کامریڈ شانتہ بخاری عورتوں کی لیبر لیڈر
چھوٹی سی عمر میں مزدوری کرنے سے شانتہ میں بے خوفی، طاقت، اور قربانی دینے کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔
لاہور:
آزادی سے پہلے عورتوں کی حالت کچھ اچھی نہیں رہی ہے ۔ شروع ہی سے عورتیں گھر اور خاندان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے زرعی زمین، کارخانوں میں مزدوری کرکے اور گھروں میں کام کاج کرکے مردوں کی مدد کرتی رہی ہیں مگر افسوس کہ انھیں اپنے حقوق نہیں دیے گئے ۔
1947 سے پہلے ایک ایسی نڈر لڑکی سامنے آئی جس نے مزدور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، جو مرنے تک جاری رہی، وہ اس دوران ہندوستان کے کئی شہروں میں سفر کرتی رہی اور لاڑکانہ میں رہائش پذیر رہی ۔ شانتہ بخاری 12 سال کی عمر سے ہی کپڑے بنانے والی مل میں مزدور لیڈر بن گئی اور پھر کمیونسٹ پارٹی میں عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی جس مل میں وہ کام کرتی تھیں وہاں پر اگر کوئی عورت بیمار پڑجاتی یا نہیں آتی تو اس کی جگہ شانتہ اپنے حصے کا کام پورا کرنے کے بعد اس عورت کا کام پورا کرتی ، جس کی اجرت اس عورت کو بھجوادیتی تھیں ۔ اس کے علاوہ اگر مل مالک کسی عورت کو اس کی مزدوری کم دیتا تھا یا بلاوجہ اسے کام سے فارغ کردیتا تھا تو وہ اس کے لیے مل مالکان سے احتجاج کرتی تھیں، جس کی سپورٹ کے لیے آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی پہنچ جاتی تھی ۔
شانتہ بخاری ہندوستان کے شہر جھالہ واڑ کے گاؤں کوٹا بوندی جو راجھستان میں تھا، ایسے ایک خاندان سے تعلق رکھتی تھی جو پروگریسو تھا، جس کی سوچ لبرل تھی، جو چاہتا اور سمجھتا تھاکہ عورت بھی خاندان کا اہم رکن ہے، جسے پورے حقوق حاصل ہونا چاہییں ۔ ان خیالات کی وجہ سے اس خاندان نے اس وقت آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اور کھل کر کام کرنا شروع کیا۔ ان کا مقصد تھا کہ پارٹی کے ذریعے عورتوں کے حقوق کے لیے ایک انقلاب لائیں۔ شانتہ کی خالہ سندرا اس پارٹی کی اہم سرگرم رکن بن گئی۔ اسی دوران ان کی شادی ایک مسلمان جگن سے ہوگئی جن کے لیے انھوں نے اسلام قبول کیا مگر افسوس کہ وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔
شانتہ کی ماں کستوری ایک ٹیچر تھیں، جس کی شادی پیراجی نامی ایک مشہور ٹیلر ماسٹر سے ہوئی لیکن افسوس کہ شانتہ بخاری کے پیدا ہوتے ہی ان کی ماں کا انتقال ہوگیا، اب اس بچی کی پرورش اس کی نانی نے شروع کی جس نے بھی یہ جہان چھوڑ دیا اور پھر شانتہ کی پرورش اس کی خالہ سندرا نے شروع کی۔ شانتہ میاں بیوی کے لیے ایک کھلونا تھا کیوں کہ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن ان دونوں کی کمیونسٹ میں مصروفیت کی وجہ سے ان کے لیے مشکل ہورہی تھی، اس لیے جب شانتہ 6 سال کی ہوئی تو اسے صبح کو اسکول بھیج دیا جاتا تھا اور شام کو کپڑے بنانے والی مل کے اندر کام سیکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ شانتہ کے والد بھی 28 سال کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کرگئے۔
