ماڈرن تہذیب کا شاخسانہ

حیرانی ہوتی ہے مجھے اس سرزمین پہ بسنے والے کیڑے مکوڑوں پر جو ہم سے قدرے اعلیٰ ظرف آقاؤں کی غلامی سے۔۔۔

یہ دیکھ کر کہ لوگ میری بے وقت کی راگنی پہ توجہ دینے کو تیار نہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ میں تھک ہار کر بیٹھ جاتا۔ مگر کیا کروں نام کا ہی سہی مگر ہوں تو مسلمان۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کا تمسخر اڑتا یا تضحیک ہوتی دیکھوں گا تکلیف تو ہوگی اور جب تکلیف ہوگی تو اس کا ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ حیرت ہوتی ہے ان نام نہاد قبلہ و کعباؤں پہ کہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی کی شہ رگوں پہ انھوں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔

میں ان سے کہتا ہوں پانی کے پاک کرنے کے لیے پہلے کنوئیں سے مردہ کتے کو نکالنا ضروری ہے تو یہ ایک نخوت بھری نگاہ مجھ پہ ڈالتے ہیں اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سات ڈول پانی کنوئیں سے نکال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی رگوں میں گرم لہو نہیں ٹھنڈا یخ لہو رنگ مادہ سیال دوڑ رہا ہے۔ ان کی خودغرضی، ہوس زر اور سرد مہری نے انسان کو انسان رہنے ہی کب دیا ہے۔ دنیا بھر کی اعلیٰ یونیورسٹیز کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ مگر تمام تر علمی قابلیت کے باوجود خوئے غلامی ہے کہ جاکر نہیں دیتی۔ آقائے نامدار کی سادہ پوشی سے گریز کے بھیانک نتائج آنکھوں کے سامنے ہیں، حقائق بھی ان کی نظر سے اوجھل نہیں مگر مجال ہے کہ ان حقائق کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں ان کے منہ سے بھاپ تک نکلے۔ سب کے سب قال، حال کوئی بھی نہیں۔

جب میرے مہربان مجھ سے کہتے ہیں کہ آخر تمہیں تکلیف کیا ہے جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک جو ترقی یافتہ بھی ہیں اور یہی رنگ ڈھنگ اپنائے ہوئے ہیں۔ مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان ممالک کا موسم ان کا کلچر اور ان کا مذہب اسی بات کا متقاضی ہے، دوسرے یہ کہ وہ ان کے یا ان جیسے دوسروں کے غلام بھی رہ چکے ہیں تو پھر اس گلے سڑے غلامی کے طوق کو گلے سے اتار پھینکنے میں ہم پہل کریں تو کیا برا ہے۔ اس لیے بھی کہ ہم کسی مخلوق کے نہیں خالق کائنات کے غلام ہیں اور اسی کی غلامی کا طوق ہماری گردنوں پہ سجتا ہے۔

سب سمجھ آجائے گا مگر شرط ہے نیتوں کے صاف ہونے کی۔ اور یہیں سے میری بدقسمتی کی داستان شروع ہوتی ہے۔ میری نیت میں کھوٹ ہے، میرا شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میں ہوتا ہے۔ میں نے پاکستان میں پیدا ہونے کی غلطی کی تھی مگر اس کا ازالہ میرے والدین نے اس طرح کیا کہ ابتدائی چند سال کے علاوہ مجھے پاکستان میں رہنے ہی نہ دیا۔ بیرون ملک مشہور زمانہ تعلیمی درسگاہوں میں مجھے علم کی پیاس بجھانے کا پورا موقع فراہم کیا گیا اور اسی مقصد کے لیے انھوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا۔ سب کو پتا ہے پیسہ کس مشکل سے کمایا جاتا ہے، کن کن کٹھنائیوں کا ان کو سامنا کرنا پڑا، یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں، مہا راشی افسر کہلائے، کبھی ناجائز منافع خوروں کے گورو، کبھی انڈرہینڈ ڈیلنگ کے ماہر، کبھی کک بیک سے استفادہ کیا، کبھی منی لانڈرنگ سے۔ سیاست میں بھی کافی عمل دخل رہا مگر ہاتھ پیر بچا کے۔ کبھی منظرعام پہ نہ آئے۔ بچپن میں، میں کہتا تھا میرے ابو بڑے چالاک ہیں، اب میں کہتا ہوں مائی فادر از اے جینئس (My Father is a Genius) بیرون ملک اپنے اثاثوں کے متعلق انھوں نے کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔ ہماری دہری شہریت کے سلسلے میں بھی ایسا ہی کچھ ہے۔


