پاکستان ایک نظر میں میرا دکھ
سیاستدانوں کا کیا جاتا ہے؟ یہ نقصان ان کا نہیں یہ نقصان تو ہمارا ہے۔اس ملک کا، ایک عام آدمی کا۔
مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ احتجاج کتنے دن مزید جاری رہے گا،میری دلچسپی اس بات میں بھی نہیں کہ ان دھرنوں کے بعد حکومت جاتی بھی ہے یا نہیں؟میں یہ بھی نہیں جانتاکہ''اسٹیک ہولڈرز''کی دلچسپیاں کہاں ہیں؟میرا اس بات سے بھی کوئی تعلق نہیں آیا کہ ''نیا پاکستان'' اس سال بن بھی پائے گا کے نہیں؟میرا دکھ تو کچھ اور ہے۔ میرا غم تو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں گرنے والی لاشیں ہیں،میرا دکھ توان شدید بارشوں کی وجہ سے اپنی سانسیں کھو دینے والے لوگ ہیں۔ میں ایک عام آدمی ہوں مجھے صرف ''عامیوں ''کے دکھ کا علم ہے۔میرا نوحہ تو انھی لوگوں کے ارد گرد گھومتا ہے۔
نواز شریف ،آصف زرداری، عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری کیا کھاتے ہیں ،کیا پیتے ہیں،کن ''محلوں''،''کنٹینروں'' میں راتیں گزارتے ہیں۔میں یہ سب نہیں جانتا۔جانتا تو بس اتنا کہ کہ روز سینکڑوں لوگ میرے دیس میں سوکھی روٹی کو ترس جاتے ہیں جب کہ اسی دیس کے حکمرانوں کے دستر خوان ستر قسم کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں۔میرا غم یہ نہیں کہ تین ہفتوں میں قائدین گرمی،سردی ، بارش، آندھی، طوفان میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔مجھے یاد آتے ہیں تو بس وہاں بیٹھے بے بس،لاچار،بے سہارا بچے،بچیاں میرے اپنے لوگ جی ہاں میرے اپنے، میرے جیسے عامی لوگ وہ کیسے ان موسموں سے لڑ رہے ہیں ۔مجھے نظر آتے ہیں تو صرف وہ دس لاکھ لوگ جو اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو چکے ہیں۔
مگر بد قسمت قوم کے خوش قسمت حکمران اپنی اناؤں کی جنگیں لڑ رہے ہیں،ان سب کی عزتیں ہیں، اسٹیٹس ہیں،اناہے،عزت نہیں ہے تو اس لٹی پٹی عوام کی۔ سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے کے لیے عوام اور ان لاٹھیوں کے ثمرات سے محظوظ ہونے کے لیے یہ سیاستدان،سڑکوں پر لاچار بے بس نہتے گولیاں کھانے کے لئے بس عوام۔میرا دکھ تو یہ ہے مرتے ہیں تو میرے جیسے عام لوگ،پستے ہیں تو میرے جیسے عام لوگ،جیلیں بھری جاتیں ہیں تو پھر کام آتے ہیں میرے جیسے عام لوگ،روندے جاتے ہیں تو پھر میرے جیسے عام لوگ۔ان رہنماؤں کے بچے انگلش میڈیم ا سکولوں میں پڑھتے ہیں،بیرون ملک سیر سپاٹے کرتے ہیں لیکن مرنے،ڈنڈے کھانے اور دھرنوں کے لیے رہ گیا غریب کا بچہ۔آخر کیوں ؟
جمہوریت یہ نہیں جس کے مزے سیاستدان اور ان کے اقرباء اٹھا رہے ہیں۔جناب والا جمہوریت کا مطلب ہے
دوسری جانب ان دھرنوں کی وجہ سے ڈالرکی قدر بڑھنے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں میں 350 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور معیشت کو 500 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ چینی صدر کا دورہ منسوخ ہو چکا ہے،لوگ پاکستان آنے گھبرا رہے ہیں۔پہلے اس وطن کے مسائل کم ہیں جو آپ عوام کو بے وقوف بنا کر سڑکوں پر لے آئے ہیں۔
سیاستدانوں کا کیا جاتا ہے؟ یہ نقصان ان کا نہیں یہ نقصان تو ہمارا ہے۔اس ملک کا،عام آدمی کا،گزشتہ ستائیس کے دوران جڑواں شہروں میں دھرنوں کے باعث جو صورت حال بنی ہوئی ہے اْس سے ثابت ہوتاہے کہ ہمارے سیاسی رہنما قومی مسائل کے حل کے لئے بصیرت، تدبر اور تاریخ کا تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں سے محروم اور ملک کے اردگرد کے حالات سے لاعلم دکھائی دیتے ہیں۔ان بے غرض سیاستدانوں کی ترجیحات اور اہداف کچھ اورہیں۔ یہ عوام کے دکھ سے لاتعلق نظرآتے ہیں۔ان کی لڑائیوں میں نقصان کس کا ہوتا ہے عام لوگوں کا۔ شاعر کہتا ہے
