الٹی میٹم پر الطاف حسین کی توثیق کا انتظارکرنا چاہیےکھوڑو
نئے بلدیاتی نظام سے سندھ نہیں ٹوٹے گا، عوام کو سپریم کورٹ سے بڑی عدالت سمجھتے ہیں
PESHAWAR:
اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ہم عوام کی عدالت کو سپریم کورٹ سے بڑی عدالت سمجھتے ہیں۔
سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس سے سندھ نہیں ٹوٹے گا، متحدہ کے الٹی میٹم پر ہمیں الطاف حسین کی توثیق کا انتظار کرنا چاہیے۔ حیدرآباد سرکٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نئے بلدیاتی آرڈیننس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے، اگر یہ 90روز میں اسمبلی سے منظور نہیں ہوا تو یہ ازخود غیر مؤثر ہوجائیگا۔ انھوں نے کہا کہ اگر عوام کو یہ نظام پسند نہیں ہوگا تو وہ ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں بلدیاتی الیکشن عام انتخابات کے بعد ممکن ہیں کیوں کہ ابھی ووٹر لسٹیں مکمل نہیں ہوئیں اور آرڈیننس بھی سندھ اسمبلی سے منظور نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ نئے نظام کی مخالفت کرنے والے اس وقت کیوں خاموش تھے جب پرویز مشرف نے کراچی کو شہری حکومت اور سندھ کے دیگر اضلاع کو صرف ضلعی حکومت کا درجہ دیا تھا اور یہ نظام نو سال تک چلتا رہا۔ اگر اس وقت سندھ نہیں ٹوٹا تو اب کیسے ٹوٹ سکتا ہے۔
پرانے نظام کوختم سمجھا جانا چاہیے، اس نئے نظام میں بھی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کو سپریم کورٹ سے بڑی عدالت سمجھتے ہیں وہ ہی سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے متعلق فیصلہ کریں گے، اگر بلدیاتی الیکشن میں وہ ووٹ دینے نہیں آئے تو ہم سمجھیں گے کہ انھیں یہ بلدیاتی نظام پسند نہیں ہے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے کیا مطالبات پیش کیے ہیں، مجھے انکا علم نہیں کیونکہ میں نے یہ سب کچھ اخبارات میں پڑھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قوم پرست آج بھی ہمارے دوست ہیں لیکن پُر تشدد احتجاج کرنا جمہوری عمل نہیں ہے۔ انھوں نے حیدرآباد پریس کلب پر حملے کی مذمت اور صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔
اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ہم عوام کی عدالت کو سپریم کورٹ سے بڑی عدالت سمجھتے ہیں۔
سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس سے سندھ نہیں ٹوٹے گا، متحدہ کے الٹی میٹم پر ہمیں الطاف حسین کی توثیق کا انتظار کرنا چاہیے۔ حیدرآباد سرکٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نئے بلدیاتی آرڈیننس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے، اگر یہ 90روز میں اسمبلی سے منظور نہیں ہوا تو یہ ازخود غیر مؤثر ہوجائیگا۔ انھوں نے کہا کہ اگر عوام کو یہ نظام پسند نہیں ہوگا تو وہ ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں بلدیاتی الیکشن عام انتخابات کے بعد ممکن ہیں کیوں کہ ابھی ووٹر لسٹیں مکمل نہیں ہوئیں اور آرڈیننس بھی سندھ اسمبلی سے منظور نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ نئے نظام کی مخالفت کرنے والے اس وقت کیوں خاموش تھے جب پرویز مشرف نے کراچی کو شہری حکومت اور سندھ کے دیگر اضلاع کو صرف ضلعی حکومت کا درجہ دیا تھا اور یہ نظام نو سال تک چلتا رہا۔ اگر اس وقت سندھ نہیں ٹوٹا تو اب کیسے ٹوٹ سکتا ہے۔
پرانے نظام کوختم سمجھا جانا چاہیے، اس نئے نظام میں بھی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کو سپریم کورٹ سے بڑی عدالت سمجھتے ہیں وہ ہی سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے متعلق فیصلہ کریں گے، اگر بلدیاتی الیکشن میں وہ ووٹ دینے نہیں آئے تو ہم سمجھیں گے کہ انھیں یہ بلدیاتی نظام پسند نہیں ہے۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے کیا مطالبات پیش کیے ہیں، مجھے انکا علم نہیں کیونکہ میں نے یہ سب کچھ اخبارات میں پڑھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قوم پرست آج بھی ہمارے دوست ہیں لیکن پُر تشدد احتجاج کرنا جمہوری عمل نہیں ہے۔ انھوں نے حیدرآباد پریس کلب پر حملے کی مذمت اور صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