کھیل کود تو مان نہ مان میں تیرا مہمان
بلآخربھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے بے حد اسرار پرہری جھنڈی دکھا دی ہے تو بس گزارش ہے کہ اچھا کھیل بھی میچ کیجیے گا۔
اور بلآخر بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے بے حد اسرار پر ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ جہاں 13 ستمبر سے کوالیفائرز میچز ہونگے جس میں پاکستان کی لاہور لائینز کو چیمپئنز لیگ میں شامل ہونے کےلیے بھارت کی ممبئی انڈئینز، سری لنکا کی ساودرن ایکسپریس اور نیو زی لینڈ کی ناردرن نائیٹز سے نبردآزما ہونا پڑے گا اور کامیابی کی صورت میں ہی وہ باقاعدہ ایونٹ کھیلنے کی اہل ہوگی۔
9 ستمبر کو پاکستان سے روانہ ہونے والی لاہورکے اسکواڈ میں چھ سینئرپاکستانی کھلاڑی بھی موجود ہے۔ویسے تو پاکستانی کھلاڑی بھارت کے خلاف ہر میچ میں زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں بالکل یہی حال پاکستانی شایقین کا بھی ہوتا ہے۔اگر پاکستان کرکٹ کے میدان میں کسی دوسری ٹیم سے میچ ہارتی ہے تو پاکستانی شایقین کو اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا انڈیا سے ہارنے پر ہوتا ہے۔ تو اگر پاکستان چیمپئن لیگ میں حصہ لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستانی شاہینوں سے گزارش ہے کہ وہ اسی پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس چیمپئن لیگ کو اپنے نام کروا کے عوام کی امیدیں پوری کر دیں۔ لاہور لائنز پاکستان کی جانب سے تیسری ٹیم ہے جو بھارت میں جاکر پاکستان کی نمائندی کریگی۔ اِس سے پہلے 2008 میں ہونے والی چیمپئنز لیگ کے پہلے ایڈیشن میں پاکستان کی جانب سے سیالکوٹ اسٹالینز کو شرکت کرنی تھی مگر اُس سے 2 مہینے پہلے ممبئی حملے ہوگئے جس کے بعد یہ ایونٹ موخر کردیا گیا اور پھر 2012 تک پاکستان کی کسی ٹیم کو شامل نہیں کیا گیا۔ پھر 2012 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے ایونٹ میں سیالکوٹ اسٹالئنز نے شرکت کی جس کے بعد فیصل آباد وولفز بھی 2013 میں شرکت کے لیے فتح کا خواب لیے بھارت گئی تھی مگر دونوں ٹیمیں کوالیفائینگ راونڈ میں شکست کھاکر گھر لوٹ آئی تھیں۔ اِسی کے ساتھ اپنے ہر دلعزیز کھلاڑیوں سے ایک اور گزارش بھی کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ وہاں صرف کرکٹ کھیلیے گا ۔۔۔۔ کیونکہ وہاں جوئے کا بھی پورا انتظام ہے اور رنگینوں کا انتظام بھی موجود ہی رہے گا مگر خود کو کرکٹ پر فوکس رکھیے گا اِس کے 2 فائدے ہونگے پہلا یہ کہ اِس طرح میچ جیتنے میں آسانی ہوگی اور دوسری یہ کہ ورلڈ کپ قریب ہے اور ہم اب کسی کھلاڑی کا نقصان برداشت نہیں کرسکتے۔
پاکستان کے چھ سینئر کھلاڑی اس چیمپئن لیگ میں پاکستان کی نمائندگی کریں گےجن میں محمد حفیظ ،وہاب ریاض، عمر اکمل، احمد شہزاد اور کامران اکمل شامل ہیں اور یہ تو پھر چھ ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ جہاں ہمارا کوئی ایک بھی کھلاڑی موجود ہوتا ہے وہ اپنی موجودگی کا حساس ضرور دلاتا ہے۔ چیمپئن لیگ کے لیے ٹیم کی ذمہ داری کا بوجھ محمد حفیظ کے کاندہوں پر ڈالا گیا ہے اور کپتان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بار ہماری ٹیم کوالیفائینگ راونڈ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہم یہ ٹائٹل پاکستان کے نام کرکے رہیں گے اور بحثیت پاکستانی امید ہے پروفیسر صاحب کا دعویٰ درست ثابت ہوگا۔
