جن پہ تکیہ تھا
کیا ہمیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا چاہیے۔ سیاستدان اپنے گندے کپڑے کیوں چوراہے پر دھونے پر مصر ہیں۔
KARACHI:
یہ اس ملک اور کروڑوں عوام کی اجتماعی بدنصیبی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم اور اول وزیر اعظم لیاقت علی خان کی وفات کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں موجود سیاستدانوں کی کارکردگی کے آگے غیر سیاسی قوتوں نے بڑے سوالیہ نشانات لگا کر جمہوریت کی ٹرین کو تیزی سے اتارنے کا جو آغاز 1958 میں جنرل ایوب خان کے ہاتھوں شروع کیا تھا آج 65 سال گزرنے اور 21 ویں صدی کے اوائل میں بھی اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اس طویل عرصے کے دوران 1969 پھر 1977 اور آخری مرتبہ 1999 میں جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی۔ سیاستدانوں کو میدان سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے جنرل ایوب خان کے ایبڈو قانون سے لے کر پرویز مشرف کے نعرہ احتساب تک کئی مراحل آئے۔ بھٹو جیسے مفکر سیاستدان کو تختہ دار تک لے جایا گیا۔ میاں نواز شریف اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلا وطن کر کے ان کی سیاسی پیش قدمی کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ پرویز مشرف کے جانے اور عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کی برق رفتاری کے بعد جمہوریت کے استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
قومی سیاسی کلچر میں پختگی آئے گی سیاستداں نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور جمہوری نظام کے تسلسل کو فروغ حاصل ہو گا۔ اور سیاستداں ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کریں گے کہ جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ اگرچہ گزشتہ چھ سالوں کے دوران جمہوریت کا سلسلہ چل رہا ہے اور اس دوران برسراقتدار جماعت پی پی پی کی قیادت کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں یوسف رضاگیلانی اور پھر راجہ پرویز اشرف نے بہتر طریقے سے حکومتی معاملات چلائے۔
صدر زرداری کی بصیرت اور سیاسی تدبر کے باعث ملک میں پہلی مرتبہ حکومت نے 5 سالہ آئینی مدت پوری کی اور جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا۔ تاہم آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سیاسیمعاملات کو بہتر طریقے سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں اگرچہ فریقین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن ''ڈیڈلاک'' برقرار ہے دونوں رہنما ''آزادی و انقلاب'' کے بدلے میں وزیر اعظم نواز شریف کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں جو بلاشبہ ان کا غیر سنجیدہ مطالبہ ہے۔
بظاہر موجودہ حکمرانوں کو اپنا اقتدار مستحکم نظر آرہا ہے کیونکہ اپوزیشن سمیت تمام جمہوریت پسند جماعتیں، سول سوسائٹی اور تمام اداروں کا تعاون انھیں حاصل ہے کہ یہ تمام قوتیں ہر صورت ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل و استحکام کی خواہاں ہیں اور پوری قوت کے ساتھ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پشت پر کھڑی ہیں اسی لیے میاں صاحب کے حوصلے بلند ہیں اور وہ بھی تکرار کے ساتھ مستعفی ہونے سے انکاری ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے متعدد ملاقاتوں کے بعد ان کے اعتماد میں بظاہر مزید اضافہ ہوا ہے، تاہم میدان سیاست کے باغی جاوید ہاشمی نے جو حیران کن انکشافات کیے ہیں اس نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔
صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی نظریں اب راولپنڈی کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ خدشات و تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ذہنوں میں سوالات کلبلا رہے ہیں۔ قیاس آرائیاں اور خودساختہ تھیوریاں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ اچانک طلب کی جانے والی کورکمانڈرز کانفرنس اور اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے فوج کو مصالحانہ کردار دینے سے لاتعلقی کے اعلان اور آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح تصدیق کے بعد معاملات خاصے گمبھیر ہوچکے ہیں۔
