ہم کدھر جا رہے ہیں

اگر ہماری سیاسی قیادتیں سیاسی عزم و بصیرت کی دولت سے مالامال ہوتیں تو شاید اس بدنصیب ملک کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے...

muqtidakhan@hotmail.com

اس سے بڑی مضحکہ خیز بات اور کیا ہوگی کہ پارلیمان کی حفاظت کے دعویدار ہی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ احباب جو علامہ قادری اور عمران خان کے اقدامات کو غیر سنجیدہ قرار دے رہے تھے، اب چوہدری نثار علی خان کے اعتزاز احسن کے بارے میں سخت ترین ریمارکس پر کیا موقف اختیار کرتے ہیں؟

دراصل جب رویے بے لچک ہو جائیں، جب ضد، ہٹ دھرمی اور انا پرستی تفاخر بن جائے تو معاملات سلجھنے کے بجائے الجھتے ہیں۔ جب سوچ محدود ہو جائے اور انا غالب آ جائے، تو نظریں معاملات کی سنگینی کے بجائے اپنی ذات کا طواف کرنے لگتی ہیں۔ لہٰذا جب قیادتیں نااہل ہوں تو تنگ نظری اور ہٹ دھرمی ان کا مزاج بن جاتی ہے اور وہ معاملہ فہمی سے عاری ہو جاتی ہیں۔

اگر ہماری سیاسی قیادتیں سیاسی عزم و بصیرت کی دولت سے مالامال ہوتیں تو شاید اس بدنصیب ملک کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، جن سے آج کل دوچار ہے۔ مگر کیا کریں سیاسی جماعتوں کے یہی غیر سنجیدہ رویے اور کوتاہ بینی گزشتہ 67 برس سے ملک میں ہونے والی ہر خرابیِ بسیار کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یہ اغیار کی سازشوں سے زیادہ اپنوں کی کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ملک کاسہ گداگری لیے در در سے امداد اور قرض کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

کئی بار لکھا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مطالبات درست، لیکن ان کا طریقہ کار غلط ہے۔ مگر حکومت ہی نہیں ذرایع ابلاغ بھی دو فکری رویوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ کچھ حکومت کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں اور مظاہرین کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، جب کہ دیگر کچھ چینل مظاہرین کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ صرف چند ایسے چینلز ہیں، جو درمیانی راہ پر ہیں اور صحیح طور پر پیشہ ورانہ ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔

اس رو اور رجحان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیاست تو روز اول ہی سے بدحالی کا شکار چلی آ رہی تھی، مگر آج کے دور میں دیانت داری کے ساتھ غیر جانبدارانہ صحافت بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ دراصل ہمارے مزاج کی مطلق العنانیت مسائل کے باریک بینی سے مطالعہ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

ضروری نہیں کہ جو شخص حکمرانوں کا ناقد ہے، وہ اپوزیشن کا ترجمان ہو۔ مگر یہ تصور باندھ لیا گیا ہے کہ حکومت کے کسی بھی ایک اقدام کو سراہنے والا صحافی اس کا تنخواہ دار اور اس پر تنقید کرنے والا ہر قلمکار اپوزیشن کا ایجنٹ۔ اس روش و رجحان نے آزادانہ صحافت اور غیر جانبدارانہ تجزیہ نگاری کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آج سیاست اور صحافت دونوں روبہ زوال ہیں۔ یہ طے ہے کہ جہاں درخت نہیں ہوتے وہاں جھاڑیاں درخت کہلاتی ہیں۔ آج جو رہبر بنے بیٹھے ہیں، تقسیم ہند کو دعا دیں کہ انھیں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی، وگرنہ متحدہ ہندوستان میں وہ تین میں ہوتے نہ تیرہ میں۔

گزشتہ 25 روز سے عمران خان اور علامہ طاہر القادری شاہراہ دستور پر اس لیے موجود ہیں، کیونکہ حکومت ان معاملات کو حل کرنے میں کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ خودسری اور خود نمائی بے لچک رویوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ المیہ صرف مسلم لیگ (ن) تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر جماعت اسی روش و رویہ کی اسیر ہے۔ کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پارلیمان میں جو تماشا لگا ہوا ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ وزراء جو مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہیں، محض وزیر اعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پارلیمان میں بڑھ چڑھ کر لاف گزاف کر رہے ہیں۔


