13 سال کی عمر میں میدان سنبھال لیا، ابتدا میں والدین کی بھر پور سرپرستی اور سپورٹ ملتی رہی لیکن مجھے عالمی سطح پر بڑا کھلاڑی بنانے میں اہم کردار میرے تایا اسلم روڈا کا تھا، کوچ اور استاد کی رہنمائی کی بدولت ایوارڈ ملا، ایشیا کا بیسٹ کھلاڑی ہونے کا اعزاز اسلم روڈا کے نام ہی کرتا ہوں۔انھہوں نے کہا کہ ایشیا کا بہترین کھلاڑی بننے کا اعزاز کم نہیں ہے کیونکہ خطے میں بھارت سمیت کوریا، جاپان اور دوسری ٹیموں کے بھی کئی مایہ ناز کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے کہا ایشیا میں بہترین کھلاڑی بننے کی ہیٹ ٹرک کے بعد دنیا کا نمبر ایک پلیئر کا اعزاز پانا خواہش ہے۔
قومی ٹیم کیلیے سینٹر ہاف کی پوزیشن پر کھیلنے والے محمد توثیق نے کہا کہ ایشین گیمز میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، جہاں تک میری ذاتی کارکردگی کا تعلق ہے تو کہہ سکتاہوں کہ موجود ہ دور کیرئیر کا بہترین ٹائم ہے۔ لندن اولمپک، ایشین گیمز، چیمپئنز ٹرافی، اذلان شاہ سمیت75 انٹرنیشنل میچز میں ملک کی نمائندگی کرنے والے محمد توثیق نے شکوہ کیا کہ کرکٹرزکے تو خوب ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں جبکہ ہاکی کے کھلاڑیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
ان کی طرح ہمارا مقصد بھی ملک کیلیے اعزازت حاصل کرنا ہے، ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ہماری کامیابیاں بھی کرکٹرز سے زیادہ ہیں، ملکی میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ قومی کھیل کو پاؤں پر کھڑا کرنے کیلیے فیڈریشن اور کھلاڑیوں کا ساتھ دے، ڈومیسٹک مقابلوں کو ٹی وی پر براہ راست نشر کیا جائے تو کئی نوجوان اس جانب راغب ہوں گے۔
محمد توثیق قومی کھیل کو اولمپئنز کی بڑی کھیپ فراہم کرنے والے استاد روڈا کے بھتیجے ہیں،وہ اس بات پر خفا ہیں کہ کرکٹر ز سمیت دیگرکھیلوں سے وابستہ پلیئرزکے تو خوب ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں لیکن ہاکی میں ملک کا نام روشن کرنے والوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نمائندہ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مزیدکہا کہ پاکستان کو ہاکی کے میدانوں میں فتوحات دلانے میں گوجرہ کا ہمیشہ سے اہم کردار رہا، میں خوش قسمت ہوں کہ استاد روڈا کے خاندان سے تعلق ہے، میرے گھرانے نے اسلم روڈا، محمد سرور، ایم رشید، محمد اصغر، جاوید علی، ایم ظفر اور محمد اعظم سمیت 11اولمپئنز پیدا کیے ۔
انھوں نے کہا کہ میرے والد محمد ارشد بھی ہاکی کے کھلاڑی تھے، میں نے13 سال کی عمر میں میدان سنبھال لیا، ابتدا میں والدین کی بھر پور سرپرستی اور سپورٹ ملتی رہی لیکن مجھے عالمی سطح پر بڑا کھلاڑی بنانے میں اہم کردار میرے تایا اسلم روڈا کا تھا، کوچ اور استاد کی رہنمائی کی بدولت ایوارڈ ملا، ایشیا کا بیسٹ کھلاڑی ہونے کا اعزاز اسلم روڈا کے نام ہی کرتا ہوں۔انھہوں نے کہا کہ ایشیا کا بہترین کھلاڑی بننے کا اعزاز کم نہیں ہے کیونکہ خطے میں بھارت سمیت کوریا، جاپان اور دوسری ٹیموں کے بھی کئی مایہ ناز کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے کہا ایشیا میں بہترین کھلاڑی بننے کی ہیٹ ٹرک کے بعد دنیا کا نمبر ایک پلیئر کا اعزاز پانا خواہش ہے۔
قومی ٹیم کیلیے سینٹر ہاف کی پوزیشن پر کھیلنے والے محمد توثیق نے کہا کہ ایشین گیمز میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، جہاں تک میری ذاتی کارکردگی کا تعلق ہے تو کہہ سکتاہوں کہ موجود ہ دور کیرئیر کا بہترین ٹائم ہے۔ لندن اولمپک، ایشین گیمز، چیمپئنز ٹرافی، اذلان شاہ سمیت75 انٹرنیشنل میچز میں ملک کی نمائندگی کرنے والے محمد توثیق نے شکوہ کیا کہ کرکٹرزکے تو خوب ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں جبکہ ہاکی کے کھلاڑیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
ان کی طرح ہمارا مقصد بھی ملک کیلیے اعزازت حاصل کرنا ہے، ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ہماری کامیابیاں بھی کرکٹرز سے زیادہ ہیں، ملکی میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ قومی کھیل کو پاؤں پر کھڑا کرنے کیلیے فیڈریشن اور کھلاڑیوں کا ساتھ دے، ڈومیسٹک مقابلوں کو ٹی وی پر براہ راست نشر کیا جائے تو کئی نوجوان اس جانب راغب ہوں گے۔