امیدوار کے بجائے پارٹی کو ووٹ دینے کا قانون بنانے کے لئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر

اصلاحات کمیٹی میں مراعات یافتہ لوگ ہیں، آرٹیکل2اے ،3،4،5،9،25،37اور175کے مطابق قانون بنایاجائے، درخواست گزار کا ومقف

کیس کوممکنہ ماورائے آئین اقدام کے خلاف درخواستوں کے ساتھ سننے، پٹیشن خارج کرنے کاہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم کرنے کی استدعا ۔ فوٹو: فائل

عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ1976کو چیلنج کرنے کی درخواست خارج کرنے کا ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔


عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ عوامی نمائندگی کے قانون کو غیر آئینی قرار دے کرکالعدم کر دیا جائے اور پارلیمنٹ کو ہدایات جاری کی جائیںکہ عوامی نمائندگی کا نیا قانون بنایا جائے جوآئین کی شق 2اے،3،4،5,،9،25،37اور175کے مطابق ہو۔ درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں عوامی نمائندگی کے قانون کے خلاف رٹ پٹیشن دائرکی تھی جس میںکہا گیا تھا کہ عوامی نمائندگی کا قانون مجریہ 1976 عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں، پاکستان ایک طبقاتی معاشرہ ہے اور یہاں طاقتور اور حکمراں طبقہ عوام کی نمائندگی کو یا تو خریدلیتا ہے یا پھر چرالیتا ہے اس لیے پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی نہیں ہوتی، پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی اپنی سفارشات میں عوام کی خواہشات کا خیال نہیں رکھے گی کیونکہ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو مراعات یافتہ ہیں۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ پارلیمنٹ کو پابند کیا جائے کہ نئے مجوزہ قانون میں ووٹر امیدوارکے بجائے پارٹی کو ووٹ دینے کا پابند ہوگا۔ ہائیکورٹ نے اس بنیاد پر درخواست خارج کی تھی کہ عدالت سیاسی سوالات کا جائزہ نہیں لے سکتی، درخواست تکنیکی بنیادوں پر خارج کرکے درخواست گزار پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائدکیاگیا تھا۔ سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی کہ اس کیس کو ملک میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کے خدشے کے بارے میں درخواستوں کے ساتھ سنا جائے اور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرکے پارلیمنٹ کو نئے قانون بنانے کا کہا جائے۔
Load Next Story