کوئی چارہ گر نہیں

ادارے کی جانب سے 190 ممالک سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ..

advo786@yahoo.com

دنیا بھر میں کمزور انسانوں اور طبقات کے خلاف طاقتور انسانوں اور طبقات کی طرف سے ظلم و جبر اور سفاکیت کا سلسلہ ازلی و ابدی قسم کا ہے مختلف ادوار، ممالک اور طبقات میں اس کی نوعیت اور رفتار یا تناسب مختلف ہوتا ہے وقتی طور پر ان میں کمی، توقف یا شدت رونما ہوتی رہتی ہے لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو پاتا کیونکہ اس سلسلے کو بند یا ختم کرنے کی صلاحیت بھی طاقتور طبقات یا حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو اپنی خودغرضی، نفس پرستی، عصبیت پسندی، حرص و ہوس، جذبہ ظلم و انتقام اور منافقت یا مصالحت پسندی کی بنا پر اس سلسلے کو روکنے کی بجائے جاری رکھنے کے عمل میں شریک رہتے ہیں۔

حالانکہ آج کی جدید سائنسی اور مہذب دنیا میں ایسے بین الاقوامی ادارے معرض وجود میں آ چکے ہیں جن کا کام ایسے معاملات پر نظر رکھنا ان کا تدارک کرنا اور ان کے لیے سفارشات پیش کرنا ہے ان اداروں کو قانونی حیثیت اور اختیارات بھی حاصل ہیں دنیا کے ممالک اور حکومتیں ان کی سفارشات پر عملدرآمد کرنے کی پابند اور جواب دہ بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں دنیا بھر میں بچوں کے خلاف ہونے والے روح فرسا تشدد کے انکشافات کیے گئے ہیں۔

ادارے کی جانب سے 190 ممالک سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 120 ملین لڑکیوں میں سے ہر دسویں بچی کو 20 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل جنسی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 2012ء میں 10 سے 19 سال تک کے 95 ہزار بچوں کو ہلاک کیا گیا زیادہ تر واقعات لاطینی امریکی ممالک میں پیش آئے۔ یونیسیف کے نمایندے نے ان حقائق کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی حکومت یا والدین ایسا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے بچوں کے ساتھ تشدد کو معمولی بات سمجھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ رپورٹ میں بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لیے 6 نکاتی جامع حکمت عملی بھی تجویز کی گئی ہے۔

پاکستان میں بھی بچوں، خواتین اور کمزور افراد اور طبقات کے ساتھ ظلم و بربریت اور سفاکیت کا کھیل ایک روایت بن چکا ہے۔ ایک اسلامی، جمہوری اور ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے ان کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہاں پر انسانیت پر مظالم کی بعض سفاکانہ روایتیں ایسی ہیں جنھیں معاشرت اور رسوم و رواج یا ثقافت کا نام دے دیا گیا ہے جیسے کاروکاری، ونی، سوارہ اور قرآن سے شادی وغیرہ جیسی رسومات جن کے تدارک یا مذمت کرنے کی بجائے وہاں کے ارباب اختیار و اقتدار ان رسومات کے پاسبان اور مبلغ بنے ہوئے ہیں جن کی جانب سے اقتدار کے ایوانوں میں ان ظالمانہ کارروائیوں کی حمایت و وکالت کی جاتی ہے تو دیگر اراکین پارلیمنٹ اور این جی اوز کی جانب سے کوئی ردعمل اور مزاحمت نظر نہیں آتی ہے۔

ایک قومی سطح کا لیڈر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس نے پہلا قتل اپنے ملازم کا کیا تھا جس کی شکل اسے پسند نہیں تھی۔ کھیت سے پھل توڑنے پر گولی مار کر بچے کی زندگی ختم کر دی جاتی ہے تو کبھی کھیت میں داخل ہونے والے بچے کے دونوں بازوؤں کو تن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں شاہ رخ، کامران لاشاری اور سرفراز جیسے بہیمانہ قتل کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ جن میں سے بعض واقعات کے پیچھے کبھی کبھار انسانی حقوق کی علم بردار شخصیات اور انجمنیں بھی کھڑی ہو جاتی ہیں اور جن کے اپنے مقاصد و عزائم ہوتے ہیں ورنہ عام واقعات کی اکثریت منظر عام پر ہی نہیں آتی جو واقعات منظر عام پر آ جاتے ہیں عوام طور پر چند دنوں کے لیے میڈیا میں خبروں و بحث کا موضوع بن کر ہمیشہ کے لیے دفن اور عوام الناس کے ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں جن پر ذمے دار حکومتی ادارے کوئی کارروائی عمل میں لاتے ہیں نہ میڈیا اور این جی اوز ان کو منطقی انجام تک پہنچانے اور نہ فیڈ بیک حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

گزشتہ دنوں جنسی درندگی کا نشانہ بننے اور انصاف نہ ملنے پر خودسوزی کرنے والی لڑکی کی ہلاکت پر کوئی خاص حکومتی اور عوامی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس مظلوم لڑکی کی ماں اور بھائی کو علامہ طاہر القادری نے جلسے میں پوری دنیا کے سامنے پیش کر کے جمہوریت پر خوب لعنت و ملامت بھیجی کاش یہ مسیحا اس مظلوم خاندان کی دادرسی کے لیے حکومت کو ایف آئی آر درج کرنے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوئی ڈیڈ لائن دے دیتے اس کے خاندان کی قانونی و مالی امداد کے لیے کوئی اعلان کرتے جس سے اس خاندان کے رنج و غم اور مصائب میں کچھ کمی آتی۔ قادری صاحب اس سے قبل شیخ رشید کی بیوی ہونے کی دعویدار عورت کو بھی اسی طرح منظر عام پر لائے تھے اور دعویٰ کیا تھا جب تک اس مظلوم عورت کو اس کا حق نہیں دلا دوں گا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ آج شیخ رشید تو ان کے پہلو بہ پہلو ہم نوالہ و ہم پیالہ نظر آتے ہیں اس مظلوم عورت کا کسی کو علم نہیں ہے۔


