صیہونی جارحیت کی داستان فتح عظیم آخری حصہ
دفاع فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں نے جو کہا وہ کر دکھایا اور اب کی بار ہونے والی اس جنگ میں تنہا فلسطینیوں نے ...
جولائی 2014 میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کی جانے والی یک طرفہ جنگ کے جواب میں دفاع فلسطین اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول جہاد اسلامی فلسطین، حماس، عزالدین القسام نے واضح کر دیا تھا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد اب صرف غزہ کے لوگ حملوں کے زدمیں نہ ہوں گے اورنہ اہل غزہ اوران کے باشندے اسرائیلی جنگی جہازوں کے بمباری اورمیزائلوں کے حملوں کو تنہا برداشت کریں گے، بلکہ صہیونی نظام بھی آگ اور میزائلوں کی زد میں ہوگا اور صہیونیوں کی اہم تنصیبات اور مقامات بھی اسلامی مزاحمت کے میزائلوں کا نشانہ بنیں گے اور انھیں میزائلی حملوں اور شدیدگولہ باری برداشت کرنا ہوگی، اب صرف غزہ کے مظلومین سفر اور دیگر تکالیف کو تنہا محسوس نہیں کریں گے بلکہ صہیونیوں کو بھی پناہ لینے اور سفر میں جانے کے درد و تکلیف کو اٹھانا ہوگا۔
دفاع فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں نے جو کہا وہ کر دکھایا اور اب کی بار ہونے والی اس جنگ میں تنہا فلسطینیوں نے درد و تکلیف کو محسوس نہیں کیا بلکہ پورے کا پورا صہیونی نظام اسلامی مزحمت کاروں کے نشانے پر تھا، ابھی غزہ پر صہیونی حملوں اور جارحیت کا دوسرا دن نہیں گزرا تھا کہ صہیونی علاقے آگ اور میزائلی حملوں میں گھرنے لگے جو کسی رحم کے بغیر اسے دستک دے رہے تھے، دوسری طرف مزاحمت کار کسی خوف کے بغیر صہیونیوں پر اپنے راکٹ داغ رہے تھے اور جو بغیر بھول وچوک کے صہیونیوں کے اہم مقامات تک جاپہنچتے تھے۔
اس مرتبہ اسرائیلی انتظامیہ بھی یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ غزہ پر صہیونی فوجیوں کے آپریشن کے جواب میں دفاع فلسطین کی طرف سے ضرور جواب ملے گا اور دفاع فلسطین خاموش نہیں بیٹھے گی اور اسرائیل کی طرف سے گرائے جانے والے میزائلوں کی تعداد پر تماشائی بن کر نہیں رہے گی اور نہ ہی شہید ہونے والوں کے ناموں کو محفوظ کرنے پر اکتفا کرے گی بلکہ اس کا منہ توڑ جواب دے گی اور دشمن کے اہداف کو میزائلوں سے نشانہ بنائے گی۔
اس مرتبہ کی جنگ میں دشمن کے فوجی کمانڈروں کو توقع تھی کہ فلسطینی دفاع کے میزائل غزہ کے اطراف میں واقع یہودی بستیوں یا تل ابیب تک پہنچ جائیں گے اور غزہ پر اسرائیلی فوج کی طرف سے عائد کردہ بدترین اور شدید حالات کی وجہ سے دفاع فلسطین میں نشانہ صحیح لینے کی سکت نہ ہوگی اور وہ چھوٹے میزائل جن کے اثرات محدود زمین پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں گے اور بڑے میزائل جن کے وزن زیادہ اور تباہی کا دائرہ وسیع ہے، استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں آئیں گے کیونکہ اسرائیل کے ایواکس طیارے اور اینٹی میزائل سسٹم ہر ہدف کو اپنا نشانہ بناسکیں گے اور فلسطینیوں کی طرف سے چھوڑنے والے راکٹ اور میزائلوں کے لانچنگ پیڈ کا کھوج لگاکر اسے تباہ کردیا جائے گا، لیکن تمام تر جدید سہولیات اور ٹیکنالوجی کے باوجود و اسرائیل فلسطینی دفاع کے ایجادکردہ زمینی لانچنگ پیڈ کاکھوج لگانے میں ناکام رہا۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمت کاروں نے غزہ پر صہیونی جنگ مسلط کیے جانے کے جواب میں اسرائیل کے متعدد اہم مقامات جس میں خود بن گورین ایئرپورٹ بھی شامل ہے، کو نشانہ بنایا اور اسی طرح مزاحمت کاروں کے درجنوں میزائل ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی کامیاب کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے حیفا میں صیہونیوں نے میزائلوں کے ڈرسے کئی راتیں جاگ کر گزاری کیونکہ فلسطینی دفاع نے اسے میزائلوں کا ہدف بنانے کی دھمکی دی ہوئی تھی۔ فلسطینی دفاع نے انھیں کہا تھا کہ اس کا اگلا نشانہ حیفا اور اس کے شمالی علاقے میں واقع دیمونا شہر ہے جس میں اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات واقع ہیں۔
