بات کچھ اِدھر اُدھر کی مجھے فرق نہیں پڑتا
خاندانی سیاست کرنے والوں کو ڈلیور کرنا چاہیے کہیں یہ نہ ہو کہ مایوس نوجوان اپنا حق لینے کیلے سڑکوں پہ آ جائیں۔
کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کے سیاست سے ہٹ کر بھی کچھ سوچوں، مگراُسی لمحے یہ خیال آتا ہےا ور پھر مایوس ہوجاتا ہوں کہ سیاست سے ہٹ کر بھلا کیسے سوچوں کہ ہمارے تمام مسائل کسی نہ کسی طریقے سے حکومتی نظام سے جڑے ہوئے اور ان میں ایسی مماثلیت ہے کہ اگر ان کو الگ کرنے کا سوچوں بھی تو الگ نہ کر پاؤں گا۔
پھر مسئلہ دہشتگردی کا ہو یا امن و امان کا، مہنگا ئی یا بیروزگاری کا، پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں وہ اِن مسائل سے نمٹنے میں بُری طرح ناکام نظر آتی ہیں کیونکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی سنجیدگی اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے جو ہر حکومت میں دور دور تک نظر نہیں آرہی۔
حکومتوں نے جس طرح ہماری تعمیری سوچ کو زنگ لگایا ہے ہم اس سے واقف نہیں ہو سکتے جب تک ایک جمہوری ملک میں رہتے ہوئے جمہوریت کے ثمرات سے استفادہ نہ ہو۔ ہم غلام ابنِ غلام ہے اس ملک کے چند خاندانی سیاستدانوں کے اور اِس حقیقت کے عیاں ہونے کے باوجود بھی ہم علمِ بغاوت اُٹھانے کو تیار نہیں کیونکہ مجھے اِس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ہزاروں لوگ ناقص پالیسی کی بدولت بارش اور سیلاب کی بدولت سالانہ کی بنیاد پر بے گھر ہوجائیں۔ کیونکہ مجھے فرق نہیں پڑتا اگر لوگ دہشتگرد کارروائیوں میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ کیونکہ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مہنگائی اور بیروزگار کی وجہ سے بچوں سمیت خود کشی کرلیں۔ کیونکہ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ اگر بجلی کے بل ایک سال میں دوگنے ہو جائے اور اربوں روپیہ غیرضروری کاموں جھونک دیا جائے یا نندی پور پرجیکٹ میں اربوں روپیے کا ڈاکہ ہو ہماری مصومیت کی حد تو یہ ہے کہ ہم اسے کرپشن نہیں سمجھتے،عوام کا منڈیٹ چوری ہو جائے تو بھی مجھے فرق نہیں پڑتا ۔ اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں تو اپنے گھر میں خوش ہوں نا۔ نہ میں بارش اور سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوا، نہ میں مہنگائی اور بےروزگاری سے متاثر ہوا ہوں اور اگر بجلی کے بل بڑھ بھی گئے ہیں تو کیا ہوا میں وہ بھرنے کے قابل تو ہوں نا۔
ہم سیدھے سادھے الفاظ میں بے حس ہیں اور اگر سخت الفاظ استمعال کیے جائیں تو "بے غیرت" جو بادشاہ سلامت کے سامنے یہ التجا لے کر جاتے ہیں کے جوتے مارنے والے بڑا دیے جائیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہماری نوجوان نسل اور بچوں میں کس طرح کی سوچ پروان چڑھ رہی جو ہماری معاشرتی اقتداروں کو سونگ کے طرح کھا ئے جا رہی ہے اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اس بات کی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے، کون سوچے گا ہماری نوجوان پود کیلئے جس کو اسلاف کی تاریخ سنا سنا کر بور کر دیا ہے، صاحب آپ زرہ موازنہ تو کریں ہماری نوجوان نسل اور ترقی یافتہ ملکوں کے نوجوان کی سوچ میں کہ یہاں انتہا ہ کی پستی ہے جو پاکستانیت کیلے ایک خطرہ ہے۔
