سیلاب کے دنوں میں محبت
وہ اپنے جانوروں کی چال سے سمجھ جاتے ہیں کہ بارش کب ہونے والی ہے؟ ...
سیلاب کو سمجھنے کے لیے انسان کو ماہر موسمیات تو بالکل نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ محکمہ کہتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ موسم اس شعبے کی اکثر پیشن گوئیوں کے برعکس انگڑائیاں لیتا ہے۔ اس لیے حکومت کو پریشان کرنے والے اس محکمے کی باتیں وہ لوگ نہیں سنتے جو سیلابوں کے مدمقابل ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی اکثریت دیہاتوں میں بستی ہے انھیں بارش اور دریاؤں میں طغیانی کا پتہ لگانے کے لیے وہ نسخے کام آتے ہیں جو ان کے آباؤ اجداد سے انھیں ورثے میں ملے ہیں۔
وہ اپنے جانوروں کی چال سے سمجھ جاتے ہیں کہ بارش کب ہونے والی ہے؟ انھیں اپنے کینالوں میں تیرتی ہوئی مچھلیوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دریا کے تیور کیسے ہیں؟ مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ صدیوں سے دریا کے کنارے آباد ہیں اور ان کے جینے کا سہارا وہ دریا اور اس سے سیراب ہونے والے وہ کھیت ہیں جنہیں وہ کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کر کہاں جائیں؟ حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی امدادی کیمپس تو سرد جنگ کے دوران سیاسی مخالفین کے لیے قائم ہونے والی کنسنٹریشن کیمپس سے کسی طرح کم اذیت ناک نہیں ہوتیں۔
اس لیے وہ ان امدادی کیمپوں کا رخ کرنے کے بجائے وہاں پڑے رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ پانی کی سطح کم ہو تو وہ واپس اپنے ان گھروں کی طرف لوٹیں جہاں انھیں صرف سر چھپانے کے لیے نہیں بلکہ سیلاب جیسی اذیت میں دل کو بہلانے کے لیے بھی بہت کچھ مل جاتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سیلاب کی کیفیت کو صرف میڈیا کی بریکنگ نیوز بیان نہیں کرسکتی۔ اگر ہمیں سیلاب کو سمجھنا ہے تو ہمیں چند برس ان دیہی علاقوں میں رہائش کا تجربہ ہونا چاہیے جہاں یہ معمول کی بات ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیلاب سے مدمقابل ہونا کوئی آسان کام ہے۔ اس میں بڑی تکلیف آتی ہے۔ مگر جن لوگوں کی پوری زندگی تکلیف کا دوسرا نام ہوا کرتی ہے وہ شکایت نہیں کرتے۔
شہروں میں بسنے والے لوگ دیہاتی انسانوں کی تکالیف کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ شہری لوگوں کو تو پانی کے لیے صرف کچن اور باتھ روم میں ہاتھ کا اشارہ کرنا پڑتا ہے جب کہ ان انسانوں کو بہت دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔ شہروں میں تو لوگ گیس کے چولہے کی چابی گھماتے ہیں اور آگ پیدا ہوجاتی ہے مگر دیہاتوں میں گیلی لکڑیوں سے آگ کس طرح حاصل کی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب الفاظ میںبیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ یہ ساری باتیں تجربے کا تقاضہ کرتی ہیں اور ایسے تجربات بہت تلخ ہوتے ہیں جنہیں دیہاتوں میں رہنے والے انسان ہر دن دہراتے ہیں۔
گاؤں کی زندگی اور وہاں آنے والی مشکلات کا بیان ایک مختصر کالم میں کس طرح ممکن ہے؟ اس کے لیے ٹالسٹائی کے ناول جتنی تحریر کی ضرورت ہے اور شاید وہ بھی کم پڑجائے۔ کیوں کہ انسانی احساسات کو ایک مخصوص ماحول میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ اس تکلیف دہ ماحول میں جب شدید بارشیں ہوتی ہیں اور ندی نالوں میں طغیانی آجاتی اور پانی کا طاقتور ریلہ انسانی آبادیوں کی طرف پوری طاقت سے بڑھتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہوگا؟