اگرچہ بظاہر حالات پرسکون نظر آرہے ہیں لیکن مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق صورتحال کلی طور پر اطمینان بخش نہیں ہے، اعتماد کا فقدان گہرا ہوتا جا رہا ہے فاصلے اور دوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگلے روز آئی ایس پی آر کی طرف سے مزید وضاحت آئی کہ سیاسی بحران سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مستعفی ہونے تک دھرنا دیے بیٹھے رہنے کے پیچھے جو راز پنہاں ہے اور جس کے پس منظر میں ملک کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں جو چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان اور طاہرالقادری نے قومی سیاست میں جو ہلچل پیدا کی ہے اس کے طفیل وزیر اعظم کی قیادت میں تمام پارلیمانی جماعتیں مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس میں مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے سر جوڑے بیٹھی ہیں۔ جہاں مقررین جمہوریت کے نام پر دلوں کی بھڑاس بھی نکال رہے ہیں۔ مشترکہ اجلاس میں صاحبان اقتدار اور ان کے حلیفوں کی جانب سے جو ''پرجوش'' تقاریر کی جا رہی ہیں وہ جمہوریت کی بقا کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ مقررین میں صبر، تحمل، برداشت اور رواداری کا فقدان ہے ان کی بلند آہنگ آوازیں راولپنڈی تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ دوسروں پر تنقید سے پہلے ہم اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیں۔
کیا ہمیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا چاہیے۔ سیاستدان اپنے گندے کپڑے کیوں چوراہے پر دھونے پر مصر ہیں۔ حکمران پارلیمنٹ سے لاکھ قراردادیں منظور کروا لیں، حلیفوں سے پرجوش و زوردار تنقیدی تقاریر کروا لیں، ضد اور انا کے مینار پر بیٹھے رہیں، عدلیہ اور میڈیا کے پیچھے چھپنے کی کوششیں کریں یا اپوزیشن کی بیساکھیوں کو سہارا بنائیں لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ نے سیاسی بصیرت، تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا، زمینی حقائق کو درست تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہ کی، پیش آمدہ خطرات کا ادراک نہ کرسکے، محتاط روی اور تحمل کی بجائے جذباتی طرز عمل اختیار کیا، آمرانہ سوچ کے خول سے باہر نہ نکلے اور طاقتور حلقوں سے پنجہ آزمائی کے شوق میں قدم بڑھاتے چلے گئے تو جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ غالب قوت غالب ہی رہتی ہے۔
سینیٹر فرحت اللہ صاحب نے غلط نہیں کہا کہ ہمیں چیلنجز کا درست ادراک کرنا چاہیے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھاری مینڈیٹ، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے تعاون اور سب سے بڑھ کر اپوزیشن و تمام پارلیمانی جماعتوں کی حمایت کے باوجود حکمران ٹھوس و جامع سیاسی فیصلے کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اسی باعث حکومت کے کمزور ہونے کا تاثر نمایاں ہو رہا ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی سطح پر حل کیا جائے اور پارلیمنٹ و آئین کی بالادستی کو یقینی و مضبوط بنایا جائے، طاقتور حلقوں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا راستہ نہ دکھائیں کل کہیں آپ کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔''
یہ اس ملک اور کروڑوں عوام کی اجتماعی بدنصیبی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم اور اول وزیر اعظم لیاقت علی خان کی وفات کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں موجود سیاستدانوں کی کارکردگی کے آگے غیر سیاسی قوتوں نے بڑے سوالیہ نشانات لگا کر جمہوریت کی ٹرین کو تیزی سے اتارنے کا جو آغاز 1958 میں جنرل ایوب خان کے ہاتھوں شروع کیا تھا آج 65 سال گزرنے اور 21 ویں صدی کے اوائل میں بھی اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اس طویل عرصے کے دوران 1969 پھر 1977 اور آخری مرتبہ 1999 میں جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی۔ سیاستدانوں کو میدان سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے جنرل ایوب خان کے ایبڈو قانون سے لے کر پرویز مشرف کے نعرہ احتساب تک کئی مراحل آئے۔ بھٹو جیسے مفکر سیاستدان کو تختہ دار تک لے جایا گیا۔ میاں نواز شریف اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلا وطن کر کے ان کی سیاسی پیش قدمی کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ پرویز مشرف کے جانے اور عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کی برق رفتاری کے بعد جمہوریت کے استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
قومی سیاسی کلچر میں پختگی آئے گی سیاستداں نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور جمہوری نظام کے تسلسل کو فروغ حاصل ہو گا۔ اور سیاستداں ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کریں گے کہ جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ اگرچہ گزشتہ چھ سالوں کے دوران جمہوریت کا سلسلہ چل رہا ہے اور اس دوران برسراقتدار جماعت پی پی پی کی قیادت کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں یوسف رضاگیلانی اور پھر راجہ پرویز اشرف نے بہتر طریقے سے حکومتی معاملات چلائے۔
صدر زرداری کی بصیرت اور سیاسی تدبر کے باعث ملک میں پہلی مرتبہ حکومت نے 5 سالہ آئینی مدت پوری کی اور جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا۔ تاہم آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سیاسیمعاملات کو بہتر طریقے سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں اگرچہ فریقین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن ''ڈیڈلاک'' برقرار ہے دونوں رہنما ''آزادی و انقلاب'' کے بدلے میں وزیر اعظم نواز شریف کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں جو بلاشبہ ان کا غیر سنجیدہ مطالبہ ہے۔
