بات کچھ اِدھر اُدھر کی یہ بچے ہمارا سرمایہ ہیں

اگر پاکستان کا مستقبل سنوارنا ہے تو پہلے ان بچوں کا آج بہتر کرنا ہوگا تاکہ ہمارے آنے والا کل محفوظ ہوسکے۔

اگر پاکستان کا مستقبل سنوارنا ہے تو پہلے ان بچوں کا آج بہتر کرنا ہوگا تاکہ ہمارے آنے والا کل محفوظ ہوسکے۔ فوٹو رائٹرز



90 کی دہائی میں کی گئی عداد وشمار کے مطابق تقریباَ 11 ملین بچے ایسے ہیں جو اپنا بچپن کہیں دور چھوڑ کر فکرِ معاش میں نکل آئے ہیں ۔ مگر افسوس صد افسوس یہ عداد وشمار کمی کی بجائے مزید بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ارد گرد ہمیں بہت سے ایسے بچے نظر آتے ہیں جو اپنے گلستان کو آباد کرنے کے لیے خود گھروں سے نکل آئے ہیں انہوں نے کسی مالی کا انتظار نہیں کیا۔ ان کے ننھے ہاتھوں نے قلم کے بجائے اوزار اٹھالئے۔


یہ سب کتابی باتیں تو میں نے بہت پڑھی تھیں، دیکھا بھی تھا اور دل میں ان کے لئے دکھ اور ہمدری بھی تھی، لیکن میں روز مرہ کے کاموں میں اتنی مگن ہو جاتی اور یہ سب باتیں میرے ذہن کے کسی حصے میں چھپ جایا کرتیں تھیں ۔


دو روز قبل میں اور میری ماما کسی نجی کام کے سلسلے میں گھر سے نکلے ،راستہ طویل تھا اور باتوں میں ہم اتنے مگن تھے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ سگنل پر رکتے ہی میں نے اردگرد نظریں ڈورائیں، گرمی کی شدت اور لاہور کی ٹریفک کا حال تو سب کو معلوم ہی ہے، ہر شخص کو اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ لیکن وہیں سڑک کے کنارے ایک ایسا بچہ بھی نظر آیا جو اس سب سے بے نیاز تھا اور اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ گاڑیوں کے ہارن، سڑک پر چلتے ٹریفک کا شور اور چلچلاتی دھوپ کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔



میں بغور اس بچے کو دیکھ کر یہ سوچ رہی تھی کہ اس بچے کی عمر کتنی ہوگی جو اس وقت سڑک کے کنارے موچی کا کام کرنے میں مگن ہے؟ سوال تو کئی تھے لیکن جواب ڈھونڈنے کا وقت کم تھا ، اشارے کے کھلتے ہی میں اپنی گاڑی دوڑا کر اپنی منزل کی جانب بڑھی۔


آج پہلی بار میں نے ایسے بچوں کو کام کرتے نہیں دیکھا تھا اس سے پہلے بھی کئی بار ایسے کئی بچوں کو مزدوری کرتے دیکھ چکی ہوں، لیکن اس بار مجھے اپنے معاشرے میں موجود جاہلت کا احساس شدت سے ہوا۔ ہمارے حکمران جب یہ کہتے ہیں کہ ہم دن بدن ترقی کی راہیں طے کر رہے ہیں، تو کیا یہ بچے انہیں ترقی کی راہ میں نظر نہیں آتے؟


دوسری جانب میں یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ والدین کم عمری میں کس دل سے اپنے لختِ جگر کو محبت کی گرمی دینے کی بجائے سورج کی تپش میں جلنے کے لئے بھیج دیتے ہیں؟


وہ بھی تو ایک بچہ ہے جس کا ہاتھ ہتھوڑا چل رہا ہے ، جس کے ہاتھ میں مختلف اوزار ہیں اور وہ کسی کی گاڑی کی مرمت کررہا ہے، وہ بھی تو بچہ ہے جس کے ہاتھ میں کھانے کے برتن ہیں اور وہ بیرا بنے کھانا ادھر سے ادھر پیش کر رہا ہے ، پھر وہ بھی تو ایک لڑکی ہے جو مزدوری کر کے اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔


نیز ہر طرح کی مزدوری کرتے یہ بچے کبھی کسی کے حکم کے منتطر ہیں تو کبھی کسی کے ظلم کا شکار لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں باضمیر لوگ کہاں ہیں ؟ کیا ہمارا کوئی فرض نہیں؟ عوام کی خدمت کا دعوی کرنے والے حکمرانوں کی تو بات کرنا ہی بیکار ہے کیونکہ یہ سب حضرات تو کرسی کی جنگ میں اتنا مصروف ہیں کہ ان کے پاس تو عوام کی مسائل کی جانب توجہ دینے کا وقت ہی نہیں، ان کو یہ معصوم پھول جیسے بچے کہاں نظر آئیں گے؟


اب بھی وقت ہے اگر اب بھی ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو آنے والی نسلوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ یہ بچے ہمارے پاکستان کا مستقبل ہیں اگر پاکستان کا مستقبل سنوارنا ہے تو پہلے ان بچوں کا آج بہتر کرنا ہوگا تاکہ ہمارے آنے والا کل محفوظ ہوسکے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story