11 ستمبر 2012ء کو بلدیہ کراچی کی ایک فیکٹری میں آتشزدگی کے ایک واقعے میں ڈھائی سو کے قریب مزدور زندہ جل گئے تھے کالم کی اشاعت تک ان کی دوسری برسی منائی جا رہی ہو گی۔ کئی دنوں تک جلتی فیکٹری اور ملبے تلے دبی لاشوں کے وقت چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی سیاسی، سماجی، مذہبی اور انسانی حقوق کی علمبردار شخصیات اور جماعتوں اور انجمنوں نے دورے کیے، بیانات داغے، فوٹو سیشن کیے، ٹاک شوز، بحث و مباحثے ہوئے پھر شہرت، نیک نامی اور ہمدردیاں سمیٹنے والے ''فقہ تصویریہ'' کے یہ لوگ ایسے غائب اور لاتعلق ہوئے کہ فیکٹری کی راکھ میں دبی چنگاریوں میں دبے اپنے پیاروں کے لاشے ڈھونڈنے والے غریب و بے سہارا لواحقین ڈی این اے اور لاشوں کے حصول کے لیے سرکاری اسپتالوں اور اداروں کے چکر کاٹتے رہے لاشوں کی حوالگی کے لیے بین کرتے رہے اور آج تک کر رہے ہیں۔

17 میتوں کو بغیر ڈی این اے کے دفنا دیا گیا ہے نہ کوئی معاوضہ نہ کوئی تسلی بخش جواب نہ داد رسی نہ انصاف۔ سانحہ لاہور کے مظاہرین کی ہلاکتوں پر وزیر اعظم کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے مسیحا اس وقت کہاں تھے جب رزق حلال کمانے والے سیکڑوں مزدوروں کے قتل کی FIR سے وزیر اعظم قتل کی دفعہ ختم کروا رہا تھا دنیا کے دیگر ممالک میں اس قسم کے سانحات پر پوری قوم ایک ہو جاتی ہے۔ سیاستدان، سماجی رہنما، انسانی حقوق کے ادارے، فنکار، گلوکار، اداکار، شاعر، ادیب، اور سرمایہ دار اپنا کردار ادا کرتے ہیں ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں، انھیں یاد رکھتے ہیں ان کی برسی پر گلدستوں، پھولوں اور کارڈوں کے انبار لگا دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا صرف سیاسی مقاصد اور سیاسی شخصیات کے لیے سیاسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔

نفس پرستی اور خود غرضی کے ماحول میں گلوکار جواد احمد اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کو خراج تحسین پیش کرنا پڑے گا جنھوں نے لواحقین کی دلجوئی کی حادثے کا شکار ہونے والوں کی آرٹس کونسل میں تصویری نمائش کی خصوصی نغمے پیش کیے اور ہر طرح کی کوششیں کیں کہ حکومتی ارباب اختیار کو ان کی ذمے داریاں نبھانے پر آمادہ کیا جائے اور اس سلسلے میں رائے عامہ کو بھی ہموار کیا جائے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی لاشوں کی تلاش، تدفین اور معاوضوں کی ادائیگی کا مرحلہ طے نہیں پاسکا ہے۔

متاثرین ایسوسی ایشن سانحہ بلدیہ فیکٹری اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے راہنماؤں نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی دوسری برسی آ گئی ہے لیکن حکومت سندھ نے اب تک نہ شہدا کے لواحقین کو سوشل سیکیورٹی کارڈ اور ای او بی آئی کارڈ جاری کیے ہیں لواحقین کے لیے 3 لاکھ روپے دینے کے اعلان پر بھی عمل نہیں کیا گیا حکومت کی غفلت کی وجہ سے جرمن اور اٹلی کی کمپنیاں بھی اپنے وعدوں سے پھر گئی ہیں ان کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات دائر کیے جائیں گے انھوں نے بتایا کہ مزدور اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے مفادات کی خاطر لواحقین کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ 90 فیصد فیکٹریاں غیر رجسٹرڈ ہیں۔ فیکٹریوں میں ظلم و استحصال کی شکایات پر یونین کے کارکنوں پر تشدد کر کے نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے لیکن صوبائی وزرا محض بیانات اور جھوٹی تسلیاں دینے پر اکتفا کر رہے ہیں اس لیے دوسری برسی کی تقریب میں حکومتی وزیروں اور مشیروں کو مدعو نہیں کیا جائے گا۔

نفس پرستی، مفاد پرستی، خود غرضی، بے حسی اور بے اصولی کے کرپشن زدہ ماحول میں انسانی اقدار ہوتی ہیں نہ قانون کی موثریت ہوتی ہے۔ قوم کسی معجزے یا مسیحا کی منتظر رہتی ہے اسی لیے دھوکہ پر دھوکہ اور فریب کھاتی ہے اور مزید نقصانات برداشت کرتی ہے۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے درد کی دوا کرے کوئی
Load Next Story