جمہوریت اور کچا پنکچر
1965 کی جیتی ہوئی جنگ ٹیبل پر ہار گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام معاملات سنبھالے اور جمہوریت کا حقیقی حسن بحال کیا۔۔۔
پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ بھی عجیب صورت حال ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک آپ ملک میں جمہور کو بدحال دیکھیں گے۔ جب بھی کسی نے حقوق کی آواز بلند کی تو اس کے ساتھ کئی اور آوازیں مل گئیں اور جمہوریت قائم ہوگئی لیکن اس کا پنپنا طویل عرصے تک کسی نے نہیں دیکھا۔ ملک میں ہر بار آمریت کا کچا پنکچر لگایا گیا کہ حالات قابو میں آجائیں گے تو ایک بار پھر جمہوریت بحال کردی جائے گی۔ ایوب نے دس سال تک ملک کے تمام اداروں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہر شخص بخوبی جانتاہے۔
1965 کی جیتی ہوئی جنگ ٹیبل پر ہار گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام معاملات سنبھالے اور جمہوریت کا حقیقی حسن بحال کیا جس سے ملک میں جمہور کو اپنے ہونے کا احساس ہوا۔ ایک معمولی مزدور اور کسان سے لے کر تاجر تک ہر فرد نے اس کے ثمرات سمیٹے لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ کب اچھا لگا کہ ملک میں عوامی ترقی ہو اور غلام آزادانہ زندگی گزاریں۔ پس وجہ بناکر بھٹو صاحب کو زیر کیا گیا۔ جمہور کی آواز آمریت کے بوٹوں تلے دب گئی اور جمہوریت دم توڑ گئی۔ ضیا الحق نے اپنے آخری برسوں میں غیر جماعتی انتخابات کرواکر جمہوریت کو زندگی دینے کی کوشش کی تاکہ ان کا نام اچھے الفاظ میں رقم ہو لیکن یہ بھی ایک کچا اور ناپائیدار پنکچر ہی ثابت ہوا۔
بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دو دو جمہوری ادوار بھی غلامی کی زنجیریں نہ توڑ سکے اور اسٹیبلشمنٹ کی بھینٹ چڑھے۔ مشرف نے نواز حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے وہی پرانا راگ الاپا کہ ملک کی سالمیت، اقتصادیات سمیت جمہوریت خطرات سے دوچار ہے وہ ایسا نظام وضع کریں گے جس سے ملک میں استحکام آئے گا۔ ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی اور جمہوریت کی ایسی داغ بیل ڈالی جائے گی کہ پھر اسے کسی طرح سے کوئی بھی خطرہ یا خدشہ لاحق ہے نہ ہوگا۔
ابتدا میں ملک کے چیف ایگزیکٹو رہے، پھر صدر بنے، ایک سیاسی پارٹی کے خالق بنے اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا، ان کے دور میں دو جمہوری حکومتیں گزر گئیں۔ طالبان ایک طاقت بن کر ابھرے، خودکش حملوں نے وہ نقصانات دیے کہ ملک کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی۔ کاروبار کو رگڑا لگ گیا۔ معیشت بدحال ہوئی ۔ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کی جانب کیا رخ کرتے مقامی سرمایہ کار ملک چھوڑنے کو ترجیح دینے لگے۔ یعنی نقصان در نقصان، ہر ادارہ بنیادی طور پر کھوکھلا اور کرپٹ ہوگیا۔
ہر کسی کو صرف اپنا گھر بھرنا یاد رہا ملک کی فکر بھول گئی۔ گزشتہ سال عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر ملک میںجمہوری حکومت قائم ہوئی۔ گمان غالب رہا کہ اب جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال ہوجائے گی۔ حکومتی دعوؤں اور وعدوں نے عوام میں نئی روح پھونک دی۔ کاروباری طبقہ بھی نواز حکومت کے اقدامات کو سراہنے لگا۔ دہشت گرد عناصر کا قلع قمع کیا جانا خوش آیند قرار پایا اور ضرب عضب کا تقریباً تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیر مقدم کیا لیکن ہمارے ملک کی ابتدا سے بد قسمتی رہی ہے کہ جب بھی کسی نظام میں بہتری آئی۔ انتشار پھیلانے والی قوتیں بھی سر اٹھانے لگیں لیکن کس کے کہنے پر۔ بالکل پاکستان میں ایک طاقت موجود ہے جسے ''یس سر'' کے علاوہ کچھ اور سننے کی عادت نہیں۔ میاں صاحب چوں کہ اس جانب توجہ نہ دے سکے حالانکہ بعض معاملات میں سنگین اور تلخ تجربہ رکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے آزادی، انقلاب مارچ سے دھرنوں تک کے سلسلے نے اور اب تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کے انکشافات نے تمام تانے بانیاسی جانب موڑ دیے ۔ ہاشمی صاحب ایک جمہوریت پسند سیاست دان ہیں۔ وہ ہواؤں کا رخ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ملکی موجودہ صورت حال ایک ایسی جگہ اور ایسے موڑ پر آچکی ہے کہ اب جمہوریت کو جمہوریت سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ کئی سیاسی جماعتیں وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو غیر جمہوری اور غیر آئینی قرار دے رہی ہیں لیکن تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے علاوہ ایک اور بڑی سیاسی قوت میاں صاحب سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے جو حیران کن ہے۔
میاں نواز شریف کو بیان بازی کی حد تک تو کرسی عزیز نہیں لیکن جس طرح کے اقدامات ہورہے ہیں وہ کہیں سے بھی اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ وہ بھی اس ''وہ'' کے تابع نہیں ہوں گے۔ ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے کئی ایسے باب کھول دیے جاتے ہیں جس سے سیاست دان ایک مظلوم و مجبور حیثیت کئی حقائق آشکار کردیتے ہیں لیکن اقتدار کے حصول کے بعد ان کا مزاج مظلوم کی بجائے ظالم جیسا ہوجاتا ہے۔ الیکشن مہم میں خادم اور کامیابی کے بعد مخدوم بن جاتے ہیں۔ اور اندرون خانہ جو کچھ بھی طے کرتے ہیں اس میں اولین ترجیح ذات ہوتی ہے اور قوم کو اعتماد میں اس وقت لیا جاتا ہے جب کوئی سانحہ ہونے جارہا ہوتا ہے یا ہوچکا ہوتا ہے۔
اب بھی صورت حال ایسی ہوچکی ہے کہ قوم کو بروقت آگاہی نہ کی جاسکی بلکہ پانی سر سے گزر چکا اور انا پرستی کو ٹھیس پہنچ چکی تو قوم کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے کے لیے چھوڑ دیا جارہا ہے۔ معاملات اب بھی ایسے طے ہورہے ہیں جس سے یقینی طور پر عوام آگاہ نہیں البتہ اندیشہ ہے کہ اچانک قوم کو بتایا جائے گا کہ غیر یقینی حالات کے باعث اور قوم کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے جمہوریت کو ری ڈیل ہونے دیا گیا اور اس کو ایک اور کچا پنکچر لگا دیا گیا جو وقت کا تقاضا تھا اور بہت جلد قوم کو خوش خبری دی جائے گی کہ ملک میں جمہوریت اپنی اصل حالت میں آب و تاب کے ساتھ بحال ہوگئی ہے لہٰذا اقوام کو مجبوراً کڑوی گولی کھانی ہوگی جو ناگزیر ہے۔
1965 کی جیتی ہوئی جنگ ٹیبل پر ہار گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام معاملات سنبھالے اور جمہوریت کا حقیقی حسن بحال کیا جس سے ملک میں جمہور کو اپنے ہونے کا احساس ہوا۔ ایک معمولی مزدور اور کسان سے لے کر تاجر تک ہر فرد نے اس کے ثمرات سمیٹے لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ کب اچھا لگا کہ ملک میں عوامی ترقی ہو اور غلام آزادانہ زندگی گزاریں۔ پس وجہ بناکر بھٹو صاحب کو زیر کیا گیا۔ جمہور کی آواز آمریت کے بوٹوں تلے دب گئی اور جمہوریت دم توڑ گئی۔ ضیا الحق نے اپنے آخری برسوں میں غیر جماعتی انتخابات کرواکر جمہوریت کو زندگی دینے کی کوشش کی تاکہ ان کا نام اچھے الفاظ میں رقم ہو لیکن یہ بھی ایک کچا اور ناپائیدار پنکچر ہی ثابت ہوا۔
بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دو دو جمہوری ادوار بھی غلامی کی زنجیریں نہ توڑ سکے اور اسٹیبلشمنٹ کی بھینٹ چڑھے۔ مشرف نے نواز حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے وہی پرانا راگ الاپا کہ ملک کی سالمیت، اقتصادیات سمیت جمہوریت خطرات سے دوچار ہے وہ ایسا نظام وضع کریں گے جس سے ملک میں استحکام آئے گا۔ ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی اور جمہوریت کی ایسی داغ بیل ڈالی جائے گی کہ پھر اسے کسی طرح سے کوئی بھی خطرہ یا خدشہ لاحق ہے نہ ہوگا۔
