پولیس اور رینجرز قتل کی وارداتوں پر قابو پانے میں ناکام
قتل کی واردات کے بعد متعلقہ علاقے کے ایس ایچ او کی معطلی معمول بن گئی، شہری سفاک قاتلوں کے رحم و کرم پر ہیں
ملک کے معاشی حب کراچی میں امن و امان کا نیا نسخہ دریافت کرلیا گیا ہے، قتل کی واردات کے بعد متعلقہ علاقے کے ایس ایچ او کی معطلی کو وطیرہ بنالیا گیا۔
عروس البلاد کراچی میں انسانوں کا قتل تو دہائیوں سے ایک معمول ہے لیکن قتل کی ان وارداتوں پر قابو پانے میں پولیس و رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے بری طرح ناکام ہوگئے ہیں ، کراچی پولیس نے ایسی وارداتوں پر قابو پانے اور اپنا بھرپور ردعمل دکھانے کا ایک نیا طریقہ شروع کردیا ہے جس علاقے میں بھی کسی معروف شخصیت کا قتل ہوتا ہے تو کراچی پولیس کے سربراہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کرکے اپنے آپ کو ذمے داریوں سے عہدہ برآں قرار دے دیتے ہیں، حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ایس ایچ او کو معطل اور اس کی ایک درجہ تنزلی کرکے گویا انھوں نے واردات کا کفارہ ادا کردیا۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدانخواستہ علاقہ ایس ایچ او ہی قتل کی واردات میں ملوث ہو جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مذکورہ ایس ایچ او کو تفتیش کے لیے ایک ٹائم فریم دیں اور اس ٹائم فریم میں ایس ایچ او پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ قاتلوں کی گرفتاری اور قتل کے محرکات سمیت پورا کیس حل کرے، عہدے سے معطلی تو ایس ایچ او کو نہ صرف یہ کہ چند روز کے لیے آرام پر بھیج دیتی ہے بلکہ تفتیش سمیت دیگر امور سے بھی اس کی ذمے داری ختم کردیتی ہے، اس طرز عمل سے قتل کی وارداتوں کی تفتیش انتہائی ناقص ہوتی جارہی ہے جس کا براہ راست فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے، پولیس قتل کی وارداتوں میں ملوث گروہوں کے نیٹ ورک کو توڑنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے، پولیس کے اعلیٰ حکام محض خانہ پری کرکے شہریوں کو ایک مرتبہ پھر سفاک قاتلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
عروس البلاد کراچی میں انسانوں کا قتل تو دہائیوں سے ایک معمول ہے لیکن قتل کی ان وارداتوں پر قابو پانے میں پولیس و رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے بری طرح ناکام ہوگئے ہیں ، کراچی پولیس نے ایسی وارداتوں پر قابو پانے اور اپنا بھرپور ردعمل دکھانے کا ایک نیا طریقہ شروع کردیا ہے جس علاقے میں بھی کسی معروف شخصیت کا قتل ہوتا ہے تو کراچی پولیس کے سربراہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کرکے اپنے آپ کو ذمے داریوں سے عہدہ برآں قرار دے دیتے ہیں، حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ایس ایچ او کو معطل اور اس کی ایک درجہ تنزلی کرکے گویا انھوں نے واردات کا کفارہ ادا کردیا۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدانخواستہ علاقہ ایس ایچ او ہی قتل کی واردات میں ملوث ہو جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مذکورہ ایس ایچ او کو تفتیش کے لیے ایک ٹائم فریم دیں اور اس ٹائم فریم میں ایس ایچ او پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ قاتلوں کی گرفتاری اور قتل کے محرکات سمیت پورا کیس حل کرے، عہدے سے معطلی تو ایس ایچ او کو نہ صرف یہ کہ چند روز کے لیے آرام پر بھیج دیتی ہے بلکہ تفتیش سمیت دیگر امور سے بھی اس کی ذمے داری ختم کردیتی ہے، اس طرز عمل سے قتل کی وارداتوں کی تفتیش انتہائی ناقص ہوتی جارہی ہے جس کا براہ راست فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے، پولیس قتل کی وارداتوں میں ملوث گروہوں کے نیٹ ورک کو توڑنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے، پولیس کے اعلیٰ حکام محض خانہ پری کرکے شہریوں کو ایک مرتبہ پھر سفاک قاتلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