حالانکہ انھیں مذاکرات کی کامیابی کی خاطر محتاط روش اختیار کرنا چاہیے تھی۔ افسوس تو احسن اقبال جیسے سنجیدہ اور متین وزراء پر ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کی زبان استعمال کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے رویوں اور روش سے مذاکرات کو بامقصد بنایا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یا تو مذاکرات ڈھونگ ہیں یا ان کی ایوان میں کی جانے والی تقاریر موقع پرستی کا مرقع ہیں۔ رہی سہی کسر چوہدری نثار علی خان نے پوری کر دی۔ وہ جس انداز میں چوہدری اعتزاز احسن پر برسے اس نے سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی کوتاہ بینی پر مہر صداقت ثبت کر دی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سول بیوروکریسی نے ملک میں جمہوریت کے خلاف ریشہ دوانیاں کیں۔ فوج نے مختلف حیلوں بہانوں سے اقتدار پر قبضہ کیا اور سیاست اور سیاستدانوں کو ایوان اقتدار سے بے دخل کیا مگر ملک کی سیاسی تاریخ کا غیر جانبدار مطالعہ اس دعوے کے برعکس حقائق بیان کرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آئین سازی میں تاخیری حربے کس نے اختیار کیے؟ 7 برسوں کے دوران دستور ساز اسمبلی کے کل 156 اجلاس کن وجوہات کی بنیاد پر ہوئے؟

آئین بنانے کے بجائے متنازع قرارداد مقاصد کی منظوری کس کی ذہنی اخترع تھی؟ فوج کے سربراہ کو 1954ء میں یونیفارم کے ساتھ وزارت دفاع کس نے پیش کی؟ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سول بیوروکریسی کو فری ہینڈ کس نے دیا؟ ان سوالات پر غور کیا جائے تو ایک ہی جواب ذہن میں گونجتا ہے کہ یہ سب اقدام سیاستدانوں نے سرانجام دیے تھے۔ پھر اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ ایوب خان سے پرویز مشرف تک جب بھی کوئی جرنیل اقتدار پر قابض ہوا، متاثرہ سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ہر سیاسی جماعت نے اس عمل کی کھل کر حمایت کی۔

لیکن حکمرانوں اور دیگر جماعتوں کی نااہلی اور غیر ذمے دارانہ روش کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اس وقت ملک شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے۔ مگر اس بحران سے نمٹنے کی پالیسیاں طے کرنے کے بجائے سیاستدان پارلیمان کے ایوان میں ایک دوسرے پر دشنام طرازیوں میں مصروف ہیں۔ تھر قحط سالی کا شکار چلا آ رہا ہے، بچے بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ مگر غربت، افلاس اور ان گنت مسائل کی گرداب میں پھنسے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔

عمران خان جن مقاصد کے لیے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا وہ اس وقت عوام کو درپیش ان مصائب سے زیادہ اہم ہیں؟ علامہ طاہر القادری جس منشور پر عمل درآمد کے خواہشمند ہیں، کیا اس کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ دھرنا کچھ عرصہ کے لیے موقوف کر کے اپنی افرادی قوت کو مسائل میں پھنسے عوام کی بحالی کے لیے استعمال کریں؟ مگر شاید انا، ہٹ دھرمی اور خود نمائی کے اسیر رہنمائوں کی نظر میں عوام کی موجودہ مشکلات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اب دوسری طرف آئیے، پنجاب حکومت کے تیز رفتار ترقی کے دعوے اس وقت زمیں بوس ہو گئے، جب چند روز کی موسلادھار بارش نے پورے صوبے میں تباہی پھیلا دی۔ صوبائی دارالحکومت لاہور جس کی ترقی کے گن گائے جاتے رہے ہیں، دو روز کی بارش نے پورے شہر کو ایک بڑی جھیل میں تبدیل کر کے ترقی کے دعوؤں کا پول کھول کر رکھ دیا۔ بڑے بڑے پلوں کی تعمیر، شاہراہیں بنانے اور جدید بسیں چلانے کی اپنی اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے۔

مگر عوام کو قدرتی آفات سے بچانے، تعلیم اور صحت کی سہولیات مہیا کرنا اور سماجی ترقی کی راہ پر لگانا حکومتوں کی اولین ترجیح و ذمے داری ہوا کرتی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں حکومتیں عوام کی ضروریات کے بجائے اپنے مفادات کو فوقیت دیتی ہیں۔ ایسے اقدامات جو سیاسی عزم و بصیرت سے عاری اور بدنیتی پر مبنی ہوں، تو ایک معمولی سا واقعہ ان کا پول کھول کر رکھ دیتا ہے۔ جیسا کہ دو روز کی شدید بارشوں نے پنجاب کی ترقی کے دعوئوں کو ڈھول کا پول بنا دیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ خودسری، ہٹ دھرمی اور انا پرستی کے خول سے نکل کر معاملات و مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ ہر سال بارشوں سے پھیلنے والی تباہی، سماجی سہولیات کا فقدان اور صحت کی ابتر صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک میں فی الفور با اختیار مقامی حکومتی نظام قائم کیا جائے۔ تا کہ ان مسائل کو نچلی ترین سطح پر حل کیا جا سکے۔ مگر ہمارے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ہی سے فرصت نہیں مل رہی کہ وہ ٹھوس اور پائیدار منصوبے تیار کر کے ان پر عمل درآمد کر سکیں۔ یہ انداز سیاست سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر ہم کدھر جا رہے ہیں اور اس کا انجام کیا ہو گا۔
Load Next Story