خاندانی سیاست کرنے والوں کو حوش کے ناخن لینے چاہیں کہ وہ ڈلیور کریں یہ نہ ہو کے مایوس نوجوان اپنا حق لینے کیلے سڑکوں پہ آ جائیں اور اس نظام کی بساط لپیٹ دے، اگر یہ جعلی جمہوریت ڈلیور کر دیتی ہے تو ٹھیک نہیں ورنہ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ درحقیت جمہوریت ہمارے گھر کی لونڈی ہے جس کا دل چاہے اپنی کرپشن چھپانے کیلے اسکا استعمال کریں اور مک مکا کی سیاست کو جمہوریت کا نام دے دیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
پھر مسئلہ دہشتگردی کا ہو یا امن و امان کا، مہنگا ئی یا بیروزگاری کا، پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں وہ اِن مسائل سے نمٹنے میں بُری طرح ناکام نظر آتی ہیں کیونکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی سنجیدگی اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے جو ہر حکومت میں دور دور تک نظر نہیں آرہی۔
حکومتوں نے جس طرح ہماری تعمیری سوچ کو زنگ لگایا ہے ہم اس سے واقف نہیں ہو سکتے جب تک ایک جمہوری ملک میں رہتے ہوئے جمہوریت کے ثمرات سے استفادہ نہ ہو۔ ہم غلام ابنِ غلام ہے اس ملک کے چند خاندانی سیاستدانوں کے اور اِس حقیقت کے عیاں ہونے کے باوجود بھی ہم علمِ بغاوت اُٹھانے کو تیار نہیں کیونکہ مجھے اِس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ہزاروں لوگ ناقص پالیسی کی بدولت بارش اور سیلاب کی بدولت سالانہ کی بنیاد پر بے گھر ہوجائیں۔ کیونکہ مجھے فرق نہیں پڑتا اگر لوگ دہشتگرد کارروائیوں میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ کیونکہ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مہنگائی اور بیروزگار کی وجہ سے بچوں سمیت خود کشی کرلیں۔ کیونکہ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ اگر بجلی کے بل ایک سال میں دوگنے ہو جائے اور اربوں روپیہ غیرضروری کاموں جھونک دیا جائے یا نندی پور پرجیکٹ میں اربوں روپیے کا ڈاکہ ہو ہماری مصومیت کی حد تو یہ ہے کہ ہم اسے کرپشن نہیں سمجھتے،عوام کا منڈیٹ چوری ہو جائے تو بھی مجھے فرق نہیں پڑتا ۔ اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں تو اپنے گھر میں خوش ہوں نا۔ نہ میں بارش اور سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوا، نہ میں مہنگائی اور بےروزگاری سے متاثر ہوا ہوں اور اگر بجلی کے بل بڑھ بھی گئے ہیں تو کیا ہوا میں وہ بھرنے کے قابل تو ہوں نا۔
ہم سیدھے سادھے الفاظ میں بے حس ہیں اور اگر سخت الفاظ استمعال کیے جائیں تو "بے غیرت" جو بادشاہ سلامت کے سامنے یہ التجا لے کر جاتے ہیں کے جوتے مارنے والے بڑا دیے جائیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہماری نوجوان نسل اور بچوں میں کس طرح کی سوچ پروان چڑھ رہی جو ہماری معاشرتی اقتداروں کو سونگ کے طرح کھا ئے جا رہی ہے اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اس بات کی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے، کون سوچے گا ہماری نوجوان پود کیلئے جس کو اسلاف کی تاریخ سنا سنا کر بور کر دیا ہے، صاحب آپ زرہ موازنہ تو کریں ہماری نوجوان نسل اور ترقی یافتہ ملکوں کے نوجوان کی سوچ میں کہ یہاں انتہا ہ کی پستی ہے جو پاکستانیت کیلے ایک خطرہ ہے۔
خاندانی سیاست کرنے والوں کو حوش کے ناخن لینے چاہیں کہ وہ ڈلیور کریں یہ نہ ہو کے مایوس نوجوان اپنا حق لینے کیلے سڑکوں پہ آ جائیں اور اس نظام کی بساط لپیٹ دے، اگر یہ جعلی جمہوریت ڈلیور کر دیتی ہے تو ٹھیک نہیں ورنہ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ درحقیت جمہوریت ہمارے گھر کی لونڈی ہے جس کا دل چاہے اپنی کرپشن چھپانے کیلے اسکا استعمال کریں اور مک مکا کی سیاست کو جمہوریت کا نام دے دیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