اب اسی مل میں مزدوری کرتی تھیں، اس لیے شانتہ بخاری بڑے اعتماد کے ساتھ کام کرتی تھیں اور ذہین ہونے کی وجہ سے سارا کام چھوٹی سی ہی عمر میں جلد سیکھ گئیں۔ جب ان کی عمر 12 سال ہوگئی تو ان کی خالہ کا بھی انتقال ہوگیا جس سے اس کے ذہن پر برا اثر ہوا۔ سندرا جس کا مسلمان ہونے کے بعد آمنہ نام رکھا گیا تھا مگر اسے پیار سے سکینہ کہا جاتا تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد شانتہ پر بھی اپنی خالہ کا کافی اثر ہوا تھا اور وہ بھی دل ہی دل میں اسلام کی طرف راغب ہورہی تھیں۔
خالہ کے مرجانے کے بعد شانتہ نے اپنی پڑھائی 12 سال کی عمر میں ختم کردی اور اپنی پوری توجہ عورتوں کے حقوق کے لیے دینا شروع کردی جس میں سب سے پہلے کپڑے کے مل میں ہونے والے کام کو ٹھیکے پر لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب کام کرنے والی عورتوں کو ایک تحفظ مل گیا۔ اس نئے کام سے اس لیبر لیڈر نے یہ سوچنا شروع کیا کہ اب مزدور عورتوں کی اجرت میں بھی اضافہ کیا جائے جس کے لیے اس نے جد وجہد شروع کی، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہیں۔
چھوٹی سی عمر میں مزدوری کرنے سے شانتہ میں بے خوفی، طاقت، اور قربانی دینے کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔ وہ صبح سے شام تک اپنا اور بیمار، نادار اور کمزور عورتوں کا کام کرتی رہتی تھیں۔ آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی نے ان کا یہ جذبہ دیکھ کر اسے اپنی پارٹی میں عورتوں کی ونگ میں اہم ذمے داریاں سونپنا شروع کیں۔ اس جذبے کو دیکھ کر مزدور عورتوں کے علاوہ دوسری عورتیں بھی ان سے ملنے اور تجویزیں لینے آتی تھیں جس سے عورتوں میں شعور پیدا ہونا شروع ہوا اور کئی عورتوں کی فلاح اور بہبود کی تنظیمیں وجود میں آنے لگیں۔
پارٹی میں کام کرنے کے دوران شانتہ کی ملاقات اس وقت کے اہم اور متحرک کمیونسٹ لیڈر جمال الدین بخاری سے ہوئی اور دونوں میں ایک ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگئی اور وہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور آخرکار ہندوستان کے شہر احمد آباد میں مارچ 1942 میں ان دونوں کی شادی ہوگئی، مگر اس سے پہلے شانتہ بخاری مسلمان ہوگئیں اور اس کا نام زیب النساء رکھا گیا، اب شانتہ بخاری نے عورتوں کی مزدوری کے دوران سہولتیں دینے کے لیے مزید آواز اٹھانا شروع کیا جس کے لیے ان کے شوہر جمال الدین بخاری نے بھرپور طریقے سے ساتھ دیا۔
پاکستان وجود میں آنے کے بعد شانتہ بخاری اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آگئیں اور کراچی شہر میں لائٹ ہاؤس کے برابر رہائش اختیار کی گئی۔ پاکستان آنے کے بعد بھی شانتہ نے مزدور عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کا کام بھی ساتھ ساتھ چلانا شروع کیا۔ اب انھیں معاشی مسئلہ بڑھتا گیا کیوں کہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے لیے برے دن شروع ہوگئے تھے۔ اب وہ اپنے شوہر کی پارٹی کے ممبران، دفتر، اپنے گھر کی ذمے داریاں سنبھالتی رہیں کیوں کہ ان کے شوہر کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس نے اسپتال میں کام کرنے والی دائیوں (Midwives)، ملوں میں مزدوری کرنے والی عورتوں، صفائی کرنے والی Sweepers کے لیے ایک مرکز کھولا تھا جہاں پر انھیں وہ لیکچر اور تربیت بھی دیتی رہیں۔
شانتہ نے اپنے شوہر کے جیل جانے کے بعد تکلیف اٹھائیں، صعوبتیں جھیلیں، ایک طرف انھیں معاشی مسئلہ تھا، دوسری جانب بچوں کی پرورش۔ مگر اس بہادر عورت نے ان حالات کا مقابلہ صبر و تحمل کے ساتھ کیا۔ سندھ کی اہم شخصیت قاضی فضل اﷲ جو لاڑکانہ شہر میں رہتے تھے اور پارٹیشن سے پہلے کامریڈ جمال الدین بخاری کے کلاس فیلو تھے انھوں نے بخاری صاحب کو جیل سے رہائی کے بعد مشورہ دیا کہ وہ لاڑکانہ آکر باد ہوجائیں اور اس طرح وہ لاڑکانہ آگئے جہاں پر شانتہ بخاری نے آتے ہی وہاں پر غریب مزدور، ہاری اور دوسری مزدوری کرنے والی عورتوں کے لیے کام کرنا شروع کیا جس سے انھیں بڑی عزت و احترام ملا۔ پورے ضلع سے عورتیں شانتہ کے پاس اپنے مسائل حل کروانے اور ان سے مشورہ لینے کے لیے آتی رہتی تھیں۔
ان کے لیکچر سے شہر اور نواحی علاقوں کے مرد جو عورتوں کو بھیڑ بکری سمجھتے تھے انھوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانا شروع کی۔ شانتہ جو سادہ سفید لباس جس میں خاص طور پر ساڑھی اور اس کے ساتھ لکڑی اور ربڑ والی چاکھڑی پہنتی تھیں اور کھانا ہمیشہ کم اور سادہ کھاتی تھیں اور کھانے سے پہلے غریبوں کو یاد کرتی تھیں اور رات کو سونے سے پہلے عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سوچتی اور پلان بناتی رہتی تھیں۔ وہ ایک لمبی جدوجہد کی زندگی گزارنے کے بعد 24 جولائی 2014 کو کراچی کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں آخری سانس لے کر اس دنیا سے چلی گئیں، ان کو لاڑکانہ کے پیر قائم شاہ بخاری کے قبرستان میں اپنے شوہر کے برابر سپرد خاک کیا گیا ہے۔
آزادی سے پہلے عورتوں کی حالت کچھ اچھی نہیں رہی ہے ۔ شروع ہی سے عورتیں گھر اور خاندان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے زرعی زمین، کارخانوں میں مزدوری کرکے اور گھروں میں کام کاج کرکے مردوں کی مدد کرتی رہی ہیں مگر افسوس کہ انھیں اپنے حقوق نہیں دیے گئے ۔
1947 سے پہلے ایک ایسی نڈر لڑکی سامنے آئی جس نے مزدور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، جو مرنے تک جاری رہی، وہ اس دوران ہندوستان کے کئی شہروں میں سفر کرتی رہی اور لاڑکانہ میں رہائش پذیر رہی ۔ شانتہ بخاری 12 سال کی عمر سے ہی کپڑے بنانے والی مل میں مزدور لیڈر بن گئی اور پھر کمیونسٹ پارٹی میں عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی جس مل میں وہ کام کرتی تھیں وہاں پر اگر کوئی عورت بیمار پڑجاتی یا نہیں آتی تو اس کی جگہ شانتہ اپنے حصے کا کام پورا کرنے کے بعد اس عورت کا کام پورا کرتی ، جس کی اجرت اس عورت کو بھجوادیتی تھیں ۔ اس کے علاوہ اگر مل مالک کسی عورت کو اس کی مزدوری کم دیتا تھا یا بلاوجہ اسے کام سے فارغ کردیتا تھا تو وہ اس کے لیے مل مالکان سے احتجاج کرتی تھیں، جس کی سپورٹ کے لیے آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی پہنچ جاتی تھی ۔
شانتہ بخاری ہندوستان کے شہر جھالہ واڑ کے گاؤں کوٹا بوندی جو راجھستان میں تھا، ایسے ایک خاندان سے تعلق رکھتی تھی جو پروگریسو تھا، جس کی سوچ لبرل تھی، جو چاہتا اور سمجھتا تھاکہ عورت بھی خاندان کا اہم رکن ہے، جسے پورے حقوق حاصل ہونا چاہییں ۔ ان خیالات کی وجہ سے اس خاندان نے اس وقت آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اور کھل کر کام کرنا شروع کیا۔ ان کا مقصد تھا کہ پارٹی کے ذریعے عورتوں کے حقوق کے لیے ایک انقلاب لائیں۔ شانتہ کی خالہ سندرا اس پارٹی کی اہم سرگرم رکن بن گئی۔ اسی دوران ان کی شادی ایک مسلمان جگن سے ہوگئی جن کے لیے انھوں نے اسلام قبول کیا مگر افسوس کہ وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔
شانتہ کی ماں کستوری ایک ٹیچر تھیں، جس کی شادی پیراجی نامی ایک مشہور ٹیلر ماسٹر سے ہوئی لیکن افسوس کہ شانتہ بخاری کے پیدا ہوتے ہی ان کی ماں کا انتقال ہوگیا، اب اس بچی کی پرورش اس کی نانی نے شروع کی جس نے بھی یہ جہان چھوڑ دیا اور پھر شانتہ کی پرورش اس کی خالہ سندرا نے شروع کی۔ شانتہ میاں بیوی کے لیے ایک کھلونا تھا کیوں کہ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن ان دونوں کی کمیونسٹ میں مصروفیت کی وجہ سے ان کے لیے مشکل ہورہی تھی، اس لیے جب شانتہ 6 سال کی ہوئی تو اسے صبح کو اسکول بھیج دیا جاتا تھا اور شام کو کپڑے بنانے والی مل کے اندر کام سیکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ شانتہ کے والد بھی 28 سال کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کرگئے۔
اب اسی مل میں مزدوری کرتی تھیں، اس لیے شانتہ بخاری بڑے اعتماد کے ساتھ کام کرتی تھیں اور ذہین ہونے کی وجہ سے سارا کام چھوٹی سی ہی عمر میں جلد سیکھ گئیں۔ جب ان کی عمر 12 سال ہوگئی تو ان کی خالہ کا بھی انتقال ہوگیا جس سے اس کے ذہن پر برا اثر ہوا۔ سندرا جس کا مسلمان ہونے کے بعد آمنہ نام رکھا گیا تھا مگر اسے پیار سے سکینہ کہا جاتا تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد شانتہ پر بھی اپنی خالہ کا کافی اثر ہوا تھا اور وہ بھی دل ہی دل میں اسلام کی طرف راغب ہورہی تھیں۔
خالہ کے مرجانے کے بعد شانتہ نے اپنی پڑھائی 12 سال کی عمر میں ختم کردی اور اپنی پوری توجہ عورتوں کے حقوق کے لیے دینا شروع کردی جس میں سب سے پہلے کپڑے کے مل میں ہونے والے کام کو ٹھیکے پر لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب کام کرنے والی عورتوں کو ایک تحفظ مل گیا۔ اس نئے کام سے اس لیبر لیڈر نے یہ سوچنا شروع کیا کہ اب مزدور عورتوں کی اجرت میں بھی اضافہ کیا جائے جس کے لیے اس نے جد وجہد شروع کی، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہیں۔
چھوٹی سی عمر میں مزدوری کرنے سے شانتہ میں بے خوفی، طاقت، اور قربانی دینے کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔ وہ صبح سے شام تک اپنا اور بیمار، نادار اور کمزور عورتوں کا کام کرتی رہتی تھیں۔ آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی نے ان کا یہ جذبہ دیکھ کر اسے اپنی پارٹی میں عورتوں کی ونگ میں اہم ذمے داریاں سونپنا شروع کیں۔ اس جذبے کو دیکھ کر مزدور عورتوں کے علاوہ دوسری عورتیں بھی ان سے ملنے اور تجویزیں لینے آتی تھیں جس سے عورتوں میں شعور پیدا ہونا شروع ہوا اور کئی عورتوں کی فلاح اور بہبود کی تنظیمیں وجود میں آنے لگیں۔
پارٹی میں کام کرنے کے دوران شانتہ کی ملاقات اس وقت کے اہم اور متحرک کمیونسٹ لیڈر جمال الدین بخاری سے ہوئی اور دونوں میں ایک ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگئی اور وہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور آخرکار ہندوستان کے شہر احمد آباد میں مارچ 1942 میں ان دونوں کی شادی ہوگئی، مگر اس سے پہلے شانتہ بخاری مسلمان ہوگئیں اور اس کا نام زیب النساء رکھا گیا، اب شانتہ بخاری نے عورتوں کی مزدوری کے دوران سہولتیں دینے کے لیے مزید آواز اٹھانا شروع کیا جس کے لیے ان کے شوہر جمال الدین بخاری نے بھرپور طریقے سے ساتھ دیا۔
پاکستان وجود میں آنے کے بعد شانتہ بخاری اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آگئیں اور کراچی شہر میں لائٹ ہاؤس کے برابر رہائش اختیار کی گئی۔ پاکستان آنے کے بعد بھی شانتہ نے مزدور عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کا کام بھی ساتھ ساتھ چلانا شروع کیا۔ اب انھیں معاشی مسئلہ بڑھتا گیا کیوں کہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے لیے برے دن شروع ہوگئے تھے۔ اب وہ اپنے شوہر کی پارٹی کے ممبران، دفتر، اپنے گھر کی ذمے داریاں سنبھالتی رہیں کیوں کہ ان کے شوہر کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس نے اسپتال میں کام کرنے والی دائیوں (Midwives)، ملوں میں مزدوری کرنے والی عورتوں، صفائی کرنے والی Sweepers کے لیے ایک مرکز کھولا تھا جہاں پر انھیں وہ لیکچر اور تربیت بھی دیتی رہیں۔
شانتہ نے اپنے شوہر کے جیل جانے کے بعد تکلیف اٹھائیں، صعوبتیں جھیلیں، ایک طرف انھیں معاشی مسئلہ تھا، دوسری جانب بچوں کی پرورش۔ مگر اس بہادر عورت نے ان حالات کا مقابلہ صبر و تحمل کے ساتھ کیا۔ سندھ کی اہم شخصیت قاضی فضل اﷲ جو لاڑکانہ شہر میں رہتے تھے اور پارٹیشن سے پہلے کامریڈ جمال الدین بخاری کے کلاس فیلو تھے انھوں نے بخاری صاحب کو جیل سے رہائی کے بعد مشورہ دیا کہ وہ لاڑکانہ آکر باد ہوجائیں اور اس طرح وہ لاڑکانہ آگئے جہاں پر شانتہ بخاری نے آتے ہی وہاں پر غریب مزدور، ہاری اور دوسری مزدوری کرنے والی عورتوں کے لیے کام کرنا شروع کیا جس سے انھیں بڑی عزت و احترام ملا۔ پورے ضلع سے عورتیں شانتہ کے پاس اپنے مسائل حل کروانے اور ان سے مشورہ لینے کے لیے آتی رہتی تھیں۔
ان کے لیکچر سے شہر اور نواحی علاقوں کے مرد جو عورتوں کو بھیڑ بکری سمجھتے تھے انھوں نے اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانا شروع کی۔ شانتہ جو سادہ سفید لباس جس میں خاص طور پر ساڑھی اور اس کے ساتھ لکڑی اور ربڑ والی چاکھڑی پہنتی تھیں اور کھانا ہمیشہ کم اور سادہ کھاتی تھیں اور کھانے سے پہلے غریبوں کو یاد کرتی تھیں اور رات کو سونے سے پہلے عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سوچتی اور پلان بناتی رہتی تھیں۔ وہ ایک لمبی جدوجہد کی زندگی گزارنے کے بعد 24 جولائی 2014 کو کراچی کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں آخری سانس لے کر اس دنیا سے چلی گئیں، ان کو لاڑکانہ کے پیر قائم شاہ بخاری کے قبرستان میں اپنے شوہر کے برابر سپرد خاک کیا گیا ہے۔