جولائی 2014 کی 51 روزہ جنگ میں فلسطینی اسلامی مزاحمت کاروں نے جو کچھ بھی انجام دیا یہ صرف ایک حصہ تھا جب کہ ابھی فلسطینیوں کے پاس سرپرائز دینے کے لیے بہت کچھ ہے صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کے ہمنوائوں کی توقعات سے بڑھ کر ہے۔
غزہ کی پٹی پے درپے اسرائیلی غاصبانہ حملوں کی وجہ سے آگ میں جھلستی رہی، اسرائیل کسی تفریق کے بغیر ہر ایک ہر چیز کو نشانہ بنارہا تھا جب کہ عرب تنظیموں نے چپ سادھ لی تھی، اور صرف تماشائی کا رول ادا کررہے تھے یا بے بسی کا نقشہ بنے ہوئے تھے۔ عرب ریاستوں نے کچھ کرنے کی کوشش کی نہ ہی ان میں احتجاج کی طاقت تھی کہ فلسطینیوں کے حق میں کم از کم احتجاج ہی کرتے، یا بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کرتے کہ جلدی میدان میں کود پڑیں اور صہیونی جارحیت کو روکیں، فلسطینی علاقوں کو اپنا نشانہ اور فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے جنگی آلات کو روکیں اور تباہ شدہ عمارتوں کو مزید تباہ کرنے اور خراب کرنے سے گریز کریں۔ لیکن افسوس کہ ایسی کوئی آواز بلکہ کوئی بھی آواز عرب حکمرانوں کی جانب سے سنائی نہ دی اور مظلوم فلسطینی صہیونیوں کی ظلم کی چکی میں پستے رہے۔
آج تک کسی عرب ملک یا حکام کی طرف سے کسی قسم کا احتجاج اور مذمت سامنے نہیں آئی ہے اور ہی نہ کسی حاکم کی طرف سے کوئی فوری اقدام اور یکجہتی کا اظہار کرنے کا مطالبہ پیش کیا گیا۔
مجھے کسی اسرائیلی کی سچائی کا گواہ بننے کا ارادہ نہیں کیونکہ تمام اسرائیلی جھوٹے ہیں چاہے وہ سچ کیوں نہ بولیں، کیونکہ وہ صرف اپنے مفاد اور ہمارے خلاف بات کرتے ہیں، وہ بات جو ہمارے لیے نقصان اور ان کے لیے فائدہ مند ہو۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس سائٹ دیپکا نے حال ہی میں لکھا ہے: اسرائیلی حکومت نے بعض عرب حکمرانوں کو غزہ پر حملے کی نیت سے آگاہ کردیا تھا اور بعض عرب حکمرانوں نے اسرائیلی حملوں کی وجوہات کے بارے میں انھی عرب حکمرانوں نے غزہ پر حملے کی ابتدائی اجازت بھی دے دی۔ کیونکہ انھوں نے اسرائیل کے بیان کردہ حقائق کو سچ مانتے ہوئے اور ان کی شکایتوں کو ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہوئے کہ یہ فلسطینی مقاومت اور دفاع جہاد کی وجہ سے اسرائیل کو اس اقدام پر مجبور کردیا ہے، اور ان کے آپریشن اسرائیل کو ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے جس کی وجہ سے صہیونی نظام کے پاس اپنی دفاع اور قوم کی حمایت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔
ایک دوسرا اسرائیلی عہدیدار جو ان کے درمیان ایک انتہاپسند کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، کے کہنے کے مطابق بعض عربی تنظیمیں غزہ میں ہونے والی صورت حال سے خوش ہیں بلکہ وہ نہایت بے چینی سے حماس تنظیم کی تباہی اور بازو شل ہونے اور اس کے دورے کے خاتمے اور اس کا درخشاں ستارہ ڈوبنے کا اشد انتظار کررہی ہیں، وہ اسے الگ کرنے کے لیے فکرمند ہیں اور طاقت کے استعمال کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
