طوفانی بارش وہ اور ہم

مجھے یقین ہے کہ عوام کے یہ منتخب ’’لاڈلے‘‘ نمایندے اپنا ٹی اے ڈی اے لینا نہیں بھولے ہوں گے۔۔۔

latifch910@yahoo.com

طوفانی بارش آئی اور چلی گئی لیکن اپنے پیچھے بہت سی المناک لیکن سبق آموز داستانیں چھوڑ گئی۔ کچے گھروں میں بسنے والے بیسیوں غریب انسان کمزور اور کچی دیواریں گرنے سے جان سے چلے گئے جو بچ گئے' ان کے بستر اور سامان برباد ہو گیا۔کئی بیٹیوں کا جہیز بھی پانیوں میں بہہ گیا۔ اس بے رحم بارش کا مزہ یقیناً ہمارے ان ''سویٹ'' پارلیمنٹیرینز نے نہیں چکھا ہو گا جو ائر کنڈیشنڈ ہال جسے اسمبلی فلور کا نام دیا جاتا ہے' میں سوٹ ' ٹائیوں ' شیروانیوں اور واسکٹ میں ملبوس عمران خان اور طاہر القادری پر گرج برس رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ عوام کے یہ منتخب ''لاڈلے'' نمایندے اپنا ٹی اے ڈی اے لینا نہیں بھولے ہوں گے' ان کی اسلام آباد میں رہائش اور طعام کا بندوبست بھی مجھ جیسے عامیوں کے ٹیکسوں کی رقم سے ہوا ہو گا۔ ان کی زبانوں سے جو پھول جھڑے' اس کی خوشبو سے پورا پاکستان مہک رہا ہے' ان کی'' شیریں زبانی''سے کوئی محفوظ نہ رہا حتیٰ کہ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔اس معاملے میں سب ایک ہیںیعنی کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ ہمارے پارلیمنٹیرینز نے عوامی نمایندگی کا حق ادا کر دیا۔دھرنے والے تو بیچارے باہر بارش میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن چمچماتی گاڑیوں میں آنے والے پارلیمنٹیرینز بارش میں نہیں بھیگتے۔

خادم چھتری لے کر انھیں بحفاظت اندر پہنچا دیتے ہیں۔ یہ بھی شاید ان کا استحقاق ہے۔ عام شہری کا استحقاق کیا ہے، اس کا اندازہ مجھے بخوبی ہے۔ بارش نے پتہ نہیں اسلام آباد میں کچھ کیا ہے کہ نہیں' لیکن لاہور ڈوب گیا ہے۔ گھروں میں پانی داخل ہو گیا' کئی علاقوں میں بجلی بند ہو گئی اور ایسی بند ہوئی کہ ان سطور کے لکھے جانے تک غائب رہی۔ ہمارے ہر دل عزیزکالم نگار عبدالقادر حسن تو تین راتیں اندھیرے میں گزار چکے ہیں' انھوں نے اپنا احوال کالم میں بیان کر دیا ہے۔ انھیں یقیناً اصلی جمہوریت کا مزہ آ گیا ہو گا۔

لاہور میں دو روز دن رات بارش جاری رہی۔ اس دوران ضلعی اور واسا انتظامیہ بے بس ہو گئی۔ ان بیچاروں کا بھی کیا قصور' جب جھولی میں کچھ ہے ہی نہیں تو کسی کو کیا دے سکتے ہیں۔ قدرتی آفت آتی ہے' سیلاب آتے ہیں' طوفان بارشیں ہوتی ہیں' دیواریں اور گھر گر جاتے ہیں، لوگ مر بھی جاتے ہیں' اس پر صبر کر لیا جاتا ہے کیونکہ طوفانوں اور ہنگاموں میں ایسا ہو جاتا ہے ۔لاہور میں جو بارش ہوئی' وہ بھی غیر معمولی تھی' ایسی طوفانی بارش میں سڑکوں اور گلیوں میں پانی کھڑا ہونا' کوئی حیرانی کی بات نہیں' وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خود پانی میں کھڑے رہے'ان کے ہمراہ کئی ایم پی ایز اور سرکاری افسر بھی بارش میں بھیگتے رہے۔