کاش یہ عوام کا دکھ سمجھ سکیں،کاش کہ کوئی آگے بڑھے ان حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے۔کاش کہ یہ خلق خدا کی آواز سن سکیں۔اس امید کے ساتھ یہ الفاظ لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی عوام کا دکھ سمجھ سکے ان عامیوں کا دکھ ایک عام آدمی ہی سمجھ سکتا ہے۔ کاش کوئی میرا دکھ سمجھ سکتا!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
نواز شریف ،آصف زرداری، عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری کیا کھاتے ہیں ،کیا پیتے ہیں،کن ''محلوں''،''کنٹینروں'' میں راتیں گزارتے ہیں۔میں یہ سب نہیں جانتا۔جانتا تو بس اتنا کہ کہ روز سینکڑوں لوگ میرے دیس میں سوکھی روٹی کو ترس جاتے ہیں جب کہ اسی دیس کے حکمرانوں کے دستر خوان ستر قسم کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں۔میرا غم یہ نہیں کہ تین ہفتوں میں قائدین گرمی،سردی ، بارش، آندھی، طوفان میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔مجھے یاد آتے ہیں تو بس وہاں بیٹھے بے بس،لاچار،بے سہارا بچے،بچیاں میرے اپنے لوگ جی ہاں میرے اپنے، میرے جیسے عامی لوگ وہ کیسے ان موسموں سے لڑ رہے ہیں ۔مجھے نظر آتے ہیں تو صرف وہ دس لاکھ لوگ جو اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو چکے ہیں۔
مگر بد قسمت قوم کے خوش قسمت حکمران اپنی اناؤں کی جنگیں لڑ رہے ہیں،ان سب کی عزتیں ہیں، اسٹیٹس ہیں،اناہے،عزت نہیں ہے تو اس لٹی پٹی عوام کی۔ سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے کے لیے عوام اور ان لاٹھیوں کے ثمرات سے محظوظ ہونے کے لیے یہ سیاستدان،سڑکوں پر لاچار بے بس نہتے گولیاں کھانے کے لئے بس عوام۔میرا دکھ تو یہ ہے مرتے ہیں تو میرے جیسے عام لوگ،پستے ہیں تو میرے جیسے عام لوگ،جیلیں بھری جاتیں ہیں تو پھر کام آتے ہیں میرے جیسے عام لوگ،روندے جاتے ہیں تو پھر میرے جیسے عام لوگ۔ان رہنماؤں کے بچے انگلش میڈیم ا سکولوں میں پڑھتے ہیں،بیرون ملک سیر سپاٹے کرتے ہیں لیکن مرنے،ڈنڈے کھانے اور دھرنوں کے لیے رہ گیا غریب کا بچہ۔آخر کیوں ؟
جمہوریت یہ نہیں جس کے مزے سیاستدان اور ان کے اقرباء اٹھا رہے ہیں۔جناب والا جمہوریت کا مطلب ہے
Government of the people, by the people, for the people
دوسری جانب ان دھرنوں کی وجہ سے ڈالرکی قدر بڑھنے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں میں 350 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور معیشت کو 500 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ چینی صدر کا دورہ منسوخ ہو چکا ہے،لوگ پاکستان آنے گھبرا رہے ہیں۔پہلے اس وطن کے مسائل کم ہیں جو آپ عوام کو بے وقوف بنا کر سڑکوں پر لے آئے ہیں۔
سیاستدانوں کا کیا جاتا ہے؟ یہ نقصان ان کا نہیں یہ نقصان تو ہمارا ہے۔اس ملک کا،عام آدمی کا،گزشتہ ستائیس کے دوران جڑواں شہروں میں دھرنوں کے باعث جو صورت حال بنی ہوئی ہے اْس سے ثابت ہوتاہے کہ ہمارے سیاسی رہنما قومی مسائل کے حل کے لئے بصیرت، تدبر اور تاریخ کا تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں سے محروم اور ملک کے اردگرد کے حالات سے لاعلم دکھائی دیتے ہیں۔ان بے غرض سیاستدانوں کی ترجیحات اور اہداف کچھ اورہیں۔ یہ عوام کے دکھ سے لاتعلق نظرآتے ہیں۔ان کی لڑائیوں میں نقصان کس کا ہوتا ہے عام لوگوں کا۔ شاعر کہتا ہے
آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے
آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
کاش یہ عوام کا دکھ سمجھ سکیں،کاش کہ کوئی آگے بڑھے ان حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے۔کاش کہ یہ خلق خدا کی آواز سن سکیں۔اس امید کے ساتھ یہ الفاظ لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی عوام کا دکھ سمجھ سکے ان عامیوں کا دکھ ایک عام آدمی ہی سمجھ سکتا ہے۔ کاش کوئی میرا دکھ سمجھ سکتا!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