وہ حماس کی وجہ سے بیزار ہیں، اس کی استقامت اور پائیداری نے انھیں تھکادیا ہے، اس کی ثابت قدمی ان کے لیے رکاوٹ بنتی جارہی ہے اور اس کی وابستگی ان کے لیے دردسر بنی ہوئی ہے، تو ان کی نظر میں عمدہ انتخاب اور بہترین حل یہی ہے کہ حماس کوچ کرجائیں۔ اسرائیلی ہمارے دشمن تو ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی سچ نہیں بول سکتے ہم سے نفرت کرتے ہیں، مگر کبھی کبھی وہ بات کہہ دیتے ہیں جس کی کہنے کی جرات دوسروں میں نہیں ہوتی یا باتوں باتوں میں رسوا کرنے والی باتیں کہہ دیتے ہیں اور ان کے خیالات کے درمیان سے بعض رازوں سے پردہ اٹھتا ہے۔ اب اگردیکھیں تو کوئی عرب تنظیم نہیں جو اس المناک لمحات میں ہمارے ساتھ کھڑی ہوجائے اور ہماری نصرت کے لیے کوشش کرے۔
دفاع فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں نے جو کہا وہ کر دکھایا اور اب کی بار ہونے والی اس جنگ میں تنہا فلسطینیوں نے درد و تکلیف کو محسوس نہیں کیا بلکہ پورے کا پورا صہیونی نظام اسلامی مزحمت کاروں کے نشانے پر تھا، ابھی غزہ پر صہیونی حملوں اور جارحیت کا دوسرا دن نہیں گزرا تھا کہ صہیونی علاقے آگ اور میزائلی حملوں میں گھرنے لگے جو کسی رحم کے بغیر اسے دستک دے رہے تھے، دوسری طرف مزاحمت کار کسی خوف کے بغیر صہیونیوں پر اپنے راکٹ داغ رہے تھے اور جو بغیر بھول وچوک کے صہیونیوں کے اہم مقامات تک جاپہنچتے تھے۔
اس مرتبہ اسرائیلی انتظامیہ بھی یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ غزہ پر صہیونی فوجیوں کے آپریشن کے جواب میں دفاع فلسطین کی طرف سے ضرور جواب ملے گا اور دفاع فلسطین خاموش نہیں بیٹھے گی اور اسرائیل کی طرف سے گرائے جانے والے میزائلوں کی تعداد پر تماشائی بن کر نہیں رہے گی اور نہ ہی شہید ہونے والوں کے ناموں کو محفوظ کرنے پر اکتفا کرے گی بلکہ اس کا منہ توڑ جواب دے گی اور دشمن کے اہداف کو میزائلوں سے نشانہ بنائے گی۔
اس مرتبہ کی جنگ میں دشمن کے فوجی کمانڈروں کو توقع تھی کہ فلسطینی دفاع کے میزائل غزہ کے اطراف میں واقع یہودی بستیوں یا تل ابیب تک پہنچ جائیں گے اور غزہ پر اسرائیلی فوج کی طرف سے عائد کردہ بدترین اور شدید حالات کی وجہ سے دفاع فلسطین میں نشانہ صحیح لینے کی سکت نہ ہوگی اور وہ چھوٹے میزائل جن کے اثرات محدود زمین پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں گے اور بڑے میزائل جن کے وزن زیادہ اور تباہی کا دائرہ وسیع ہے، استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں آئیں گے کیونکہ اسرائیل کے ایواکس طیارے اور اینٹی میزائل سسٹم ہر ہدف کو اپنا نشانہ بناسکیں گے اور فلسطینیوں کی طرف سے چھوڑنے والے راکٹ اور میزائلوں کے لانچنگ پیڈ کا کھوج لگاکر اسے تباہ کردیا جائے گا، لیکن تمام تر جدید سہولیات اور ٹیکنالوجی کے باوجود و اسرائیل فلسطینی دفاع کے ایجادکردہ زمینی لانچنگ پیڈ کاکھوج لگانے میں ناکام رہا۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمت کاروں نے غزہ پر صہیونی جنگ مسلط کیے جانے کے جواب میں اسرائیل کے متعدد اہم مقامات جس میں خود بن گورین ایئرپورٹ بھی شامل ہے، کو نشانہ بنایا اور اسی طرح مزاحمت کاروں کے درجنوں میزائل ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی کامیاب کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے حیفا میں صیہونیوں نے میزائلوں کے ڈرسے کئی راتیں جاگ کر گزاری کیونکہ فلسطینی دفاع نے اسے میزائلوں کا ہدف بنانے کی دھمکی دی ہوئی تھی۔ فلسطینی دفاع نے انھیں کہا تھا کہ اس کا اگلا نشانہ حیفا اور اس کے شمالی علاقے میں واقع دیمونا شہر ہے جس میں اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات واقع ہیں۔
جولائی 2014 کی 51 روزہ جنگ میں فلسطینی اسلامی مزاحمت کاروں نے جو کچھ بھی انجام دیا یہ صرف ایک حصہ تھا جب کہ ابھی فلسطینیوں کے پاس سرپرائز دینے کے لیے بہت کچھ ہے صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کے ہمنوائوں کی توقعات سے بڑھ کر ہے۔