ہم تو اس بات کا ٹھیک سے اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارے شہری قارئین کو ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ دیہاتوں میں بسنے والے لوگ فطرت سے لڑتے نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک ورکنگ ریلیشن بناتے ہیں۔ اس طرح فطرت کی کچھ باتیں وہ لوگ مانتے ہیںاور فطرت ان کی کچھ شرائط تسلیم کرلیتی ہے۔ اس طرح صدیوں سے دیہاتوں میں زندگی کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔
حکمرانوں کو یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ ان کے چند دنوں کے کھانے اور ان کی حکومت کی طرف سے دیے جانے والا معمولی سا سوکھا راشن ان انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہوتا ہے۔ مگر وہ لوگ کسی طرح سے گذارہ کرلیتے ہیں۔ انھیں سادگی سے جینے کا سلیقہ آتا ہے۔اور وہ لوگ کٹھن حالات میں اپنے دل کو بہلانے کا بندوبست بھی کرتے رہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو سیلاب انھیں بھی ان کے مکانوں کی طرح توڑ ڈالے اور انھیں بھی ان کے مال کی طرح بہا لے جائے۔ اس لیے وہ دونوں کام کرتے ہیں۔
ایک طرف سیلاب سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہیں اور دوسری سیلاب کے دنوں میں نئی محبتوں کے سلسلے بناتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ بات عجیب لگے اور آپ کو غصہ بھی آئے کہ ایک طرف میڈیا پر سیلاب متاثرین کے حوالے سے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی رپورٹس پیش ہو رہی ہیں اور میں اس موضوع پر بھی محبت کاتذکرہ چھیڑ رہا ہوں تو ایسے حضرات کو انسانی ہمدردی کے حوالے سے ہی سہی مگر چند روز سیلابی علاقوں میں ان لوگوں کے ساتھ گذارنے چاہیے۔ اس کے بعد وہ جان پائیں گے کہ سیلاب کے دنوں میں محبت کیسی ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟
گارشیا مارکیز نے بھی تو Love in the Time of Cholera کے عنوان سے ناول لکھا تھا۔ اگر وبا کے دنوں میں اور وہ بھی کالرا جیسی وبا کے دوران محبت ہو سکتی ہے تو سیلاب کے دوران معاشقے کیوں نہیں ہوسکتے؟ اور ہوتے ہیں۔ ان معاشقوں کا تو مزہ ہی اور ہوتا ہے۔ آخر انسان کو صرف روٹی ہی نہیں چاہیے۔ انسان کے پاس صرف پیٹ تو نہیں۔ اس کی فطری ضروریات اور بھی ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کے لیے جب سیلاب کے دوران محبت کرتے ہیں تو ان کے لیے سب سے مشکل صورتحال یہ ہوتی ہے کہ وہ کہاں جائیں؟
دیہاتوں میں جب سیلاب نہیں ہوتا اس وقت تو حد نظر تک موجود کھیت انھیں پردہ فراہم کرتے ہیں مگر جب سارے کھیت ڈوب جائیں۔ جب خشکی کا نام و نشاں باقی نہ بچے تو اس وقت انھیں کام میں آتی ہیں کشتیاں جو انھیں بہت دور لے جاتی ہیں اور کشتیوں میں جب دو محبت کرنے والے ملتے ہیں تو ان کے ملاپ کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
