مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے 45 سال بعد
عرب لیگ اور او آئی سی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان کے سیاسی بحران کے باوجود ہم اپنی توجہ کو غزہ، عراق و دیگر ممالک میں امت اسلامی کو درپیش مشکلات سے ہٹا نہیں سکتے، زندگی اسی کا نام ہے۔ اس لیے اپنا رخ سوئے القدس کرتے ہیں۔ غزہ پر صہیونی جارحیت سے 45 سال پہلے کا یہ اہم سانحہ کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟یہ عظیم سانحہ 21اگست 1969 کو رونما ہوا ، جب صہیونی حکومت نے ایک منظم سازش کرکے آسٹریلیا کے صہیونی ڈینس مائیکل روہن کے ذریعے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی۔
اسرائیلی حکومت کے فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے آیا تو اس نے پانی کے بجائے گیسولین کا چھڑکاؤ کیا جس سے مزید آگ بھڑکی اور سب کچھ تباہ ہوگیا۔بیت المقدس پرصہیونی حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1928 میں بھی غیر فلسطینی صہیونی یہودیوں نے مغربی دیوار پر قبضے کی کوشش کی جو فلسطینیوں نے ناکام بنا دی تھی۔1930 میں برطانوی سامراج نے جس کا فلسطین پر کنٹرول تھا، اس معاملے کی تحقیقات کروائیں تو رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ الاقصی کمپاؤنڈ کے مغرب میں تعمیر کی گئی۔ دیوار غیر قانونی ہے اور یہ تعمیر کر نیوالوں کی ملکیت نہیں بلکہ یہ بھی الاقصیٰ کمپاؤنڈ کا ہی حصہ ہے۔یہودیوں کی جانب سے دیوار کے قریب عبادات میں استعمال ہونے والی اشیاء رکھنے سے اس پر یہودی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔
صہیونی افواج میں شامل یہودی ریبائی شلومو گورین نے 1967 میں مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کرتے ہوئے فساد کروائے۔ 1969 کا سانحہ رونما ہوا تو اس کے مرتکب مجرم کو نفسیاتی مریض ظاہر کرکے علاج کے لیے داخل کروادیا گیا اور بعد ازاں بغیر کسی سزا کے وہ علاج کے بعد آزاد ہوگیا۔ 1970 میں صہیونیوں کا گروہ ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل زبردستی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں گھسا۔ مسلمان فلسطینیوں نے انھیں پیچھے دھکیلا تو صہیونی افواج نے ان پر فائرنگ کی۔ صہیونی فیتھ فل گروپ مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ 1976 میں صہیونی عدالت نے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں کے شدید احتجاج پر بعد ازاں یہ اجازت منسوخ کردی گئی۔1979 میں مسجد اقصیٰ کے ایک داخلی راستے پر صہیونی انتہا پسندوں نے قبضہ کرلیا اور فلسطینی نمازیوں پر اسلحہ تان کر انھیں عبادت کے لیے اندر نہیں جانے دیا۔ 1980 کے عشرے میں بھی یہ سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔
اگست 1981 میں ایک اسرائیلی ہیلی کاپٹر مسجد اقصیٰ کے اوپر نچلی پرواز کرتا رہا تاکہ نمازی اندر خطبہ سننے نہ جا سکیں۔ 1981 میں ہی یہودی تہوار کے موقعے پر مسجد اقصیٰ سے اذان کوممنوع قرار دیا گیا۔اس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ مسجد اقصی کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگیں کھودی گئی تھیں۔ 1982 میں ایک جعلی بم پارسل ایک گیٹ پر رکھا گیا۔ اس میں صہیونیوں کی طرف سے دھمکیاں بھی لکھی گئی تھیں۔ القدس پر فائرنگ کی گئی، دو مسلمان شہید کیے گئے۔ اس سال ایک صہیونی اسرائیلی مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی سازش کرتے ہوئے پکڑا گیا لیکن بغیر کسی سزا کے آزاد کردیا گیا۔دیگر صہیونی گروہوں نے پمفلٹ تقسیم کرکے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ پر قبضے کے لیے اکسایا۔ مسجد اقصیٰ کو مسمار کرکے یہودی ٹیمپل کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے1983 میں ٹیمپل ماؤنٹ فنڈ اسرائیل، یورپ اور امریکا میں قائم کیا گیا۔
اسی سال مسجد اقصیٰ کے داخلی راستے پر دھماکا خیز مواد برآمد ہوا، 4 مسلح یہودی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے جنھیں 6 ماہ بعد رہا کردیا گیا۔ 1984 میں آدھی رات کے وقت سیڑھیاں لگاکر اندر داخل ہونے کی کوشش کی گئی اور پورے سال فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے مسلح صہیونی داخلی راستوں پر پٹرولنگ کرنے لگے۔ 1988، 1990، 1996،1997 ، 2000، 2004، 2006، 2008 ، 2010 میں، 2011 سے 2014 تک کوئی سال ایسا نہیں گذرا جس میں مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی اور سرنگ کھودنے یا آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات رپورٹ نہ ہوئے ہوں۔مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کے بعد ستمبر 1969 میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ عرب لیگ کی طرح یہ تنظیم او آئی سی بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو اس کا دارالحکومت قرار دیتی ہے لیکن اس نے بھی عملی طور پر اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کیا۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین کی مظلوم مائیں رو رو کر پوچھتی ہیں کہ عالم اسلام اور عالم عرب کہاں ہیں؟ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔
عرب لیگ اور او آئی سی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جنگ کی صف اول کے مجاہدین کی سرزمین غزہ پر اسرائیلی جارحیت ماہ رمضان المبارک میں شروع ہوئی لیکن افسوس کہ عرب بادشاہوں کو رمضان کا تقدس بھی یاد نہ رہا۔مسجد اقصیٰ اور القدس یعنی گنبد صخرہ آج صہیونیوں کے نرغے میں ہے ۔غزہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔ مغربی کنارے کے فلسطینی غزہ کے محصور بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی افواج کے سامنے تن کر کھڑے ہیں۔مسلمانان عالم کا اوقیانوس یوم القدس پر میدان عمل میں تھا اور احتجاج کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
عرب بادشاہوں کی خیانت کے باوجود غزہ سے اسرائیل پر جو راکٹ برسے وہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کے ایسے دوست اور مددگار زندہ ہیں جو قدس کی آزادی تک جاری رہنے والی اس جنگ میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان ہی راکٹوں کے خوف سے غاصب صہیونی طویل المدت جنگ بندی پر مجبور ہوا۔ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے 45 سال بعد کم ازکم یہ بات قابل اطمینان ہے کہ فلسطین کی مقاومت اسلامی کی موجودگی میں خائن بادشاہ وہ کردار ادا نہیں کرسکیں گے جو وہ ماضی میں اداکرکے فلسطین کے دشمنوں کو فائدہ پہنچاتے تھے۔
اسرائیلی حکومت کے فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے آیا تو اس نے پانی کے بجائے گیسولین کا چھڑکاؤ کیا جس سے مزید آگ بھڑکی اور سب کچھ تباہ ہوگیا۔بیت المقدس پرصہیونی حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1928 میں بھی غیر فلسطینی صہیونی یہودیوں نے مغربی دیوار پر قبضے کی کوشش کی جو فلسطینیوں نے ناکام بنا دی تھی۔1930 میں برطانوی سامراج نے جس کا فلسطین پر کنٹرول تھا، اس معاملے کی تحقیقات کروائیں تو رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ الاقصی کمپاؤنڈ کے مغرب میں تعمیر کی گئی۔ دیوار غیر قانونی ہے اور یہ تعمیر کر نیوالوں کی ملکیت نہیں بلکہ یہ بھی الاقصیٰ کمپاؤنڈ کا ہی حصہ ہے۔یہودیوں کی جانب سے دیوار کے قریب عبادات میں استعمال ہونے والی اشیاء رکھنے سے اس پر یہودی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔
صہیونی افواج میں شامل یہودی ریبائی شلومو گورین نے 1967 میں مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کرتے ہوئے فساد کروائے۔ 1969 کا سانحہ رونما ہوا تو اس کے مرتکب مجرم کو نفسیاتی مریض ظاہر کرکے علاج کے لیے داخل کروادیا گیا اور بعد ازاں بغیر کسی سزا کے وہ علاج کے بعد آزاد ہوگیا۔ 1970 میں صہیونیوں کا گروہ ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل زبردستی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں گھسا۔ مسلمان فلسطینیوں نے انھیں پیچھے دھکیلا تو صہیونی افواج نے ان پر فائرنگ کی۔ صہیونی فیتھ فل گروپ مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ 1976 میں صہیونی عدالت نے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں کے شدید احتجاج پر بعد ازاں یہ اجازت منسوخ کردی گئی۔1979 میں مسجد اقصیٰ کے ایک داخلی راستے پر صہیونی انتہا پسندوں نے قبضہ کرلیا اور فلسطینی نمازیوں پر اسلحہ تان کر انھیں عبادت کے لیے اندر نہیں جانے دیا۔ 1980 کے عشرے میں بھی یہ سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔
اگست 1981 میں ایک اسرائیلی ہیلی کاپٹر مسجد اقصیٰ کے اوپر نچلی پرواز کرتا رہا تاکہ نمازی اندر خطبہ سننے نہ جا سکیں۔ 1981 میں ہی یہودی تہوار کے موقعے پر مسجد اقصیٰ سے اذان کوممنوع قرار دیا گیا۔اس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ مسجد اقصی کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگیں کھودی گئی تھیں۔ 1982 میں ایک جعلی بم پارسل ایک گیٹ پر رکھا گیا۔ اس میں صہیونیوں کی طرف سے دھمکیاں بھی لکھی گئی تھیں۔ القدس پر فائرنگ کی گئی، دو مسلمان شہید کیے گئے۔ اس سال ایک صہیونی اسرائیلی مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی سازش کرتے ہوئے پکڑا گیا لیکن بغیر کسی سزا کے آزاد کردیا گیا۔دیگر صہیونی گروہوں نے پمفلٹ تقسیم کرکے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ پر قبضے کے لیے اکسایا۔ مسجد اقصیٰ کو مسمار کرکے یہودی ٹیمپل کی تعمیر کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے1983 میں ٹیمپل ماؤنٹ فنڈ اسرائیل، یورپ اور امریکا میں قائم کیا گیا۔
اسی سال مسجد اقصیٰ کے داخلی راستے پر دھماکا خیز مواد برآمد ہوا، 4 مسلح یہودی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے جنھیں 6 ماہ بعد رہا کردیا گیا۔ 1984 میں آدھی رات کے وقت سیڑھیاں لگاکر اندر داخل ہونے کی کوشش کی گئی اور پورے سال فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے مسلح صہیونی داخلی راستوں پر پٹرولنگ کرنے لگے۔ 1988، 1990، 1996،1997 ، 2000، 2004، 2006، 2008 ، 2010 میں، 2011 سے 2014 تک کوئی سال ایسا نہیں گذرا جس میں مسجد اقصیٰ کی حرمت کی پامالی اور سرنگ کھودنے یا آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات رپورٹ نہ ہوئے ہوں۔مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کے بعد ستمبر 1969 میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ عرب لیگ کی طرح یہ تنظیم او آئی سی بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو اس کا دارالحکومت قرار دیتی ہے لیکن اس نے بھی عملی طور پر اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کیا۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطین کی مظلوم مائیں رو رو کر پوچھتی ہیں کہ عالم اسلام اور عالم عرب کہاں ہیں؟ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔
عرب لیگ اور او آئی سی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جنگ کی صف اول کے مجاہدین کی سرزمین غزہ پر اسرائیلی جارحیت ماہ رمضان المبارک میں شروع ہوئی لیکن افسوس کہ عرب بادشاہوں کو رمضان کا تقدس بھی یاد نہ رہا۔مسجد اقصیٰ اور القدس یعنی گنبد صخرہ آج صہیونیوں کے نرغے میں ہے ۔غزہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔ مغربی کنارے کے فلسطینی غزہ کے محصور بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی افواج کے سامنے تن کر کھڑے ہیں۔مسلمانان عالم کا اوقیانوس یوم القدس پر میدان عمل میں تھا اور احتجاج کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
عرب بادشاہوں کی خیانت کے باوجود غزہ سے اسرائیل پر جو راکٹ برسے وہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کے ایسے دوست اور مددگار زندہ ہیں جو قدس کی آزادی تک جاری رہنے والی اس جنگ میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان ہی راکٹوں کے خوف سے غاصب صہیونی طویل المدت جنگ بندی پر مجبور ہوا۔ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے 45 سال بعد کم ازکم یہ بات قابل اطمینان ہے کہ فلسطین کی مقاومت اسلامی کی موجودگی میں خائن بادشاہ وہ کردار ادا نہیں کرسکیں گے جو وہ ماضی میں اداکرکے فلسطین کے دشمنوں کو فائدہ پہنچاتے تھے۔