بھاری ٹیکسوں سے کمپیوٹر انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی
استعمال شدہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور پارٹس کی قیمتوں میں اضافے سے قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں عائد کردہ بھاری ٹیکسوں کے باعث کمپیوٹرز انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چُکی ہے اور مارکیٹ میں استعمال شُدہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ان کے پارٹس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ساتھ ساتھ آئی ٹی مصنوعات کی شدید قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔
جبکہ پاکستان کمپیوٹرز ایسوسی ایشن نے کاوربار کو تباہی سے بچانے کے لیے چیئرمین ایف بی آر کو مداخلت کرکے معاملات حل کرنے کی اپیل کی ہے اور تجویز دی ہے کہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ اور ایکسیسریز کی درآمد کے لیے فکس ٹیکس اسکیم متعارف کرائی جائے۔پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن کے صدر منور اقبال نے ایف بی آر کے ماتحت ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی طرف سے استعمال شُدہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ و ایکسیسریز کے کاروباری یونٹس و درآمد کنندگان کے خلاف شروع کی جانے والی مہم سے شدید خوف وہراس پھیل گیا ہے اور لوگوں نے کاروباری یونٹ بند کرنا شروع کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے انٹیلی جننس حکام کی طرف سے ملک کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ و ایکسیسریز انڈسٹری و کاروباری یونٹس کے خلاف غیر معقول ٹیکس پالیسی کے غیر ٖضروری نفاذ باعث اندارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق سامان کی درآمد میں اور دستاویزی تجارت میں بے پناہ کمی واقع ہوئی ہے جس سے ٹیکس کی آمدنی میں بھی کمی آئی ہے۔
پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن(پی سی اے) کے مرکزی صدر منور اقبال نے یہاں اسلام آباد میں اپنے بیان میں بتایا کہ انہوں نے ایف بی آر کے چئر مین طارق باجواہ سے درخواست کی ہے کہ وہ مداخلت کر کہ کمپیوٹر کے تاجروں اور دکانداروں کو ٹیکس حکام کی جانب سے ٹیکس پالیسی کے غلط استعمال اور نفاذ کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی مکمل تباہی سے بچائیں اور ایسے وقت میں جب کہ کمپیوٹر کے سامان کی درآمد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
ایف بی آرکی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے کمپیوٹر ہارڈ ویئر اور متعلقہ سامان کے درآمد کنندگان کے خلاف مبینہ ٹیکس عدم ادائیگی کے الزام میں کارروائی جاری ہے۔ ا س کے ساتھ ساتھ آر ٹی او آفس اسلام آباد نے بھی کمپیوٹر تاجروں کے خلاف ڈمی یونٹوں سے خریداری سے متعلق ناقابل قبول سیلز ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کے دعوے کے جواب میں کیس قائم کیے ہیں۔ پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن کے مطابق یہ ڈمی یونٹ خریداری کے وقت بلیک لسٹ میں نہیں تھے یہ بات غیر قانونی ہے کہ ان یونٹوں کے خلاف اس بنا پر کارروائی کی جائے کہ یہ خریداری غیر قانونی یونٹوں سے کی گئی ہے۔
پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن کے صدر نے سوال کیا کہ ایک خریدار کو کیسے معلوم ہوگا کہ سپلائی کرنیوالا یونٹ خریداری کے دو سے تین سال بعد بلیک لسٹ ہو جائیگا۔ کمپیوٹر تاجروں کے خلاف اسطرح کی غیر قانونی نفاذ کی کارروائی کسی بھی طرح سیلز ٹیکس کی کسی بھی شک کے زمرے میں نہیں آتی جب کہ خریدوفروخت ماضی میں باقاعدہ دستاویزی کارروائی کے نتیجے میں عمل میں آئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب کمپیوٹر انڈسٹری متعدد مسائل کا شکار ہے جن میں غلط ٹیکس پالیسی، ٹیکس نوٹسز کا اجراء، ایف بی آرکی طرف سے قانونی نوٹس اور تاجروں کو حراساں کرنے جیسے اقدامات کے باعث ایف بی آر کی مجموعی آمدنی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جبکہ دوسری جانب کمپیوٹر کی اشیا اور الائیڈ سامان مارکیٹ سے غائب ہو گیا ہے جس کے باعث صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ قوانین کے ذریعے کمپیوٹر تاجروں کو بہت ھراسا ں کیا جارہا ہے۔ تاجروں نے پہلے ہی سامان کی درآمد بند کر دی ہے جس کے باعث کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ان کے پارٹس مارکیٹ میں میسر نہیں ہیں۔
منور اقبال نے کہا کہ ایک طرف آر ٹی او تاجروں کو قانونی نوٹس جاری کر رہا ہے، تو دوسری طرف ٹیکس ڈپارٹمنٹ سیلز ٹیکس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق جھوٹے مقدمے درج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایف بی آر کے چئرمین نے مداخلت نہ کی اور تاجرون کی شکایت کا ازالا نہ کیا تو پھر اس سیکٹر سے قومی بجٹ 2014-15کی مجموعی آمدنی میں بہت کمی واقع ہوگی۔ علاوہ ازیں کمپیوٹر کے سامان کی دستاویزی وریگولیٹری درآمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کمپیوٹرز کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں مجموعی طور پر 27 ٹیکس عائد ہیں جس میں 17فیصدجنرل سیلز ٹیکس ، 3 فیصدویلیوایڈڈ ٹیکس ،5.5 فیصد انکم ٹیکس 0.85 فیصد سندھ ایکسائز ڈیوٹی اور دیگر متفرق اخراجات 0.65 فیصد شامل ہیں جس کے باعث قانونی طریقے سے کمپیوٹر درآمد میں حوصلہ شکنی ہوگی اور اسمگلنگ کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ اور ایکسیسریز کی درآمد کے لیے فکس ٹیکس اسکیم متعارف کروائی جائے ۔