راقم الحروف اس وقت کسی اعتراف کے موڈ میں نہیں ہے ورنہ تلخ حالات میں شیریں تجربے بہت ہیں۔ جس شخص نے بھی سیلاب کے دنوں میں محبت کی ہوگی وہ اس تجربے کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔ جس طرح پریشان لوگوں کی بھیڑ میں دو چاہنے والوں کی آنکھیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور وہ بغیر موبائل فون کے ایک دوسرے سے دل کی بات کہہ دیتے ہیں اور انھیں پیار کے پروگرام کی سیٹنگ کے لیے کسی ایس ایم ایس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ہاتھ تک نہیں ہلاتے اور پلکیں تک نہیں جھپکاتے مگر دل سے دل کی بات ہوجاتی ہے اور مقررہ وقت پر ایک مچھیرن گاؤں کے کسی خوبصورت نوجوان کو اپنی کشتی میں بٹھا کر بہت دور لے جاتی ہے اور وہ کشتی محبت کا جھولا بن جاتی ہے۔
اس ماحول میں اس قسم کی محبت کرنے والے لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ پانی آہستہ آہستہ سوکھے تاکہ ان کی یہ ملاقاتیں قائم رہیں۔ مگر فطرت کے اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ پانی سوکھ جاتا ہے۔ ملاح اپنے مسکن کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور سیلاب میں ہونے والی محبت ایک جدائی کا زخم سہنے کے بعد اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ایسی محبتوں پر کالم لکھنے کا کام بہت کٹھن ہے ۔ ایسی محبتیں ادبی تحریروں کا تقاضہ کرتی ہیں۔ مگر کیا صحافت ادب سے جڑ کر نہیں کی جاسکتی؟ صحافت صرف انسانوں کے آنسوؤں کا عکس پیش کرنے کے لیے تو نہیں۔
اس میں گنجائش ہونی چاہیے ان مسکراہٹوں کو بھی سمانے کے لیے جو ہم مشکل حالات میں اپنے ہونٹوں پر سجاتے ہیں۔ مگر میرے اس کالم کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ دیہاتوں میں سیلاب محبت کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح تو ان انسانوںکے ساتھ بہت زیادتی ہوگی جس کی عمر بھر کی پونجی پانی میں بہہ جاتی ہے۔ اس کالم کا مقصد صرف یہ بات بیان کرنا ہے کہ لوگ محبت کرتے ہیں اور سیلاب کے دنوں میں بھی کرتے ہیں۔ شاید یہ محبت ہی ہے جو انھیں سخت حالات میں جینے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ اگر وہ ان حالات میں محبت نہ کریں تو شاید زندہ بھی نہ رہ پائیں۔ اس لیے محبت ان کا حق بھی ہے اور ضرورت بھی۔
وہ اپنے جانوروں کی چال سے سمجھ جاتے ہیں کہ بارش کب ہونے والی ہے؟ انھیں اپنے کینالوں میں تیرتی ہوئی مچھلیوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دریا کے تیور کیسے ہیں؟ مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ صدیوں سے دریا کے کنارے آباد ہیں اور ان کے جینے کا سہارا وہ دریا اور اس سے سیراب ہونے والے وہ کھیت ہیں جنہیں وہ کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کر کہاں جائیں؟ حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی امدادی کیمپس تو سرد جنگ کے دوران سیاسی مخالفین کے لیے قائم ہونے والی کنسنٹریشن کیمپس سے کسی طرح کم اذیت ناک نہیں ہوتیں۔
اس لیے وہ ان امدادی کیمپوں کا رخ کرنے کے بجائے وہاں پڑے رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ پانی کی سطح کم ہو تو وہ واپس اپنے ان گھروں کی طرف لوٹیں جہاں انھیں صرف سر چھپانے کے لیے نہیں بلکہ سیلاب جیسی اذیت میں دل کو بہلانے کے لیے بھی بہت کچھ مل جاتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سیلاب کی کیفیت کو صرف میڈیا کی بریکنگ نیوز بیان نہیں کرسکتی۔ اگر ہمیں سیلاب کو سمجھنا ہے تو ہمیں چند برس ان دیہی علاقوں میں رہائش کا تجربہ ہونا چاہیے جہاں یہ معمول کی بات ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیلاب سے مدمقابل ہونا کوئی آسان کام ہے۔ اس میں بڑی تکلیف آتی ہے۔ مگر جن لوگوں کی پوری زندگی تکلیف کا دوسرا نام ہوا کرتی ہے وہ شکایت نہیں کرتے۔