اگرچہ ملکی حالات اور رونما ہونے والے اکثر و بیشتر واقعات کے سبب اِس ملک میں ہاکی، اسکوائش، کبڈی سمیت تمام ہی کھیل مسلسل پستی کی جانب جارہے ہیں مگر کرکٹ اب بھی وہ کھیل ہے جس کو ملک میں موجود تمام تر مسائل نقصان پہنچانے میں اب تک ناکام نظر آتے ہیں۔ بلکہ شاید یہی وہ کھیل ہے جو اِس پریشانیوں میں گھری قوم کو کسی نہ کسی حد تک متحد بھی رکھتا ہےاور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔ مگر یہ خوشی اُسی وقت تک ہوتی ہے کہ جب تک کرکٹ ٹیم فتح کو سمیٹ رہی ہوتی ہے وگرنہ دوسری صورت میں تنقید بھی ہوتی ہے ، بُرا بھلا بھی کہا جاتا ہے مگر یہ غصہ محض اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک نئی فتح کا مزہ نہ چکھ لیا جائے اور جیسے ہی اگلی فتح نصیب ہوتی ہے تو اِس کا جوش و جذبہ دوبارہ سے بحال ہوجاتا ہے اور یہ اُنہیں کھلاڑیوں کو سر پر بٹھا لیتی ہے جن کو کچھ دن قبل بُرا بھلا کہہ رہی تھی۔
اِس پوری بات کا مقصد صرف یہ تھا کہ چونکہ بھارت کیجانب سے بار بار منع کرنے کے باوجود ہم درخواست کرتے رہے اور اِنہیں درخواست کے بعد ہمیں وہاں کھیلنے کی اجازت ملی ہے تو خدارا خالی ہاتھ واپس مت آئیے گا ۔۔۔۔ بھارت جائیں اور اپنے ایسے نقوش چھوڑ کر آئیں کہ اگلی بار آپ کو بھارت سے درخواست کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ بھارت خود آپ کے در پر آپ کو دعوت دینے آئے اور میرا نہیں خیال کہ ہمارے لیے اِس سے بڑی کوئی فتح ہوسکتی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
9 ستمبر کو پاکستان سے روانہ ہونے والی لاہورکے اسکواڈ میں چھ سینئرپاکستانی کھلاڑی بھی موجود ہے۔ویسے تو پاکستانی کھلاڑی بھارت کے خلاف ہر میچ میں زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں بالکل یہی حال پاکستانی شایقین کا بھی ہوتا ہے۔اگر پاکستان کرکٹ کے میدان میں کسی دوسری ٹیم سے میچ ہارتی ہے تو پاکستانی شایقین کو اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا انڈیا سے ہارنے پر ہوتا ہے۔ تو اگر پاکستان چیمپئن لیگ میں حصہ لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستانی شاہینوں سے گزارش ہے کہ وہ اسی پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس چیمپئن لیگ کو اپنے نام کروا کے عوام کی امیدیں پوری کر دیں۔ لاہور لائنز پاکستان کی جانب سے تیسری ٹیم ہے جو بھارت میں جاکر پاکستان کی نمائندی کریگی۔ اِس سے پہلے 2008 میں ہونے والی چیمپئنز لیگ کے پہلے ایڈیشن میں پاکستان کی جانب سے سیالکوٹ اسٹالینز کو شرکت کرنی تھی مگر اُس سے 2 مہینے پہلے ممبئی حملے ہوگئے جس کے بعد یہ ایونٹ موخر کردیا گیا اور پھر 2012 تک پاکستان کی کسی ٹیم کو شامل نہیں کیا گیا۔ پھر 2012 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے ایونٹ میں سیالکوٹ اسٹالئنز نے شرکت کی جس کے بعد فیصل آباد وولفز بھی 2013 میں شرکت کے لیے فتح کا خواب لیے بھارت گئی تھی مگر دونوں ٹیمیں کوالیفائینگ راونڈ میں شکست کھاکر گھر لوٹ آئی تھیں۔ اِسی کے ساتھ اپنے ہر دلعزیز کھلاڑیوں سے ایک اور گزارش بھی کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ وہاں صرف کرکٹ کھیلیے گا ۔۔۔۔ کیونکہ وہاں جوئے کا بھی پورا انتظام ہے اور رنگینوں کا انتظام بھی موجود ہی رہے گا مگر خود کو کرکٹ پر فوکس رکھیے گا اِس کے 2 فائدے ہونگے پہلا یہ کہ اِس طرح میچ جیتنے میں آسانی ہوگی اور دوسری یہ کہ ورلڈ کپ قریب ہے اور ہم اب کسی کھلاڑی کا نقصان برداشت نہیں کرسکتے۔
پاکستان کے چھ سینئر کھلاڑی اس چیمپئن لیگ میں پاکستان کی نمائندگی کریں گےجن میں محمد حفیظ ،وہاب ریاض، عمر اکمل، احمد شہزاد اور کامران اکمل شامل ہیں اور یہ تو پھر چھ ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ جہاں ہمارا کوئی ایک بھی کھلاڑی موجود ہوتا ہے وہ اپنی موجودگی کا حساس ضرور دلاتا ہے۔ چیمپئن لیگ کے لیے ٹیم کی ذمہ داری کا بوجھ محمد حفیظ کے کاندہوں پر ڈالا گیا ہے اور کپتان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بار ہماری ٹیم کوالیفائینگ راونڈ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہم یہ ٹائٹل پاکستان کے نام کرکے رہیں گے اور بحثیت پاکستانی امید ہے پروفیسر صاحب کا دعویٰ درست ثابت ہوگا۔
اگرچہ ملکی حالات اور رونما ہونے والے اکثر و بیشتر واقعات کے سبب اِس ملک میں ہاکی، اسکوائش، کبڈی سمیت تمام ہی کھیل مسلسل پستی کی جانب جارہے ہیں مگر کرکٹ اب بھی وہ کھیل ہے جس کو ملک میں موجود تمام تر مسائل نقصان پہنچانے میں اب تک ناکام نظر آتے ہیں۔ بلکہ شاید یہی وہ کھیل ہے جو اِس پریشانیوں میں گھری قوم کو کسی نہ کسی حد تک متحد بھی رکھتا ہےاور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔ مگر یہ خوشی اُسی وقت تک ہوتی ہے کہ جب تک کرکٹ ٹیم فتح کو سمیٹ رہی ہوتی ہے وگرنہ دوسری صورت میں تنقید بھی ہوتی ہے ، بُرا بھلا بھی کہا جاتا ہے مگر یہ غصہ محض اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک نئی فتح کا مزہ نہ چکھ لیا جائے اور جیسے ہی اگلی فتح نصیب ہوتی ہے تو اِس کا جوش و جذبہ دوبارہ سے بحال ہوجاتا ہے اور یہ اُنہیں کھلاڑیوں کو سر پر بٹھا لیتی ہے جن کو کچھ دن قبل بُرا بھلا کہہ رہی تھی۔
اِس پوری بات کا مقصد صرف یہ تھا کہ چونکہ بھارت کیجانب سے بار بار منع کرنے کے باوجود ہم درخواست کرتے رہے اور اِنہیں درخواست کے بعد ہمیں وہاں کھیلنے کی اجازت ملی ہے تو خدارا خالی ہاتھ واپس مت آئیے گا ۔۔۔۔ بھارت جائیں اور اپنے ایسے نقوش چھوڑ کر آئیں کہ اگلی بار آپ کو بھارت سے درخواست کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ بھارت خود آپ کے در پر آپ کو دعوت دینے آئے اور میرا نہیں خیال کہ ہمارے لیے اِس سے بڑی کوئی فتح ہوسکتی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