بات کچھ اِدھر اُدھر کی پکچر ابھی باقی ہے

نوے کی دہائی میں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو دوام بخشنے والے یہ ماسٹر پیس ڈرامے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

ایک طرف بھارت کے سرفہرست اداکار پاکستانی ڈراموں کے گن گارہے اور دوسری طرف ہمارے اداکار دنیا کی سب سے بہتر انڈسٹری کو چھوڑ کر ناکامی کا منہ دیکھنے بھارت کا رُخ کررہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

'جہاں تک پاکستانی ڈراموں کی بات ہے تو ہم اپنی فلموں تک کا موازنہ پاکستانی ڈراموں سے نہیں کر سکتے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ڈراموں میں موجود مواد اور پیغام کو بہتر بنائیں' - پاریش راول

'میرے چند پسندیدہ نوجوان اداکاروں میں سے ایک حمزہ علی عباسی بھی ہے میں نے ابھی اس کے ڈرامے پیارے افضل کی آخری قسط دیکھی وہ بہت اچھا کام کر رہا ہے ایسے ہی کام کرتے رہو بیٹا اللہ تمھیں نعمتوں سے سرفراز فرمائے' - نصیرالدین شاہ

'پاکستانی ڈرامے اپنی کہانی اور اسکرپٹ کی وجہ سے مجھے بہت متاثر کرتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ بھارتی ٹی وی پروڈیوسرز کو اِن سے سیکھنا چاہئے'- کاجول

ہم میں سے جولوگ نوے کی دہائی میں جوان ہوئے، وہ یہ تعریفی کلمات سن کر یقینا فخر محسوس کریں گے کیوں کہ ایسی تعریفیں ہم نے اب تک صرف 'الفا براوو چارلی' ،' دھواں' ،' ہوائیں'اور 'چاند گرہن' جیسے شاہکار ڈراموں کی ہی سنیں اور کی تھیں ۔۔ شاید آج کل کے بچوں کو ان ڈراموں کا نام بھی نہ پتہ ہو ۔لیکن نوے کی دہائی میں پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو ایک بار پھر دوام بخشنے والے یہ ماسٹر پیس ڈرامے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔۔

آج سے کچھ سال قبل جب ایکتا کپور کے 'ساس بھی بہو تھی' ،'کاویا انجلی' ،' کہیں تو ہو گا' [کشش اور سوجل والا ڈراما] اور آج کل بھی ' اک حسینہ تھی','تمھاری پکھی' جیسےڈراموں کا دور ہے ۔ اس صورتحال میں بھی بھارتی چینلز کی دلدادہ پاکستانی خواتین دوبارہ پاکستانی ڈراموں کی طرف راغب ہو رہی ہیں۔ اس نئے دورمیں نئے گلیمر اور شوبزنس کے اس نئے زاویے میں ایک سوال بہت کنفیوزنگ ہے ۔ جن پاکستانی ڈراموں کے معیاری ہونے کا اعتراف خود صف اول کے بھارتی اداکار کر رہے ہیں اس بھارتی انڈسٹری میں ہمارےاپنے اداکاروں میرا، وینا ،فواد افضل خان اورحمائمہ ملک کی موجودگی کس بات کی غمازی ہے ؟؟ اگر یہ بات آج سے تین چار سال قبل کہی جاتی تو یہ دلیل کافی تھی کہ پاکستان میں فن کی قدر نہیں [یہ حقیقت بھی ہے ] لیکن اسی پاکستان میں شان گنڈاسا پھینک کر بلال لاشاری کی میگا فلم وار سائن کرتا ہے ۔۔ اور اس فلم کی ریٹنگ انٹرنیشنل مووی ڈیٹا بیس کے مطابق دس میں سے نو ہے اور یہ اعزاز آج تک بہت کم فلموں کو نصیب ہوا۔ اسی پاکستان میں 'ہم سفر' جیسے ڈرامے بھی بنتے ہیں لیکن پھر حمائمہ ملک جیسی ورسٹائل اداکارہ راجہ نٹور لال کی رانی بننے کیوں چلی گئی ؟ یہ وہی خاتو ن ہیں جن کی فلم 'بول' کا یہ مکالمہ آج بھی لو گ دہراتے ہیں ' اگر کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو' اور پھر راجہ نٹور لال بھی فلاپ ہوگئی اس سے شاید عمران ہاشمی پر تو کوئی فرق نہ پڑے کیوں کہ یہ اُن کی عادت بن چکی ہے مگر پاکستان میں سپر ہٹ فلم کرکے نام کمانے والی حمائمہ ملک کے لیے لمحہ فکریہ ضرورہے۔


وینا، میرا اور دوسری اداکاراوں نے بالی ودڈ جا کر کیا گل کھلائے یہ یہاں بتانایہاں مقصود نہیں بات کرنے کا تو مقصد یہ ہے کہ آخر وہاں جانے کی وجہ آخر کیا ہے؟ کیا پاکستانی انڈسٹری میں شہرت کی کمی ہے ؟ پیسے کی کمی ہے اور اگر ہے تو پھر وار جیسی فلم کا بجٹ اور ٹرن آوٹ کو آپ کس خانے میں رکھیں گے ؟ اور اب تو پاکستانی شوبزنس کے بارے میں خود بھارتی اداکاروں نے کہہ دیا اتو کیا اب بھی وہاں جا کر سستا فیم حاصل کرنا یا اسکینڈل کوئن کہلانا ضروری ہے ؟

کہاں تک گنو گے کہاں تک گنواوں' خدا کے لیے' بھی تک پرانی نہیں ہوئی ۔۔ جی اسی شعیب منصور کی 'خدا کے لیے' جنہوں نے ہمارےبچپن میں ہمیں الفا براوو چارلی کا تحفہ دیااور ڈراما سیریل دھواں میں اداکار نبیل کی موت پر پس پردہ بجنے والا نصرت فتح علی کا گانا'اس تو ں ڈاڈا دکھ نہ کوئی'کیا آج بھی ہماری آنکھیں گیلی نہیں کردیتا ؟

یہ سب تو تھیں پرانی باتیں ۔۔ لیکن پاریش راوال ،نصیر الدین شاہ اور کاجول جیسے لیجنڈ اداکاروں کے تعریفی کلمات ہمارے لیے سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور یہ اِس بات کی بھی غمازی کرتے ہیں کہ پکچر ابھی باقی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story