ابتدا میں ملک کے چیف ایگزیکٹو رہے، پھر صدر بنے، ایک سیاسی پارٹی کے خالق بنے اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا، ان کے دور میں دو جمہوری حکومتیں گزر گئیں۔ طالبان ایک طاقت بن کر ابھرے، خودکش حملوں نے وہ نقصانات دیے کہ ملک کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی۔ کاروبار کو رگڑا لگ گیا۔ معیشت بدحال ہوئی ۔ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کی جانب کیا رخ کرتے مقامی سرمایہ کار ملک چھوڑنے کو ترجیح دینے لگے۔ یعنی نقصان در نقصان، ہر ادارہ بنیادی طور پر کھوکھلا اور کرپٹ ہوگیا۔
ہر کسی کو صرف اپنا گھر بھرنا یاد رہا ملک کی فکر بھول گئی۔ گزشتہ سال عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر ملک میںجمہوری حکومت قائم ہوئی۔ گمان غالب رہا کہ اب جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال ہوجائے گی۔ حکومتی دعوؤں اور وعدوں نے عوام میں نئی روح پھونک دی۔ کاروباری طبقہ بھی نواز حکومت کے اقدامات کو سراہنے لگا۔ دہشت گرد عناصر کا قلع قمع کیا جانا خوش آیند قرار پایا اور ضرب عضب کا تقریباً تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے خیر مقدم کیا لیکن ہمارے ملک کی ابتدا سے بد قسمتی رہی ہے کہ جب بھی کسی نظام میں بہتری آئی۔ انتشار پھیلانے والی قوتیں بھی سر اٹھانے لگیں لیکن کس کے کہنے پر۔ بالکل پاکستان میں ایک طاقت موجود ہے جسے ''یس سر'' کے علاوہ کچھ اور سننے کی عادت نہیں۔ میاں صاحب چوں کہ اس جانب توجہ نہ دے سکے حالانکہ بعض معاملات میں سنگین اور تلخ تجربہ رکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے آزادی، انقلاب مارچ سے دھرنوں تک کے سلسلے نے اور اب تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کے انکشافات نے تمام تانے بانیاسی جانب موڑ دیے ۔ ہاشمی صاحب ایک جمہوریت پسند سیاست دان ہیں۔ وہ ہواؤں کا رخ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ملکی موجودہ صورت حال ایک ایسی جگہ اور ایسے موڑ پر آچکی ہے کہ اب جمہوریت کو جمہوریت سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ کئی سیاسی جماعتیں وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو غیر جمہوری اور غیر آئینی قرار دے رہی ہیں لیکن تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے علاوہ ایک اور بڑی سیاسی قوت میاں صاحب سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے جو حیران کن ہے۔
میاں نواز شریف کو بیان بازی کی حد تک تو کرسی عزیز نہیں لیکن جس طرح کے اقدامات ہورہے ہیں وہ کہیں سے بھی اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ وہ بھی اس ''وہ'' کے تابع نہیں ہوں گے۔ ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے کئی ایسے باب کھول دیے جاتے ہیں جس سے سیاست دان ایک مظلوم و مجبور حیثیت کئی حقائق آشکار کردیتے ہیں لیکن اقتدار کے حصول کے بعد ان کا مزاج مظلوم کی بجائے ظالم جیسا ہوجاتا ہے۔ الیکشن مہم میں خادم اور کامیابی کے بعد مخدوم بن جاتے ہیں۔ اور اندرون خانہ جو کچھ بھی طے کرتے ہیں اس میں اولین ترجیح ذات ہوتی ہے اور قوم کو اعتماد میں اس وقت لیا جاتا ہے جب کوئی سانحہ ہونے جارہا ہوتا ہے یا ہوچکا ہوتا ہے۔
اب بھی صورت حال ایسی ہوچکی ہے کہ قوم کو بروقت آگاہی نہ کی جاسکی بلکہ پانی سر سے گزر چکا اور انا پرستی کو ٹھیس پہنچ چکی تو قوم کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے کے لیے چھوڑ دیا جارہا ہے۔ معاملات اب بھی ایسے طے ہورہے ہیں جس سے یقینی طور پر عوام آگاہ نہیں البتہ اندیشہ ہے کہ اچانک قوم کو بتایا جائے گا کہ غیر یقینی حالات کے باعث اور قوم کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے جمہوریت کو ری ڈیل ہونے دیا گیا اور اس کو ایک اور کچا پنکچر لگا دیا گیا جو وقت کا تقاضا تھا اور بہت جلد قوم کو خوش خبری دی جائے گی کہ ملک میں جمہوریت اپنی اصل حالت میں آب و تاب کے ساتھ بحال ہوگئی ہے لہٰذا اقوام کو مجبوراً کڑوی گولی کھانی ہوگی جو ناگزیر ہے۔