آزادی اور انقلاب مارچ
عمران خان اور قادری کی کمزوریاں ڈھونڈنے کے لیے معلوم ہوا بڑے بڑے ماہرین کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں۔۔۔
14 اگست سے عمران خان اور طاہر القادری نے جس تحریک کا آغاز کیا ہے اس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے مضمرات اس کی افادیت اور موجودہ کرپٹ سسٹم پر اس کے مہلک اثرات کا نہ عوام کو اندازہ ہے نہ خواص کو۔ اس کے برخلاف عمومی تاثر یہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ دو جذباتی رہنماؤں کی بے معنی مہم جوئی ہے مگر حکومت اس کے اتحادی طبقات کو اس تحریک کی سنگینی کا نہ صرف اندازہ ہے بلکہ انھیں پوری طرح یہ علم ہے کہ اگر عمران اور قادری اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس ملک کی لُٹیری کلاس کا نہ صرف مستقبل تاریک ہو جاتا ہے ۔
یہی وہ خطرہ ہے جس سے بچنے کے لیے حکمران اور ان کے اتحادی جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر ایک شور برپا کر دیا گیا ہے اور اس نیک کام کو کامیاب بنانے کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں اور جو لوگ جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کو بچانے میں حصہ ڈال رہے ہیں ان کے منہ موتیوں سے اس طرح لبالب بھرے جا رہے ہیں کہ اس بوجھ تلے ان کا ضمیر دب رہا ہے۔
عمران خان اور قادری کی کمزوریاں ڈھونڈنے کے لیے معلوم ہوا بڑے بڑے ماہرین کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں اور بھرپور پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دھرنے ناکام ہو گئے ہیں اور عمران اور قادری باعزت واپسی کے لیے راہیں تلاش کر رہے ہیں بلکہ عمران اور ان کے دلالوں سے یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس میں فریقین کی عزت رہ جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس تحریک میں عوام کی شرکت محدود ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس تحریک کو عوام کی حمایت حاصل نہیں عوام اس تحریک سے بہت امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ان کی اس تحریک میں عملی شرکت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے تحریک شروع کرنے سے پہلے عوام سے بڑے پیمانے پر رابطہ کیا نہ انھیں تحریک کے مقاصد سے آگاہ کیا۔
اس کے علاوہ ملک میں ایسی سیاسی جماعتیں، ٹریڈ یونینز، طلبا تنظیمیں اور دوسری کئی ایسی پیشہ ورانہ تنظیمیں موجود تھیں جو اس 67 سالہ استحصالی سیٹ اپ کے سخت خلاف ہیں عمران اور قادری نے ان طاقتوں سے رابطہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی اگر یہ رابطے کر لیے جاتے تو یہ تحریک پورے پاکستان میں پھیل جاتی یہ کام بلکہ بنیادی اور ضروری کام کیوں نہیں کیا گیا اور اس قدر اہم تحریک کو سیاسی کارکنوں تک محدود کیوں کیا گیا؟
اس کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ عمران اور قادری کو اپنے سیاسی کارکنوں پر بھروسہ تھا کہ وہ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ کارکنوں نے خاص طور پر خواتین کارکنوں نے ایک ماہ اپنے گھروں سے دور موسلادھار بارشوں، سخت گرمی، بھوک، پیاس کے ساتھ جس بہادری سے اسلام آباد میں ڈٹے رہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
لیکن اگر عوام اس تحریک میں شامل ہوتے تو فیصلہ ہو چکا ہوتا حکومت کو یقین تھا کہ ان نامساعد حالات میں دھرنوں کے شرکا ہفتہ دس دن میں گھبرا کر بھاگ جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ آنسو گیس اور گولیوں کی بارش بھی انھیں خوفزدہ نہ کر سکی اور وقت کے ساتھ ان کے جوش، عزم اور حوصلے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور یہ صورت حال حکومت اور اس کے اتحادیوں کے لیے سخت پریشان کن ہے دھرنوں کے شرکا اور عوام کو مایوس کرنے کے لیے اب حکومت نے پروپیگنڈا مہم اس قدر تیز کر دی ہے کہ کارکنوں اور عوام پر اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
للو پنجو جیسے اینکر اور مبصرین جو اس تحریک کے مضمرات اس کی گہرائی سمجھنے ہی سے قاصر ہیں اس تحریک میں ایسی خامیاں ایسی خرابیاں بیان کرتے نظر آ رہے ہیں جن کی سطحیت پر ہنسی آتی ہے حتیٰ کہ اس تحریک کی حمایت کرنے والے بھی ان گہرے مضمرات سے ناواقف نظر آتے ہیں جو اس تحریک سے وابستہ ہیں خواہ وہ کامیاب ہو یا ناکام۔ سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی جمہوریت نام کی کوئی چیز رہی ہی نہیں۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو آج تک صرف دو خاندان یعنی بھٹو خاندان اور نواز خاندان ہی حکومت میں آتے رہے ہیں اگر کچھ دوسرے خاندان اقتدار کا حصہ رہے بھی ہیں تو ان کی حیثیت امرا جیسی رہی ہے۔ جاگیردار، صنعتکار اور اسٹیبلشمنٹ یہ تینوں پارٹنر ہی اقتدار مافیا کا حصہ رہے ہیں اسی صورت حال کو ہم Status Quo کہتے ہیں۔
اس سیٹ اپ کی اولین ترجیح قومی دولت کی لوٹ مار رہی ہے اپنا سارا وقت لوٹ مار میں لگانے والوں کے پاس عوام کے مسائل حل کرنے کا وقت ہی نہیں رہتا تھا پوری جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہر جانے والی حکومت نے عوام کو مسائل کے انبار ہی دیے ہیں اور ہر آنے والی حکومت نے ان انباروں میں اضافہ ہی کیا ہے ہمارے ٹی وی مبصرین فرماتے ہیں حکومت وقت نے ڈلیور ہی نہیں کیا۔
حکومت وقت ہی نے نہیں بلکہ کسی بھی جمہوری حکومت نے کچھ بھی کبھی بھی ڈلیور ہی نہیں کیا کیونکہ یہ سیاسی طور پر بانجھ ہی رہی ہیں ایسی حکومتوں کو جمہوری حکومتیں کہنا اور ہر قیمت پر جمہوریت کو بچانے کی بات کرنا عوام ہی نہیں خواص کو بھی دھوکا دینے کے مترادف ہے اسے ہم سادہ زبان میں جمہوریت بچانا نہیں لوٹ مار کے نظام کو بچانا کہہ سکتے ہیں۔ کیا کوئی سیاسی جماعت اس لوٹ مار کے نظام کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے؟
کیا کوئی اقتدار سے باہر کی جماعت اس نظام کو ختم کرنے نہ سہی اسے کمزور کرنے، اس میں دراڑ ڈالنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ جب کہ تمام جماعتیں اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں کہ کسی حکومت نے ڈلیور نہیں کیا بلکہ ہر حکومت نے مسائل میں اضافہ کیا۔ پھر ان فراڈ جمہوری حکومتوں کا اقتدار میں رہنا قرین انصاف ہے۔ اس افسوسناک پس منظر میں اگر تحریک انصاف اور عوامی تحریک 25-20 ہزار خواتین اور مرد جوان اور بوڑھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ناخواندہ لوگوں کے ساتھ اس لوٹ مار اور بادشاہی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کیے کھڑی ہیں اور ایک ماہ سے مشکل ترین حالات سے بھی ان کے چہروں میں لغزش نہ لا سکے تو یہ حیران کن اور قابل تحسین بات نہیں؟
ہماری فکری ایلیٹ اس تحریک پر یہ کہہ کر کیچڑ اچھال رہی ہے کہ اس تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے اس لیے یہ عوام دشمن تحریک ہے جس کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر 67 سالہ Status Quo توڑنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ عمران اور قادری کی سپورٹ کر رہی ہے تو اسٹیبلشمنٹ قابل مبارکباد ہے نہ کہ قابل مذمت۔ ریاستی اداروں میں اگر کسی قسم کے اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو دانا اور عوام دوست ان اختلافات یا تضادات کو عوام کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے اہل فکر ان تضادات کو Status Quo توڑنے کے لیے استعمال کرنے والوں کو گالیاں بک رہے ہیں۔
کیا تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے علاوہ کوئی اور مائی کا لعل ہے جو ڈی چوک پر کھڑے ہو کر جعلی جمہوریت کے مورچے کو چیلنج کرے؟ یہی خوف ہے جس کی وجہ سے سارے سیاسی گندے انڈے ایک ٹوکری میں جمع ہو گئے ہیں اور جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ خطرے میں ہے کی دہائی دے رہے ہیں۔ اگر عمران اور قادری زرعی اصلاحات، بادشاہت کا خاتمہ، لوکل باڈیز کے الیکشن، انتخابی نظام میں تبدیلی، الیکشن کمیشن کی ازسر نوتشکیل اور لٹیروں کے کڑے احتساب کے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی اتنی بڑی کامیابی ہو گی کہ تاریخ انھیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔
یہی وہ خطرہ ہے جس سے بچنے کے لیے حکمران اور ان کے اتحادی جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر ایک شور برپا کر دیا گیا ہے اور اس نیک کام کو کامیاب بنانے کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں اور جو لوگ جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کو بچانے میں حصہ ڈال رہے ہیں ان کے منہ موتیوں سے اس طرح لبالب بھرے جا رہے ہیں کہ اس بوجھ تلے ان کا ضمیر دب رہا ہے۔
عمران خان اور قادری کی کمزوریاں ڈھونڈنے کے لیے معلوم ہوا بڑے بڑے ماہرین کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں اور بھرپور پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دھرنے ناکام ہو گئے ہیں اور عمران اور قادری باعزت واپسی کے لیے راہیں تلاش کر رہے ہیں بلکہ عمران اور ان کے دلالوں سے یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس میں فریقین کی عزت رہ جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس تحریک میں عوام کی شرکت محدود ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس تحریک کو عوام کی حمایت حاصل نہیں عوام اس تحریک سے بہت امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ان کی اس تحریک میں عملی شرکت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے تحریک شروع کرنے سے پہلے عوام سے بڑے پیمانے پر رابطہ کیا نہ انھیں تحریک کے مقاصد سے آگاہ کیا۔
اس کے علاوہ ملک میں ایسی سیاسی جماعتیں، ٹریڈ یونینز، طلبا تنظیمیں اور دوسری کئی ایسی پیشہ ورانہ تنظیمیں موجود تھیں جو اس 67 سالہ استحصالی سیٹ اپ کے سخت خلاف ہیں عمران اور قادری نے ان طاقتوں سے رابطہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی اگر یہ رابطے کر لیے جاتے تو یہ تحریک پورے پاکستان میں پھیل جاتی یہ کام بلکہ بنیادی اور ضروری کام کیوں نہیں کیا گیا اور اس قدر اہم تحریک کو سیاسی کارکنوں تک محدود کیوں کیا گیا؟
اس کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ عمران اور قادری کو اپنے سیاسی کارکنوں پر بھروسہ تھا کہ وہ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ کارکنوں نے خاص طور پر خواتین کارکنوں نے ایک ماہ اپنے گھروں سے دور موسلادھار بارشوں، سخت گرمی، بھوک، پیاس کے ساتھ جس بہادری سے اسلام آباد میں ڈٹے رہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
لیکن اگر عوام اس تحریک میں شامل ہوتے تو فیصلہ ہو چکا ہوتا حکومت کو یقین تھا کہ ان نامساعد حالات میں دھرنوں کے شرکا ہفتہ دس دن میں گھبرا کر بھاگ جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ آنسو گیس اور گولیوں کی بارش بھی انھیں خوفزدہ نہ کر سکی اور وقت کے ساتھ ان کے جوش، عزم اور حوصلے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور یہ صورت حال حکومت اور اس کے اتحادیوں کے لیے سخت پریشان کن ہے دھرنوں کے شرکا اور عوام کو مایوس کرنے کے لیے اب حکومت نے پروپیگنڈا مہم اس قدر تیز کر دی ہے کہ کارکنوں اور عوام پر اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
للو پنجو جیسے اینکر اور مبصرین جو اس تحریک کے مضمرات اس کی گہرائی سمجھنے ہی سے قاصر ہیں اس تحریک میں ایسی خامیاں ایسی خرابیاں بیان کرتے نظر آ رہے ہیں جن کی سطحیت پر ہنسی آتی ہے حتیٰ کہ اس تحریک کی حمایت کرنے والے بھی ان گہرے مضمرات سے ناواقف نظر آتے ہیں جو اس تحریک سے وابستہ ہیں خواہ وہ کامیاب ہو یا ناکام۔ سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی جمہوریت نام کی کوئی چیز رہی ہی نہیں۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو آج تک صرف دو خاندان یعنی بھٹو خاندان اور نواز خاندان ہی حکومت میں آتے رہے ہیں اگر کچھ دوسرے خاندان اقتدار کا حصہ رہے بھی ہیں تو ان کی حیثیت امرا جیسی رہی ہے۔ جاگیردار، صنعتکار اور اسٹیبلشمنٹ یہ تینوں پارٹنر ہی اقتدار مافیا کا حصہ رہے ہیں اسی صورت حال کو ہم Status Quo کہتے ہیں۔
اس سیٹ اپ کی اولین ترجیح قومی دولت کی لوٹ مار رہی ہے اپنا سارا وقت لوٹ مار میں لگانے والوں کے پاس عوام کے مسائل حل کرنے کا وقت ہی نہیں رہتا تھا پوری جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہر جانے والی حکومت نے عوام کو مسائل کے انبار ہی دیے ہیں اور ہر آنے والی حکومت نے ان انباروں میں اضافہ ہی کیا ہے ہمارے ٹی وی مبصرین فرماتے ہیں حکومت وقت نے ڈلیور ہی نہیں کیا۔
حکومت وقت ہی نے نہیں بلکہ کسی بھی جمہوری حکومت نے کچھ بھی کبھی بھی ڈلیور ہی نہیں کیا کیونکہ یہ سیاسی طور پر بانجھ ہی رہی ہیں ایسی حکومتوں کو جمہوری حکومتیں کہنا اور ہر قیمت پر جمہوریت کو بچانے کی بات کرنا عوام ہی نہیں خواص کو بھی دھوکا دینے کے مترادف ہے اسے ہم سادہ زبان میں جمہوریت بچانا نہیں لوٹ مار کے نظام کو بچانا کہہ سکتے ہیں۔ کیا کوئی سیاسی جماعت اس لوٹ مار کے نظام کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے؟
کیا کوئی اقتدار سے باہر کی جماعت اس نظام کو ختم کرنے نہ سہی اسے کمزور کرنے، اس میں دراڑ ڈالنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ جب کہ تمام جماعتیں اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں کہ کسی حکومت نے ڈلیور نہیں کیا بلکہ ہر حکومت نے مسائل میں اضافہ کیا۔ پھر ان فراڈ جمہوری حکومتوں کا اقتدار میں رہنا قرین انصاف ہے۔ اس افسوسناک پس منظر میں اگر تحریک انصاف اور عوامی تحریک 25-20 ہزار خواتین اور مرد جوان اور بوڑھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ناخواندہ لوگوں کے ساتھ اس لوٹ مار اور بادشاہی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کیے کھڑی ہیں اور ایک ماہ سے مشکل ترین حالات سے بھی ان کے چہروں میں لغزش نہ لا سکے تو یہ حیران کن اور قابل تحسین بات نہیں؟
ہماری فکری ایلیٹ اس تحریک پر یہ کہہ کر کیچڑ اچھال رہی ہے کہ اس تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے اس لیے یہ عوام دشمن تحریک ہے جس کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر 67 سالہ Status Quo توڑنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ عمران اور قادری کی سپورٹ کر رہی ہے تو اسٹیبلشمنٹ قابل مبارکباد ہے نہ کہ قابل مذمت۔ ریاستی اداروں میں اگر کسی قسم کے اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو دانا اور عوام دوست ان اختلافات یا تضادات کو عوام کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے اہل فکر ان تضادات کو Status Quo توڑنے کے لیے استعمال کرنے والوں کو گالیاں بک رہے ہیں۔
کیا تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے علاوہ کوئی اور مائی کا لعل ہے جو ڈی چوک پر کھڑے ہو کر جعلی جمہوریت کے مورچے کو چیلنج کرے؟ یہی خوف ہے جس کی وجہ سے سارے سیاسی گندے انڈے ایک ٹوکری میں جمع ہو گئے ہیں اور جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ خطرے میں ہے کی دہائی دے رہے ہیں۔ اگر عمران اور قادری زرعی اصلاحات، بادشاہت کا خاتمہ، لوکل باڈیز کے الیکشن، انتخابی نظام میں تبدیلی، الیکشن کمیشن کی ازسر نوتشکیل اور لٹیروں کے کڑے احتساب کے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی اتنی بڑی کامیابی ہو گی کہ تاریخ انھیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