مشکوک بولنگ ٹیسٹ کی رپورٹ خفیہ دستاویز بن گئی
کرکٹرز اور بورڈز کو طریقہ کار کا جائزہ لینے کیلیے معلومات کی فراہمی سے گریز
آئی سی سی نے مشکوک بولنگ ٹیسٹ کو خفیہ دستاویز بنادیا، کرکٹرز اور بورڈز کو طریقہ کار کا جائزہ لینے کیلیے معلومات کی فراہمی سے گریز کیا جارہا ہے۔
ماضی میں یہ خدمات فراہم کرنے والی ویسٹرن آسٹریلیا یونیورسٹی کے بائیو مکینک ایکسپرٹ جیکولین ایلڈرسن نے اس پرکئی سوال اٹھا دیے۔ تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا 20 سال تک پرتھ میں واقع لیب سے الحاق رہا،یہاں مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آنے والے کئی بولرز کلیئر بھی ہوتے رہے، جولائی میں پابندی کا شکار ہونے والے سری لنکن اسپنر سچترا سینانائیکے کو 2011 میں ٹیسٹ کے بعد بولنگ جاری رکھنے کا پروانہ ملا تھا، سعید اجمل بھی 2009 میں رپورٹ کیے جانے پر پرتھ میں سرخرو ہو گئے تھے،ماضی کی بانسبت آئی لینڈر اسپنرکے بازو کا خم 15 ڈگری کی مقررہ حد سے دگنا متجاوز قرار دیا گیا۔
پاکستانی سلو بولر کا زاویہ تو 40 ڈگری تک بتایا گیا تاہم طریقہ کار سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ویسٹرن آسٹریلیا یونیورسٹی میں بائیو مکینک کی ماہر پروفیسر جیکولین ایلڈرسن نے کہا کہ ان کا ادارہ ایک عرصہ تک آئی سی سی کو بولنگ کے جائزے اور تحقیق کیلیے مفت سہولیات فراہم کرتا رہا، مارچ 2014 میں ہماری طرف سے سسٹم کی شفافیت اور پیشہ ورانہ معاملات میں تحفظات کا اظہار کیا گیا جس کی وجہ سے دونوں اداروں میں غلط فہمی پیدا ہوئی جس کے بعد روابط نہ رہے۔
جیکولین کا کہنا ہے کہ ابتدا میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ برسبین اور دیگر سینٹرز میں ہونے والے ٹیسٹ کے طریقہ کارسے متعلق معلومات جائزے کیلیے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کو بھی فراہم کی جائیں گی لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ساری کارروائی کو کھلاڑیوں اور ان کے کرکٹ بورڈز سے بھی دور رکھا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تفصیلات نہ ہونے کی جہ سے طریقہ کار کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں،ہم اپنے طورپرکھیلوں اور کھلاڑیوں کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
ماضی میں یہ خدمات فراہم کرنے والی ویسٹرن آسٹریلیا یونیورسٹی کے بائیو مکینک ایکسپرٹ جیکولین ایلڈرسن نے اس پرکئی سوال اٹھا دیے۔ تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا 20 سال تک پرتھ میں واقع لیب سے الحاق رہا،یہاں مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آنے والے کئی بولرز کلیئر بھی ہوتے رہے، جولائی میں پابندی کا شکار ہونے والے سری لنکن اسپنر سچترا سینانائیکے کو 2011 میں ٹیسٹ کے بعد بولنگ جاری رکھنے کا پروانہ ملا تھا، سعید اجمل بھی 2009 میں رپورٹ کیے جانے پر پرتھ میں سرخرو ہو گئے تھے،ماضی کی بانسبت آئی لینڈر اسپنرکے بازو کا خم 15 ڈگری کی مقررہ حد سے دگنا متجاوز قرار دیا گیا۔
پاکستانی سلو بولر کا زاویہ تو 40 ڈگری تک بتایا گیا تاہم طریقہ کار سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ویسٹرن آسٹریلیا یونیورسٹی میں بائیو مکینک کی ماہر پروفیسر جیکولین ایلڈرسن نے کہا کہ ان کا ادارہ ایک عرصہ تک آئی سی سی کو بولنگ کے جائزے اور تحقیق کیلیے مفت سہولیات فراہم کرتا رہا، مارچ 2014 میں ہماری طرف سے سسٹم کی شفافیت اور پیشہ ورانہ معاملات میں تحفظات کا اظہار کیا گیا جس کی وجہ سے دونوں اداروں میں غلط فہمی پیدا ہوئی جس کے بعد روابط نہ رہے۔
جیکولین کا کہنا ہے کہ ابتدا میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ برسبین اور دیگر سینٹرز میں ہونے والے ٹیسٹ کے طریقہ کارسے متعلق معلومات جائزے کیلیے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کو بھی فراہم کی جائیں گی لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ساری کارروائی کو کھلاڑیوں اور ان کے کرکٹ بورڈز سے بھی دور رکھا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تفصیلات نہ ہونے کی جہ سے طریقہ کار کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں،ہم اپنے طورپرکھیلوں اور کھلاڑیوں کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