غزہ کی پٹی پے درپے اسرائیلی غاصبانہ حملوں کی وجہ سے آگ میں جھلستی رہی، اسرائیل کسی تفریق کے بغیر ہر ایک ہر چیز کو نشانہ بنارہا تھا جب کہ عرب تنظیموں نے چپ سادھ لی تھی، اور صرف تماشائی کا رول ادا کررہے تھے یا بے بسی کا نقشہ بنے ہوئے تھے۔ عرب ریاستوں نے کچھ کرنے کی کوشش کی نہ ہی ان میں احتجاج کی طاقت تھی کہ فلسطینیوں کے حق میں کم از کم احتجاج ہی کرتے، یا بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کرتے کہ جلدی میدان میں کود پڑیں اور صہیونی جارحیت کو روکیں، فلسطینی علاقوں کو اپنا نشانہ اور فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے جنگی آلات کو روکیں اور تباہ شدہ عمارتوں کو مزید تباہ کرنے اور خراب کرنے سے گریز کریں۔ لیکن افسوس کہ ایسی کوئی آواز بلکہ کوئی بھی آواز عرب حکمرانوں کی جانب سے سنائی نہ دی اور مظلوم فلسطینی صہیونیوں کی ظلم کی چکی میں پستے رہے۔
آج تک کسی عرب ملک یا حکام کی طرف سے کسی قسم کا احتجاج اور مذمت سامنے نہیں آئی ہے اور ہی نہ کسی حاکم کی طرف سے کوئی فوری اقدام اور یکجہتی کا اظہار کرنے کا مطالبہ پیش کیا گیا۔
مجھے کسی اسرائیلی کی سچائی کا گواہ بننے کا ارادہ نہیں کیونکہ تمام اسرائیلی جھوٹے ہیں چاہے وہ سچ کیوں نہ بولیں، کیونکہ وہ صرف اپنے مفاد اور ہمارے خلاف بات کرتے ہیں، وہ بات جو ہمارے لیے نقصان اور ان کے لیے فائدہ مند ہو۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس سائٹ دیپکا نے حال ہی میں لکھا ہے: اسرائیلی حکومت نے بعض عرب حکمرانوں کو غزہ پر حملے کی نیت سے آگاہ کردیا تھا اور بعض عرب حکمرانوں نے اسرائیلی حملوں کی وجوہات کے بارے میں انھی عرب حکمرانوں نے غزہ پر حملے کی ابتدائی اجازت بھی دے دی۔ کیونکہ انھوں نے اسرائیل کے بیان کردہ حقائق کو سچ مانتے ہوئے اور ان کی شکایتوں کو ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہوئے کہ یہ فلسطینی مقاومت اور دفاع جہاد کی وجہ سے اسرائیل کو اس اقدام پر مجبور کردیا ہے، اور ان کے آپریشن اسرائیل کو ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے جس کی وجہ سے صہیونی نظام کے پاس اپنی دفاع اور قوم کی حمایت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔
ایک دوسرا اسرائیلی عہدیدار جو ان کے درمیان ایک انتہاپسند کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، کے کہنے کے مطابق بعض عربی تنظیمیں غزہ میں ہونے والی صورت حال سے خوش ہیں بلکہ وہ نہایت بے چینی سے حماس تنظیم کی تباہی اور بازو شل ہونے اور اس کے دورے کے خاتمے اور اس کا درخشاں ستارہ ڈوبنے کا اشد انتظار کررہی ہیں، وہ اسے الگ کرنے کے لیے فکرمند ہیں اور طاقت کے استعمال کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
وہ حماس کی وجہ سے بیزار ہیں، اس کی استقامت اور پائیداری نے انھیں تھکادیا ہے، اس کی ثابت قدمی ان کے لیے رکاوٹ بنتی جارہی ہے اور اس کی وابستگی ان کے لیے دردسر بنی ہوئی ہے، تو ان کی نظر میں عمدہ انتخاب اور بہترین حل یہی ہے کہ حماس کوچ کرجائیں۔ اسرائیلی ہمارے دشمن تو ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی سچ نہیں بول سکتے ہم سے نفرت کرتے ہیں، مگر کبھی کبھی وہ بات کہہ دیتے ہیں جس کی کہنے کی جرات دوسروں میں نہیں ہوتی یا باتوں باتوں میں رسوا کرنے والی باتیں کہہ دیتے ہیں اور ان کے خیالات کے درمیان سے بعض رازوں سے پردہ اٹھتا ہے۔ اب اگردیکھیں تو کوئی عرب تنظیم نہیں جو اس المناک لمحات میں ہمارے ساتھ کھڑی ہوجائے اور ہماری نصرت کے لیے کوشش کرے۔