حیرانی ہوتی ہے مجھے اس سرزمین پہ بسنے والے کیڑے مکوڑوں پر جو ہم سے قدرے اعلیٰ ظرف آقاؤں کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ہم جیسے کم ظرفوں کی غلامی میں آنے کی سالگرہ جشن آزادی کے طور پر مناتے ہیں کہ جن کو شعور ہی نہیں کہ آزادی کس چڑیا کا نام ہے۔ وہ جشن آزادی بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہیں، روح سے خالی اجسام کا ہجوم اور سنجیدہ سے سنجیدہ تقریب کو ہلڑ بازی میں بدل دینے میں ماہر قوم۔ خوشامد و چاپلوسی ہے مطلوب و مقصود۔ میں نے مغرب کی طرف منہ کرکے لفظ ''ماڈرن'' لوگوں میں متعارف کروادیا ہے۔ یہ پانچ حرفی لفظ ایک مسلم معاشرے کا اسی طرح تیاپانچہ کردے گا مجھے خود بھی اندازہ نہ تھا۔ نہ ''عیاں'' عیاں رہا نہ ''مستور'' مستور، عیاں نے گرم مرطوب موسم میں کوٹ اور ٹائی کی تہمت خود پہ مزید لاد لی۔ کارکردگی میں اضافہ ہوا ہو نہ ہوا ہو نازکی اور بڑھ گئی۔ وقت جہاد ایئرکنڈیشنڈ مورچوں کا تقاضہ چند قدم کی دوری پہ ہے۔ دوسری طرف مستور نے سب کچھ عیاں کردینے میں فلاح کی راہ ڈھونڈ لی ہے۔

ظاہر ہے عزت و احترام اور نازک احساسات کے بل بوتے پر نہ ہی زندگی بسر کی جاسکتی ہے نہ ہی لیونگ اسٹینڈر بلند کیا جاسکتا ہے۔ کیا خیال ہے آپ کا میرے بارے میں اور اس پانچ حرفی لفظ ماڈرن کی کرامات کے بارے میں۔ پانی پھیر دیا نا میں نے مسلمانان ہند کی طویل جدوجہد آزادی پہ۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے خوابوں پہ۔ مجھے معلوم تھا کہ جب تک اس Supercilious مخلوق کے ذہنوں میں عزت نفس کے تحفظ کا خیال باقی رہے گا اور جب تک یہ نفس مطمعنہ کی نعمت سے مالا مال رہیں گے ان کو دنیا کی کوئی طاقت شکست سے دوچار نہ کرسکے گی اور پھر میرے پانچ حرفی لفظ نے ان کو ان کی متاع عزیز سے محروم کردیا۔

قرض لینا جو ان کے نزدیک معیوب ترین عمل تھا ان کا محبوب مشغلہ بن گیا۔ غور کریں تو کبھی کہیں کسی تہذیب میں قرضوں پر مبنی نظام زندگی کی مثال نہیں ملے گی، مگر مغربی تہذیب تاریخ انسانی کی واحد تہذیب ہے کہ جس نے قرض کے لین دین کو ایک حسن ایک کمال اور ایک عام رویہ ایک طرز زندگی بلکہ قابل فخر شے بنادیا۔ آج ہم جن ملکوں کے ترقی یافتہ اور ماڈرن ہونے پہ ریجھے ہوئے ہیں ان کی تمام تر چمک دمک کا انحصار قرضوں کے بل بوتے پہ قائم ہے۔ہم جس عظیم ترقی یافتہ ملک کے مقروض خاص ہیں وہ خود دنیا کا مقروض ترین ملک ہے۔

اگرچہ میں عمر عزیز کا بیشتر حصہ بیرون ملک ہی گزار کر آیا ہوں مگر میرا سارا وقت وہاں ان کی عیاشیوں سے لطف اندوز ہوتے گزرا ہے۔ انھوں نے اپنی چالاکیاں اور عیاریاں کوٹ کوٹ کر میرے اندر بھر دی ہیں۔ باقی رہ گیا سوال ان کی مشہور زمانہ تعلیمی درسگاہوں کا تو وہاں جھانکنے کی میں نے کبھی زحمت نہ کی اور ضرورت بھی کیا تھی کیونکہ وہاں جنھوں نے بڑے بڑے تیر مارے تھے وہ آج میرے ملازم ہیں، میرے رحم و کرم پہ کبھی ان کو میرے حضور پیش ہوتے دیکھیں تو آپ اپنی دال روٹی پہ سجدہ شکر بجالاتے نہیں تھکیں گے۔

بقول آپ کے آپ کا تعلق معاشرے کے حساس ترین طبقے سے ہے۔ مبصر، تجزیہ نگار، دانشور، محقق، معلم، ماہرین فنون لطیفہ، شعرا، کالم نگار، کہانی نویس، ڈرامہ نگار اور اسی قبیل سے تعلق رکھنے والے ٹی وی اسکرین کو رونقیں بخشنے والوں نے کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اداؤں پہ غور کرنے کی کوشش کی ہے۔ کبھی اپنے قول و فعل کے تضاد کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی سعی کی ہے۔ کیا کبھی اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے روئیں روئیں سے جس احساس برتری کا اظہار ہوتا ہے وہ دراصل ان کی احساس کمتری کا شاخسانہ ہے۔
Load Next Story