جبکہ پاکستان کمپیوٹرز ایسوسی ایشن نے کاوربار کو تباہی سے بچانے کے لیے چیئرمین ایف بی آر کو مداخلت کرکے معاملات حل کرنے کی اپیل کی ہے اور تجویز دی ہے کہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ اور ایکسیسریز کی درآمد کے لیے فکس ٹیکس اسکیم متعارف کرائی جائے۔پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن کے صدر منور اقبال نے ایف بی آر کے ماتحت ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی طرف سے استعمال شُدہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ و ایکسیسریز کے کاروباری یونٹس و درآمد کنندگان کے خلاف شروع کی جانے والی مہم سے شدید خوف وہراس پھیل گیا ہے اور لوگوں نے کاروباری یونٹ بند کرنا شروع کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے انٹیلی جننس حکام کی طرف سے ملک کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ و ایکسیسریز انڈسٹری و کاروباری یونٹس کے خلاف غیر معقول ٹیکس پالیسی کے غیر ٖضروری نفاذ باعث اندارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق سامان کی درآمد میں اور دستاویزی تجارت میں بے پناہ کمی واقع ہوئی ہے جس سے ٹیکس کی آمدنی میں بھی کمی آئی ہے۔
پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن(پی سی اے) کے مرکزی صدر منور اقبال نے یہاں اسلام آباد میں اپنے بیان میں بتایا کہ انہوں نے ایف بی آر کے چئر مین طارق باجواہ سے درخواست کی ہے کہ وہ مداخلت کر کہ کمپیوٹر کے تاجروں اور دکانداروں کو ٹیکس حکام کی جانب سے ٹیکس پالیسی کے غلط استعمال اور نفاذ کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی مکمل تباہی سے بچائیں اور ایسے وقت میں جب کہ کمپیوٹر کے سامان کی درآمد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
ایف بی آرکی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے کمپیوٹر ہارڈ ویئر اور متعلقہ سامان کے درآمد کنندگان کے خلاف مبینہ ٹیکس عدم ادائیگی کے الزام میں کارروائی جاری ہے۔ ا س کے ساتھ ساتھ آر ٹی او آفس اسلام آباد نے بھی کمپیوٹر تاجروں کے خلاف ڈمی یونٹوں سے خریداری سے متعلق ناقابل قبول سیلز ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کے دعوے کے جواب میں کیس قائم کیے ہیں۔ پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن کے مطابق یہ ڈمی یونٹ خریداری کے وقت بلیک لسٹ میں نہیں تھے یہ بات غیر قانونی ہے کہ ان یونٹوں کے خلاف اس بنا پر کارروائی کی جائے کہ یہ خریداری غیر قانونی یونٹوں سے کی گئی ہے۔
پاکستان کمپیوٹر ایسوسی ایشن کے صدر نے سوال کیا کہ ایک خریدار کو کیسے معلوم ہوگا کہ سپلائی کرنیوالا یونٹ خریداری کے دو سے تین سال بعد بلیک لسٹ ہو جائیگا۔ کمپیوٹر تاجروں کے خلاف اسطرح کی غیر قانونی نفاذ کی کارروائی کسی بھی طرح سیلز ٹیکس کی کسی بھی شک کے زمرے میں نہیں آتی جب کہ خریدوفروخت ماضی میں باقاعدہ دستاویزی کارروائی کے نتیجے میں عمل میں آئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب کمپیوٹر انڈسٹری متعدد مسائل کا شکار ہے جن میں غلط ٹیکس پالیسی، ٹیکس نوٹسز کا اجراء، ایف بی آرکی طرف سے قانونی نوٹس اور تاجروں کو حراساں کرنے جیسے اقدامات کے باعث ایف بی آر کی مجموعی آمدنی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جبکہ دوسری جانب کمپیوٹر کی اشیا اور الائیڈ سامان مارکیٹ سے غائب ہو گیا ہے جس کے باعث صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ قوانین کے ذریعے کمپیوٹر تاجروں کو بہت ھراسا ں کیا جارہا ہے۔ تاجروں نے پہلے ہی سامان کی درآمد بند کر دی ہے جس کے باعث کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ان کے پارٹس مارکیٹ میں میسر نہیں ہیں۔
منور اقبال نے کہا کہ ایک طرف آر ٹی او تاجروں کو قانونی نوٹس جاری کر رہا ہے، تو دوسری طرف ٹیکس ڈپارٹمنٹ سیلز ٹیکس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق جھوٹے مقدمے درج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایف بی آر کے چئرمین نے مداخلت نہ کی اور تاجرون کی شکایت کا ازالا نہ کیا تو پھر اس سیکٹر سے قومی بجٹ 2014-15کی مجموعی آمدنی میں بہت کمی واقع ہوگی۔ علاوہ ازیں کمپیوٹر کے سامان کی دستاویزی وریگولیٹری درآمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کمپیوٹرز کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں مجموعی طور پر 27 ٹیکس عائد ہیں جس میں 17فیصدجنرل سیلز ٹیکس ، 3 فیصدویلیوایڈڈ ٹیکس ،5.5 فیصد انکم ٹیکس 0.85 فیصد سندھ ایکسائز ڈیوٹی اور دیگر متفرق اخراجات 0.65 فیصد شامل ہیں جس کے باعث قانونی طریقے سے کمپیوٹر درآمد میں حوصلہ شکنی ہوگی اور اسمگلنگ کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ اور ایکسیسریز کی درآمد کے لیے فکس ٹیکس اسکیم متعارف کروائی جائے ۔