باغی جاوید ہاشمی
یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو مسند صدارت پر فائز تھے۔۔۔
1972 کا واقعہ ہے جب نوجوانوں کے ایک گروپ نے لاہور میں گورنر ہاؤس پر چڑھائی کردی۔ یہ لوگ بہت بپھرے ہوئے تھے کیونکہ شہر کے علاقے سمن آباد کے پڑوس میں مبینہ طور پر ایک سرکاری اہل کار کے ایما پر دو لڑکیاں اغوا کرلی گئی تھیں۔ اس واقعے کی نوعیت بڑی سنگین تھی کیونکہ یہ سرکاری اہل کار ایک سینئر پوزیشن پر فائز تھا۔
یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو مسند صدارت پر فائز تھے۔ نوبت اس حد تک جا پہنچی کہ ناراض مجمعے نے اس وقت ان کے سامنے صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کی جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایک برطانوی وزیر کے ہمراہ راستے سے گزر رہے تھے۔ احتجاج کرنے والوں کی قیادت جاوید ہاشمی کر رہے تھے جنھوں نے اسلامی جمعیت طلبا کی حمایت سے پنجاب یونیورسٹی کی یونین کے الیکشن میں کانٹے کے مقابلے کے بعد زبردست فتح حاصل کی تھی۔ بس پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آگئے تھے۔
اس واقعے کے تقریباً دو سال بعد جاوید ہاشمی نے ایک مرتبہ پھر بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ مملکت تسلیم کیے جانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرکے اپنی جرأت مندی کا لوہا منوالیا۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا کیونکہ اس وقت لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی جس میں دنیا بھر کے بڑے بڑے قدآور مسلمان سربراہان مملکت شریک تھے۔
عین اس وقت جب سعودی عرب کے حکمراں شاہ فیصل کی موٹر گاڑیوں کا قافلہ گزر رہا تھا، جاوید ہاشمی تمام سیکیورٹی انتظامات کی پروا نہ کرتے ہوئے انتہائی دلیری کے ساتھ اپنے احتجاجی مظاہرین کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ان دونوں واقعات کا تذکرہ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی خودنوشت ''ہاں میں باغی ہوں'' میں بذات خود جرأت رندانہ کے ساتھ کیا ہے گویا:
مرا مزاج لڑکپن سے باغیانہ ہے
جاوید ہاشمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بیباک اوردوٹوک انداز calling a spade a spade کے عادی ہیں اور بے باکی اور حق گوئی ان کے خون میں رچی بسی ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ''میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔''آپ اسے چاہے ان کی خوبی کہیں یا خرابی مگر یہ بات ان کے خمیر میں شامل ہے۔ سچ پوچھیے تو یہی ان کا طرہ امتیاز ہے۔ چنانچہ اسی باعث انھوں نے ماضی میں مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کی اور اسی بنا پر ابھی حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپنا راستہ جدا کیا۔
وہ فوجی آمریت پر جمہوری اقدارکی برتری، اختلاف رائے کی حرکت اور اپنے سیاسی اقدامات سے بے نیازی کے قائل ہیں۔ اپنے نظریات کی خاطر انھیں بڑے سے بڑا نقصان بھی گوارا ہے۔ طویل قیدوبند کی صعوبتیں بھی انھیں ان کے اس عمل سے باز نہ رکھ سکیں۔
ان کی انتہائی جرأت مندی کا مظاہرہ 2003 میں تب دیکھنے میں آیا جب وہ فوجی آمریت پر سویلین نظام کی برتری کا دفاع کرتے ہوئے گرفتار کرلیے گئے۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ فوج کو تقسیم کرنے میں ملوث تھے۔ اس مبینہ جرم کی پاداش میں انھیں جیل میں ڈال دیا گیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی ان پر مقدمہ بھی چلایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ان پر اس بنا پر مقدمہ چلایا کہ انھوں نے اس خفیہ خط کو عوام پر منکشف کردیا تھا جو مبینہ طور پر فوج کے چند جونیئر افسران نے بعض سینئر فوجی افسران کی مبینہ کرپشن کو بے نقاب کرنے کے سلسلے میں تحریر کیا تھا۔
انھیں بہت سمجھایا بجھایا بھی گیا اور ڈرایا دھمکایا بھی گیا لیکن وہ اپنے موقف سے ذرا بھی نہیں ہٹے۔ اور ان کے پائے استقامت میں ذرا سی بھی لغزش نہیں آئی۔پھر جب وہ مسلم لیگ (ن) میں تھے اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف پر برا وقت آیا اور انھوں نے جلاوطنی اختیارکی اور ان کے بعض بے وفا ساتھی انھیں چھوڑ کر پرویز مشرف کی چھتری تلے چلے گئے تب بھی جاوید ہاشمی نے جمہوریت کا پرچم بلند رکھنے کی خاطر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت چھوڑنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی جوکہ اس وقت حقیقتاً محض کانٹوں کی سیج تھی۔ انھوں نے اس وقت بھی ثابت کردیا کہ وہ سچے جمہوریت پسند ہیں اور جمہوریت کے حقیقی علم بردار ہیں۔
حالات اور نتائج خواہ جو بھی ہوں حق بات کہنا جاوید ہاشمی کی عادت اور روایت ہے۔ جب وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل تھے اس وقت بھی وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ پارٹی کے اجلاسوں میں بھی وہ اپنی بات ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر ہی کہا کرتے تھے خواہ انھیں پارٹی کے سربراہ سے ہی کیوں نہ اختلاف ہو۔ مگر ان کا یہ اختلاف ذاتی نہیں بلکہ اصولی اور نظریاتی ہی ہوتا تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ جاوید ہاشمی خود کو کوئی فرشتہ سمجھتے ہیں۔ دوسروں کی طرح وہ بھی ایک انسان ہی ہیں اور انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔
1978 میں ان سے بھی ایک بہت بڑی خطا اس وقت سرزد ہوئی تھی جب انھوں نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں وزارت قبول کرلی تھی۔ اس وقت ان کی عمر 29 برس تھی اور شاید وہ کابینہ کے سب سے کم عمر وزیر تھے۔ شاید یہ ان کی کج فہمی یا کم عمری ہی تھی کہ ان سے اتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی جس کا انھیں آج بھی بہت زیادہ افسوس اور قلق محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہ کانٹا ہے جس کی چبھن آخری سانس تک ان کے دل کو تکلیف پہنچاتی رہے گی۔
جاوید ہاشمی کو اپنی اس ہمالیائی غلطی کا نہ صرف شدید احساس ہے بلکہ کھلا اعتراف بھی ہے۔اس کا تذکرہ ان کی خودنوشت میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اس بات کے معترف ہیں کہ وزارت کے اس دور میں وہ مسلسل ایک اضطرابی کیفیت سے دوچار رہے کیونکہ ان کا یہ فیصلہ ان کی فطرت اور مزاج کے خلاف تھا۔ ان سے ایک اور بڑی بھاری غلطی اس وقت سرزد ہوئی جب انھوں نے یوسف نامی ایک وکیل سے ایک رقم لینا قبول کرلی جس کے باعث انھیں بڑی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر چند کہ انھوں نے یہ صفائی بھی پیش کی کہ یہ رقم انھوں نے محض کاروباری قرضے کے طور پر لی تھی اور واپس بھی کردی تھی لیکن اس حوالے سے ان کے دامن پر لگنے والا داغ دھل نہیں پایا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کا شمار وطن عزیز کے ان گنتی کے سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں اور جن کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی قابل قدر اور لائق تحسین ہے۔ موجودہ سیاست دانوں میں وہ شاید واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ دکھ اٹھائے ہیں اور جمہوری نظام کی بقا کی خاطر سب سے زیادہ اور بڑی قربانیاں دی ہیں۔
جب 2011 میں انھوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہا تب بھی ان کا یہ فیصلہ اصولوں کی بنیاد پر ہی تھا۔ تاہم ان کے بعض سیاسی ساتھیوں نے اس حوالے سے طرح طرح کی باتیں کیں اور نئے نئے افسانے تراشے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ ان کے اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ پی ایم ایل (ن) کی قیادت نے ان کے ایک قریبی رشتے دار کو الیکشن میں امیدوار کے طور پر کھڑا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہ ہوسکی۔ بعض ساتھیوں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سے ان کی ناخوشی کا سبب یہ تھا کہ 2008 کے الیکشن کے بعد وہ قائد حزب اختلاف بننا چاہتے تھے مگر یہ منصب چوہدری نثار علی خان کو سونپ دیا گیا۔ دوسری جانب ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ وہ اس منصب کے حقیقی حق دار تھے کیونکہ پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں انھوں نے اپنی پارٹی کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی تھیں۔
سچی بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی سیاست کی بھٹی میں تپنے کے بعد کندن بن کر نکلے ہیں اور کھری سے کھری بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کے ان کے عزم میں عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزوری نہیں بلکہ توانائی اور پختگی آئی ہے اور جمہوریت کے ساتھ ان کا تعلق مستحکم سے مستحکم تر ہوا ہے۔ اگرچہ عمران خان سے ان کا راستہ جدا ہونے کے بعد طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی ان کے سیاسی عزائم اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔
وہ آج بھی مسلم لیگ (ن) کی بعض باتوں سے اختلاف رکھتے ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں قبل ازوقت ہوگا۔ اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی جوائن کرنے کے بارے میں کی جانے والی قیاس آرائی بھی شاید بہت زیادہ قبل ازوقت ہوگی کیونکہ اپنے سیاسی کیریئر میں وہ اس سیاسی جماعت پر وقتاً فوقتاً کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ فطرتاً آزاد منش اور طبعاً باغی واقع ہوئے ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو مسند صدارت پر فائز تھے۔ نوبت اس حد تک جا پہنچی کہ ناراض مجمعے نے اس وقت ان کے سامنے صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کی جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایک برطانوی وزیر کے ہمراہ راستے سے گزر رہے تھے۔ احتجاج کرنے والوں کی قیادت جاوید ہاشمی کر رہے تھے جنھوں نے اسلامی جمعیت طلبا کی حمایت سے پنجاب یونیورسٹی کی یونین کے الیکشن میں کانٹے کے مقابلے کے بعد زبردست فتح حاصل کی تھی۔ بس پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آگئے تھے۔
اس واقعے کے تقریباً دو سال بعد جاوید ہاشمی نے ایک مرتبہ پھر بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ مملکت تسلیم کیے جانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرکے اپنی جرأت مندی کا لوہا منوالیا۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا کیونکہ اس وقت لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی جس میں دنیا بھر کے بڑے بڑے قدآور مسلمان سربراہان مملکت شریک تھے۔
عین اس وقت جب سعودی عرب کے حکمراں شاہ فیصل کی موٹر گاڑیوں کا قافلہ گزر رہا تھا، جاوید ہاشمی تمام سیکیورٹی انتظامات کی پروا نہ کرتے ہوئے انتہائی دلیری کے ساتھ اپنے احتجاجی مظاہرین کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ان دونوں واقعات کا تذکرہ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی خودنوشت ''ہاں میں باغی ہوں'' میں بذات خود جرأت رندانہ کے ساتھ کیا ہے گویا:
مرا مزاج لڑکپن سے باغیانہ ہے
جاوید ہاشمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بیباک اوردوٹوک انداز calling a spade a spade کے عادی ہیں اور بے باکی اور حق گوئی ان کے خون میں رچی بسی ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ''میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔''آپ اسے چاہے ان کی خوبی کہیں یا خرابی مگر یہ بات ان کے خمیر میں شامل ہے۔ سچ پوچھیے تو یہی ان کا طرہ امتیاز ہے۔ چنانچہ اسی باعث انھوں نے ماضی میں مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کی اور اسی بنا پر ابھی حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپنا راستہ جدا کیا۔
وہ فوجی آمریت پر جمہوری اقدارکی برتری، اختلاف رائے کی حرکت اور اپنے سیاسی اقدامات سے بے نیازی کے قائل ہیں۔ اپنے نظریات کی خاطر انھیں بڑے سے بڑا نقصان بھی گوارا ہے۔ طویل قیدوبند کی صعوبتیں بھی انھیں ان کے اس عمل سے باز نہ رکھ سکیں۔
ان کی انتہائی جرأت مندی کا مظاہرہ 2003 میں تب دیکھنے میں آیا جب وہ فوجی آمریت پر سویلین نظام کی برتری کا دفاع کرتے ہوئے گرفتار کرلیے گئے۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ فوج کو تقسیم کرنے میں ملوث تھے۔ اس مبینہ جرم کی پاداش میں انھیں جیل میں ڈال دیا گیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی ان پر مقدمہ بھی چلایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ان پر اس بنا پر مقدمہ چلایا کہ انھوں نے اس خفیہ خط کو عوام پر منکشف کردیا تھا جو مبینہ طور پر فوج کے چند جونیئر افسران نے بعض سینئر فوجی افسران کی مبینہ کرپشن کو بے نقاب کرنے کے سلسلے میں تحریر کیا تھا۔
انھیں بہت سمجھایا بجھایا بھی گیا اور ڈرایا دھمکایا بھی گیا لیکن وہ اپنے موقف سے ذرا بھی نہیں ہٹے۔ اور ان کے پائے استقامت میں ذرا سی بھی لغزش نہیں آئی۔پھر جب وہ مسلم لیگ (ن) میں تھے اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف پر برا وقت آیا اور انھوں نے جلاوطنی اختیارکی اور ان کے بعض بے وفا ساتھی انھیں چھوڑ کر پرویز مشرف کی چھتری تلے چلے گئے تب بھی جاوید ہاشمی نے جمہوریت کا پرچم بلند رکھنے کی خاطر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت چھوڑنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی جوکہ اس وقت حقیقتاً محض کانٹوں کی سیج تھی۔ انھوں نے اس وقت بھی ثابت کردیا کہ وہ سچے جمہوریت پسند ہیں اور جمہوریت کے حقیقی علم بردار ہیں۔
حالات اور نتائج خواہ جو بھی ہوں حق بات کہنا جاوید ہاشمی کی عادت اور روایت ہے۔ جب وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل تھے اس وقت بھی وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ پارٹی کے اجلاسوں میں بھی وہ اپنی بات ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر ہی کہا کرتے تھے خواہ انھیں پارٹی کے سربراہ سے ہی کیوں نہ اختلاف ہو۔ مگر ان کا یہ اختلاف ذاتی نہیں بلکہ اصولی اور نظریاتی ہی ہوتا تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ جاوید ہاشمی خود کو کوئی فرشتہ سمجھتے ہیں۔ دوسروں کی طرح وہ بھی ایک انسان ہی ہیں اور انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔
1978 میں ان سے بھی ایک بہت بڑی خطا اس وقت سرزد ہوئی تھی جب انھوں نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں وزارت قبول کرلی تھی۔ اس وقت ان کی عمر 29 برس تھی اور شاید وہ کابینہ کے سب سے کم عمر وزیر تھے۔ شاید یہ ان کی کج فہمی یا کم عمری ہی تھی کہ ان سے اتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی جس کا انھیں آج بھی بہت زیادہ افسوس اور قلق محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہ کانٹا ہے جس کی چبھن آخری سانس تک ان کے دل کو تکلیف پہنچاتی رہے گی۔
جاوید ہاشمی کو اپنی اس ہمالیائی غلطی کا نہ صرف شدید احساس ہے بلکہ کھلا اعتراف بھی ہے۔اس کا تذکرہ ان کی خودنوشت میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اس بات کے معترف ہیں کہ وزارت کے اس دور میں وہ مسلسل ایک اضطرابی کیفیت سے دوچار رہے کیونکہ ان کا یہ فیصلہ ان کی فطرت اور مزاج کے خلاف تھا۔ ان سے ایک اور بڑی بھاری غلطی اس وقت سرزد ہوئی جب انھوں نے یوسف نامی ایک وکیل سے ایک رقم لینا قبول کرلی جس کے باعث انھیں بڑی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر چند کہ انھوں نے یہ صفائی بھی پیش کی کہ یہ رقم انھوں نے محض کاروباری قرضے کے طور پر لی تھی اور واپس بھی کردی تھی لیکن اس حوالے سے ان کے دامن پر لگنے والا داغ دھل نہیں پایا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کا شمار وطن عزیز کے ان گنتی کے سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں اور جن کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی قابل قدر اور لائق تحسین ہے۔ موجودہ سیاست دانوں میں وہ شاید واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ دکھ اٹھائے ہیں اور جمہوری نظام کی بقا کی خاطر سب سے زیادہ اور بڑی قربانیاں دی ہیں۔
جب 2011 میں انھوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہا تب بھی ان کا یہ فیصلہ اصولوں کی بنیاد پر ہی تھا۔ تاہم ان کے بعض سیاسی ساتھیوں نے اس حوالے سے طرح طرح کی باتیں کیں اور نئے نئے افسانے تراشے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ ان کے اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ پی ایم ایل (ن) کی قیادت نے ان کے ایک قریبی رشتے دار کو الیکشن میں امیدوار کے طور پر کھڑا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہ ہوسکی۔ بعض ساتھیوں کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سے ان کی ناخوشی کا سبب یہ تھا کہ 2008 کے الیکشن کے بعد وہ قائد حزب اختلاف بننا چاہتے تھے مگر یہ منصب چوہدری نثار علی خان کو سونپ دیا گیا۔ دوسری جانب ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ وہ اس منصب کے حقیقی حق دار تھے کیونکہ پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں انھوں نے اپنی پارٹی کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی تھیں۔
سچی بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی سیاست کی بھٹی میں تپنے کے بعد کندن بن کر نکلے ہیں اور کھری سے کھری بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کے ان کے عزم میں عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزوری نہیں بلکہ توانائی اور پختگی آئی ہے اور جمہوریت کے ساتھ ان کا تعلق مستحکم سے مستحکم تر ہوا ہے۔ اگرچہ عمران خان سے ان کا راستہ جدا ہونے کے بعد طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی ان کے سیاسی عزائم اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔
وہ آج بھی مسلم لیگ (ن) کی بعض باتوں سے اختلاف رکھتے ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں قبل ازوقت ہوگا۔ اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی جوائن کرنے کے بارے میں کی جانے والی قیاس آرائی بھی شاید بہت زیادہ قبل ازوقت ہوگی کیونکہ اپنے سیاسی کیریئر میں وہ اس سیاسی جماعت پر وقتاً فوقتاً کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ فطرتاً آزاد منش اور طبعاً باغی واقع ہوئے ہیں۔