یہ اچھی بات ہے لیکن میں نے بعض ایسی باتیں سنیں' جو ہمارے زوال کی نشاندہی کرتی ہیں۔جب چند بااثر شخصیات کے کارنامے سامنے آتے ہیں تو دل بہت دکھتا ہے۔ میرے ایک دوست جو خود بھی بااثر ہیں' انھوں نے بتایا کہ ایک اعلیٰ افسر کے گھر میں پانی داخل ہو گیا'وہاں برساتی پانی نکالنے کے لیے مشین بھیجی گئی تو انھوں نے اسے وہاں ہی رکھ لیاکہ جب تک بارش ہورہی ہے، یہ یہیں رہے ۔ ایک اور اعلیٰ شخصیت نے بھی حکم دیا کہ ان کے گھر کے باہر سے بھی تاحکم ثانی پانی نکالنے والی مشین نہیں ہٹائی جائے گی۔ میرے دوست بیچارے پریشان تھے کہ اب ان کے علاقے سے پانی کیسے نکلے گا۔ ایک اور دلچسپ واقعہ بھی سنتے جائیے۔

لاہور کے ایک انتہائی پوش اور حفاظتی علاقے میں ایک بااثرشخصیت کے ' گھر سے پانی نکالا جا رہا تھا' وہ پانی ایک دوسری شخصیت کے گھر میں جا رہا تھا' پھر کیا تھا' وہ شخصیت غصے سے گھر سے باہر آ گئی اور عملے کو خوب ڈانٹا' غریب عملے نے وہاں سے کھسک جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ جب ٰ سرکاری شخصیات اپنے گھروں سے پانی نکالنے کے لیے فوراً مشین منگوالیں گی اور پھر وہاں سے جانے بھی نہیں دیں گی تو باقی شہر کا کیا بنے گا۔کیا اعلیٰ شخصیات کا یہ بے حس رویہ انصاف کے اصولوں کے منافی نہیں؟کتنے دکھ اور المیے کی بات ہے کہ ہمارے شہروں میں کہیں ناگہانی صورت حال پیدا ہو جائے تو شہری زندگی کو رواں رکھنے والے ادارے آگ بجھانے کے قابل ہیں نہ محصور شہریوں کو بحفاظت نکالنے کے اہل۔ بارش ہو جائے تو برساتی پانی نکالنے والی مشینیں کم ہیں' جو ہیں' وہ چند با اثر افراد کے گھروں اور محلوں کی جانب روانہ ہو جاتی ہیں۔باقی شہر قدرت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے یا شہری اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر شہری احتجاج کریں تو ان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت یا پھر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے اور وہ بیچارے مہینوں عدالتوں کچہریوں میںخوار ہوتے رہتے ہیں۔

اعلیٰ سرکاری افسر' وزراء اور جج صاحبان' ارکان اسمبلی' افواج کے افسران سب پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر پل رہے ہیں۔ ان کے یقیناً کچھ نہ کچھ فرائض اور ذمے داریاں ہیں' آئین میں ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ کیا ہمارے یہ سرکاری عمال اور عوام کے منتخب نمایندے آئین کے مطابق اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں؟ اس کا جواب ہر شہری کو معلوم ہے۔

کیا کسی ترقی یافتہ ملک میں کوئی سرکاری عہدیدار یا کوئی با اثرشخصیت ایسا کر سکتی ہے کہ وہ اپنے گھر سے پانی نکلوانے کے لیے سرکاری ادارے سے کوئی مشین منگوائے اور پھر اسے وہیں کھڑا رکھے اور باقی شہر ڈوب جائے۔ اگر کسی نے تاریخ پڑھی ہو تو اسے یاد ہو گا کہ جب معروف بحری جہاز ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا تو اس کے کیپٹن نے لائف بوٹ میں بیٹھنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ جب تک جہاز میں ایک بھی مسافر موجود ہے' وہ جہاز چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں خود کوعوام کا نمایندہ کہلانے والے دھواں دھار تقریریں کر رہے ہیں' ایک دوسرے پر ذاتی حملے ہو رہے ہیںیا پھر دھرنا دینے والوں کو مارنے کاٹنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ مجال ہے' کسی معزز رکن نے آئین میں موجود متنازعہ دفعات کے خاتمے کی بات کی ہو۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر سیلاب سے ہونے والی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیںلیکن جو کام کرنے کا ہے' وہ کوئی نہیں کر رہا۔جب مصیبت آ جائے تو اس وقت بھاگ دوڑ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا' قارئین آپ خود ہی بتائیں کہ کیا ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر سیلاب کا نظارہ کرنے سے بلا ٹل سکتی ہے۔ سیلابی اور برساتی پانی تو تباہی پھیلا رہا ہے' لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھاگ دوڑ کر رہے ہیں' سرکار کا کیا ہے' وہ ہیلی کاپٹر میں تیل پھونکے گی' سرکاری عملے کو مصیبت میں مبتلا کرے گی۔ پھر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو گا' اس پر بھی قوم کا مال خرچ ہو گا' اس دوران عوام کا کیا حشر ہو گا' یہ آپ اور میں ٹی وی اسکرین پر بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنے ارد گرد نظارہ کر رہے ہیں۔
Load Next Story