شہروں میں بسنے والے لوگ دیہاتی انسانوں کی تکالیف کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ شہری لوگوں کو تو پانی کے لیے صرف کچن اور باتھ روم میں ہاتھ کا اشارہ کرنا پڑتا ہے جب کہ ان انسانوں کو بہت دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔ شہروں میں تو لوگ گیس کے چولہے کی چابی گھماتے ہیں اور آگ پیدا ہوجاتی ہے مگر دیہاتوں میں گیلی لکڑیوں سے آگ کس طرح حاصل کی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب الفاظ میںبیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ یہ ساری باتیں تجربے کا تقاضہ کرتی ہیں اور ایسے تجربات بہت تلخ ہوتے ہیں جنہیں دیہاتوں میں رہنے والے انسان ہر دن دہراتے ہیں۔
گاؤں کی زندگی اور وہاں آنے والی مشکلات کا بیان ایک مختصر کالم میں کس طرح ممکن ہے؟ اس کے لیے ٹالسٹائی کے ناول جتنی تحریر کی ضرورت ہے اور شاید وہ بھی کم پڑجائے۔ کیوں کہ انسانی احساسات کو ایک مخصوص ماحول میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ اس تکلیف دہ ماحول میں جب شدید بارشیں ہوتی ہیں اور ندی نالوں میں طغیانی آجاتی اور پانی کا طاقتور ریلہ انسانی آبادیوں کی طرف پوری طاقت سے بڑھتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہوگا؟
ہم تو اس بات کا ٹھیک سے اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارے شہری قارئین کو ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ دیہاتوں میں بسنے والے لوگ فطرت سے لڑتے نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک ورکنگ ریلیشن بناتے ہیں۔ اس طرح فطرت کی کچھ باتیں وہ لوگ مانتے ہیںاور فطرت ان کی کچھ شرائط تسلیم کرلیتی ہے۔ اس طرح صدیوں سے دیہاتوں میں زندگی کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔
حکمرانوں کو یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ ان کے چند دنوں کے کھانے اور ان کی حکومت کی طرف سے دیے جانے والا معمولی سا سوکھا راشن ان انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہوتا ہے۔ مگر وہ لوگ کسی طرح سے گذارہ کرلیتے ہیں۔ انھیں سادگی سے جینے کا سلیقہ آتا ہے۔اور وہ لوگ کٹھن حالات میں اپنے دل کو بہلانے کا بندوبست بھی کرتے رہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو سیلاب انھیں بھی ان کے مکانوں کی طرح توڑ ڈالے اور انھیں بھی ان کے مال کی طرح بہا لے جائے۔ اس لیے وہ دونوں کام کرتے ہیں۔
ایک طرف سیلاب سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرتے ہیں اور دوسری سیلاب کے دنوں میں نئی محبتوں کے سلسلے بناتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ بات عجیب لگے اور آپ کو غصہ بھی آئے کہ ایک طرف میڈیا پر سیلاب متاثرین کے حوالے سے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی رپورٹس پیش ہو رہی ہیں اور میں اس موضوع پر بھی محبت کاتذکرہ چھیڑ رہا ہوں تو ایسے حضرات کو انسانی ہمدردی کے حوالے سے ہی سہی مگر چند روز سیلابی علاقوں میں ان لوگوں کے ساتھ گذارنے چاہیے۔ اس کے بعد وہ جان پائیں گے کہ سیلاب کے دنوں میں محبت کیسی ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟
گارشیا مارکیز نے بھی تو Love in the Time of Cholera کے عنوان سے ناول لکھا تھا۔ اگر وبا کے دنوں میں اور وہ بھی کالرا جیسی وبا کے دوران محبت ہو سکتی ہے تو سیلاب کے دوران معاشقے کیوں نہیں ہوسکتے؟ اور ہوتے ہیں۔ ان معاشقوں کا تو مزہ ہی اور ہوتا ہے۔ آخر انسان کو صرف روٹی ہی نہیں چاہیے۔ انسان کے پاس صرف پیٹ تو نہیں۔ اس کی فطری ضروریات اور بھی ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کے لیے جب سیلاب کے دوران محبت کرتے ہیں تو ان کے لیے سب سے مشکل صورتحال یہ ہوتی ہے کہ وہ کہاں جائیں؟
دیہاتوں میں جب سیلاب نہیں ہوتا اس وقت تو حد نظر تک موجود کھیت انھیں پردہ فراہم کرتے ہیں مگر جب سارے کھیت ڈوب جائیں۔ جب خشکی کا نام و نشاں باقی نہ بچے تو اس وقت انھیں کام میں آتی ہیں کشتیاں جو انھیں بہت دور لے جاتی ہیں اور کشتیوں میں جب دو محبت کرنے والے ملتے ہیں تو ان کے ملاپ کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
راقم الحروف اس وقت کسی اعتراف کے موڈ میں نہیں ہے ورنہ تلخ حالات میں شیریں تجربے بہت ہیں۔ جس شخص نے بھی سیلاب کے دنوں میں محبت کی ہوگی وہ اس تجربے کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔ جس طرح پریشان لوگوں کی بھیڑ میں دو چاہنے والوں کی آنکھیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور وہ بغیر موبائل فون کے ایک دوسرے سے دل کی بات کہہ دیتے ہیں اور انھیں پیار کے پروگرام کی سیٹنگ کے لیے کسی ایس ایم ایس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ہاتھ تک نہیں ہلاتے اور پلکیں تک نہیں جھپکاتے مگر دل سے دل کی بات ہوجاتی ہے اور مقررہ وقت پر ایک مچھیرن گاؤں کے کسی خوبصورت نوجوان کو اپنی کشتی میں بٹھا کر بہت دور لے جاتی ہے اور وہ کشتی محبت کا جھولا بن جاتی ہے۔
اس ماحول میں اس قسم کی محبت کرنے والے لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ پانی آہستہ آہستہ سوکھے تاکہ ان کی یہ ملاقاتیں قائم رہیں۔ مگر فطرت کے اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ پانی سوکھ جاتا ہے۔ ملاح اپنے مسکن کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور سیلاب میں ہونے والی محبت ایک جدائی کا زخم سہنے کے بعد اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ایسی محبتوں پر کالم لکھنے کا کام بہت کٹھن ہے ۔ ایسی محبتیں ادبی تحریروں کا تقاضہ کرتی ہیں۔ مگر کیا صحافت ادب سے جڑ کر نہیں کی جاسکتی؟ صحافت صرف انسانوں کے آنسوؤں کا عکس پیش کرنے کے لیے تو نہیں۔
اس میں گنجائش ہونی چاہیے ان مسکراہٹوں کو بھی سمانے کے لیے جو ہم مشکل حالات میں اپنے ہونٹوں پر سجاتے ہیں۔ مگر میرے اس کالم کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ دیہاتوں میں سیلاب محبت کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح تو ان انسانوںکے ساتھ بہت زیادتی ہوگی جس کی عمر بھر کی پونجی پانی میں بہہ جاتی ہے۔ اس کالم کا مقصد صرف یہ بات بیان کرنا ہے کہ لوگ محبت کرتے ہیں اور سیلاب کے دنوں میں بھی کرتے ہیں۔ شاید یہ محبت ہی ہے جو انھیں سخت حالات میں جینے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ اگر وہ ان حالات میں محبت نہ کریں تو شاید زندہ بھی نہ رہ پائیں۔ اس لیے محبت ان کا حق بھی ہے اور ضرورت بھی۔