بظاہر موجودہ حکمرانوں کو اپنا اقتدار مستحکم نظر آرہا ہے کیونکہ اپوزیشن سمیت تمام جمہوریت پسند جماعتیں، سول سوسائٹی اور تمام اداروں کا تعاون انھیں حاصل ہے کہ یہ تمام قوتیں ہر صورت ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل و استحکام کی خواہاں ہیں اور پوری قوت کے ساتھ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پشت پر کھڑی ہیں اسی لیے میاں صاحب کے حوصلے بلند ہیں اور وہ بھی تکرار کے ساتھ مستعفی ہونے سے انکاری ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے متعدد ملاقاتوں کے بعد ان کے اعتماد میں بظاہر مزید اضافہ ہوا ہے، تاہم میدان سیاست کے باغی جاوید ہاشمی نے جو حیران کن انکشافات کیے ہیں اس نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔
صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی نظریں اب راولپنڈی کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ خدشات و تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ذہنوں میں سوالات کلبلا رہے ہیں۔ قیاس آرائیاں اور خودساختہ تھیوریاں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ اچانک طلب کی جانے والی کورکمانڈرز کانفرنس اور اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے فوج کو مصالحانہ کردار دینے سے لاتعلقی کے اعلان اور آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح تصدیق کے بعد معاملات خاصے گمبھیر ہوچکے ہیں۔
اگرچہ بظاہر حالات پرسکون نظر آرہے ہیں لیکن مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق صورتحال کلی طور پر اطمینان بخش نہیں ہے، اعتماد کا فقدان گہرا ہوتا جا رہا ہے فاصلے اور دوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگلے روز آئی ایس پی آر کی طرف سے مزید وضاحت آئی کہ سیاسی بحران سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مستعفی ہونے تک دھرنا دیے بیٹھے رہنے کے پیچھے جو راز پنہاں ہے اور جس کے پس منظر میں ملک کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں جو چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان اور طاہرالقادری نے قومی سیاست میں جو ہلچل پیدا کی ہے اس کے طفیل وزیر اعظم کی قیادت میں تمام پارلیمانی جماعتیں مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس میں مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے سر جوڑے بیٹھی ہیں۔ جہاں مقررین جمہوریت کے نام پر دلوں کی بھڑاس بھی نکال رہے ہیں۔ مشترکہ اجلاس میں صاحبان اقتدار اور ان کے حلیفوں کی جانب سے جو ''پرجوش'' تقاریر کی جا رہی ہیں وہ جمہوریت کی بقا کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ مقررین میں صبر، تحمل، برداشت اور رواداری کا فقدان ہے ان کی بلند آہنگ آوازیں راولپنڈی تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ دوسروں پر تنقید سے پہلے ہم اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیں۔
کیا ہمیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا چاہیے۔ سیاستدان اپنے گندے کپڑے کیوں چوراہے پر دھونے پر مصر ہیں۔ حکمران پارلیمنٹ سے لاکھ قراردادیں منظور کروا لیں، حلیفوں سے پرجوش و زوردار تنقیدی تقاریر کروا لیں، ضد اور انا کے مینار پر بیٹھے رہیں، عدلیہ اور میڈیا کے پیچھے چھپنے کی کوششیں کریں یا اپوزیشن کی بیساکھیوں کو سہارا بنائیں لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ نے سیاسی بصیرت، تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا، زمینی حقائق کو درست تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہ کی، پیش آمدہ خطرات کا ادراک نہ کرسکے، محتاط روی اور تحمل کی بجائے جذباتی طرز عمل اختیار کیا، آمرانہ سوچ کے خول سے باہر نہ نکلے اور طاقتور حلقوں سے پنجہ آزمائی کے شوق میں قدم بڑھاتے چلے گئے تو جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ غالب قوت غالب ہی رہتی ہے۔
سینیٹر فرحت اللہ صاحب نے غلط نہیں کہا کہ ہمیں چیلنجز کا درست ادراک کرنا چاہیے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھاری مینڈیٹ، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے تعاون اور سب سے بڑھ کر اپوزیشن و تمام پارلیمانی جماعتوں کی حمایت کے باوجود حکمران ٹھوس و جامع سیاسی فیصلے کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اسی باعث حکومت کے کمزور ہونے کا تاثر نمایاں ہو رہا ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی سطح پر حل کیا جائے اور پارلیمنٹ و آئین کی بالادستی کو یقینی و مضبوط بنایا جائے، طاقتور حلقوں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا راستہ نہ دکھائیں کل کہیں آپ کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔''