بین الاقوامی سینمااورپاکستانی اداکار برطانیہ میں پہلاحصہ

فنکار صرف فنکار ہی ہوتاہے لیکن مغربی دنیا میں اس کا نسلی اور مذہبی پس منظر بھی دیکھا جاتا ہے،۔۔۔

khurram.sohail99@gmail.com

KARACHI:
بین الاقوامی سینما میں دیکھیں، تو ہمیںکئی ایسے چہرے دکھائی دیتے ہیں جن کے کام اورپس منظر دونوں سے ہم واقف ہیں لیکن عجیب بات ہے، ان میں سے اکثر اداکاروں کی پہچان ذہن میں ناموں کی بجائے صرف چہروں تک محدود ہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہے، دوسرے درجے کے اداکار ہونے کی بابت ان کی رسائی ذرایع ابلاغ تک نہیں ہو پاتی اسی لیے مستقل کام کرنے کے باوجود شہرت کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ان کا مسلمان ہونا بھی ایک پہلو ہے جس کی وجہ سے انھیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ الگ بات ہے، انفرادی حیثیت میں کچھ لوگوں کو کامیابی حاصل ہوئی مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔

فنکار صرف فنکار ہی ہوتاہے لیکن مغربی دنیا میں اس کا نسلی اور مذہبی پس منظر بھی دیکھا جاتا ہے، اس بات کی ایک دلیل یہ ہے، اگر کسی فلم میں اسلامی انتہاپسند دہشت گرد دکھانا مقصود ہو تو وہ کردار انگریزکی بجائے کسی مسلمان یا جنوب ایشیائی اداکار سے ہی کروایا جاتا ہے البتہ لیڈی ڈیانا جیسی شخصیت کی زندگی پر بننے والی رومانوی فلم میں پاکستانی ڈاکٹر کا کردار جس سے آخری دنوں میں ڈیانا کا معاشقہ تھا، وہ کردار انگریز اداکار سے ہی کروانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

لہٰذا سخت محنت کرنے کے باوجود ان فنکاروں کی مقبولیت کا تناسب ایک حد سے اوپر نہیں جاتا کیونکہ وہ فلم کے اداکاروں کی فہرست میں بہت نیچے ہوتے ہیں، انھیں ثانوی قسم کے کردار دیے جاتے ہیں۔ کسی بھی فلم کی اشتہاری مہم یا پریمیئر میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ان تمام حالات کے باوجود وہ مستقل کام کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ وہ فنکار ہوتے ہیں جنھیں صلے کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی ستائش کی تمنا، ان کا جنون ہی ان کی زندگی کا سرمایہ ہوتا ہے۔

ہمیں ایسے ستاروں کے بارے میں بھی جاننا چاہیے جن کی روشنی مدھم سہی مگر وہ فن کی کہکشاں پر بکھرے ہوئے ستارے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے ٹوٹے ہوئے ستاروں کی ہے جن کا دل گمنامی کی راکھ میں خاک ہو چکا مگر ولولے اور جوش کی گرمی نے ان کے قدموں کو جامد نہیں ہونے دیا، ہمیں ان سے واقف ہونا چاہیے، اگر ہم اس فن اور اس سے وابستہ فنکاروں کے سچے مداح ہیں۔

ان فنی ستاروں کے سفر پر ایک نظر ڈالنے سے پہلے ہمیں عالمی فلمی صنعت کے مختلف ادوار پرسرسری نگاہ ڈالنا ہو گی۔ عالمی فلمی صنعت میں برطانوی اور امریکی دو بڑے شریک کار ملک ہیں جنہوں نے اس صنعت کو بہت کچھ دیا، اس میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے، ان سے کوئی واقف نہیں ہے۔ اسی صف میں بھارت تیسرے درجے پر موجود ہے مگر بھارتی فلموں میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے بارے میں زیادہ تر شائقین جانتے ہیں۔

برطانوی سینما کا سفر ایک سے زیادہ صدی کا ہے جس میں خاموش فلموں کا دور، بولتی فلموں کا دور، جنگ عظیم دوم کا دور، بعداز جنگ عظیم کا دور، سوشل رئیل ازم کا دور، جدید سینما کا دور اور عہدحاضر کی فلموں کا دور شامل ہے۔ ان دونوں ممالک کے علاوہ بھی کئی ممالک کی فلمی صنعتیں اس شعبے میں سرگرم رہیں لیکن ابھی ہماری تحریر کا احاطہ امریکی اور برطانوی فلمی صنعت ہے جس میں مسلمان فنکار شخصیات کی ایک بڑی تعداد نے کام کیا۔

موجودہ دور میں ''ہالی ووڈ'' کے نام سے فلمیں بین الاقوامی سینما پر راج کر رہی ہیں۔ انیسویں صدی سے امریکی فلمی صنعت کی ابتدا ہوتی ہے، اس وقت سے لے کر عہدحاضر تک اسے چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی خاموش فلموں کا دور، کلاسیکی ہالی ووڈ سینما، جدید سینما اور عصرحاضر کا سینما امریکی صنعت کے ستون شمار ہوتے ہیں۔ اس صنعت کے فروغ میں ان کے شب و روز کی محنت بھی شامل ہے جس پر خاموشی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ ان میں سے بہت سارے فنکاروں کا پس منظر پاکستانی بھی ہے، جن کو ہم جانتے ہیں مگر مغربی فلمی شائقین ان سے واقف نہیں اورکچھ سے وہ شناسا ہیں مگر ان کو ہم نہیں پہچانتے۔ کچھ کو دونوں ہی طرف سے شناسائی نصیب نہ ہوئی لہٰذا یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ پاکستانی ہونے کے ناتے ان فنکاروں سے ہمارا بھی ایک تعلق بنتا ہے، ہمیں ان کی خدمات کو سراہنا چاہیے۔

سب سے پہلے ہم اگر برطانوی سینما میں پاکستانی یا پاکستانی نژاد اداکاروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ہمیں کئی شخصیات دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں کئی لوگوں کو بہت کامیابی ملی اور کچھ پر شہرت کے دروازے نہ کھل سکے۔ پاکستان کی ایک ہمہ جہت شخصیت، برطانوی فلمی صنعت، تھیٹر اور ٹیلی ویژن میں کامیابی اور شہرت حاصل کرنے والے وہ نامور فنکار ''ضیا محی الدین'' ہیں۔ فیصل آباد میں پیدا ہونیوالے عالمی شہرت یافتہ فنکار ''ضیا محی الدین'' نے پاکستانی اور برطانوی سینما میں کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پاکستان میںایک عرصے تک ریڈیو سے وابستگی رہی۔ برطانیہ میں رائل اکیڈمی آف آرٹس سے تھیٹر کی تربیت حاصل کی اور برطانوی تھیٹر میں کام کیا۔ 1962 میں ''لارنس آف عربیہ'' جیسی عالمی شہرت یافتہ فلم میں کام کیا، اس کے بعد ان پر بین الاقوامی سینما کے دروازے کھل گئے۔

انھوں نے 60 کی دہائی میں امریکی اور برطانوی فلموں میں کام کیا جب کہ ایک عرصے تک برطانوی تھیٹر اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی کام کیا، جس کی وجہ سے مغربی شائقین میں ان کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، بعد میں پاکستانی ٹیلی ویژن اور تھیٹر کے شعبوں میں بھی کام کیا اورخوب شہرت سمیٹی۔بہاولپور میں پیدا ہونیوالے پاکستانی نژاد برطانوی اداکار ''اطہر الحق ملک'' جنھیں آرٹ ملک بھی کہا جاتا ہے، ان کا شمار بھی ایسے اداکاروں میں ہوتا ہے جنھیں برطانیہ، امریکا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے۔ زمانہ طالب علمی میں انھوں نے برطانیہ میں تھیٹر سے اپنی اداکاری کی ابتدا کی۔


80 کی دہائی میں انھوں نے برطانوی ٹیلی ویژن پر مختلف ڈراموں میں کام کر کے اپنی پہچان بنائی اور پھر ہالی ووڈ میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا اور پوری دنیا میں شناخت حاصل کی۔ 1987 میں بننے والی جیمز بونڈ سیریز کی فلم''دی لیونگ ڈے لائٹس۔ The Living Daylights'' میں افغان مجاہد کا کردار نبھایا۔ 1994 میں آرنلڈ شوازنیگر کی مشہور فلم''ٹرولائز۔ True Lies'' میں مذہبی انتہاپسند کا کردار ادا کیا۔

پاکستانی نژاد ''رضوان احمد'' نے پاکستانی نژاد برطانوی ناول نگار ''محسن حامد'' کے ناول پر نائن الیون کے تناظر میں بننے والی فلم ''دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلیسٹ۔ The Reluctant Fundementalist'' میں مرکزی کردار نبھایا، اس فلم کو امریکا، برطانیہ، پاکستان، کینیڈا اور بھارت سمیت پوری دنیا میں پسند کیا گیا۔ اس کے علاوہ ''رضوان احمد'' نے درجن بھر فلموں کے ساتھ ساتھ برطانوی ٹیلی ویژن کے چار ڈرامے اور تھیٹر میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

پاکستانی نژاد اسکاٹش اداکار ''عطا یعقوب'' کو برطانیہ سمیت انگریزی فلمی صنعت میں پسند کیا گیا، ان کی سب سے کامیاب فلم ''اے فاؤنڈ کِس۔ Ae Found Kiss'' میں بہترین اداکاری کرنے پر ان کو ''برٹش انڈیپنڈنٹ فلم ایوارڈ'' کے لیے نامزد بھی کیا گیا اور ایک جرمن فلم ''فرنیس لینڈ۔ Fernes Land'' میں کام کرنے کے علاوہ برطانوی ڈراما سیریل ''Lip Service'' میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے درجن بھر سے زاید فلموں اور ڈراموں میں کام کیا اور برطانوی فلم بینوں کے دل میں جگہ بنائی۔

بی بی سی کی پروڈکشن میں 2010 کو بنائی گئی فلم ''ویسٹ اِز ویسٹ'' میں نوجوان پاکستانی نژاد اداکار ''عاقب خان'' نے اپنا کردار ایسی خوبی سے نبھایا کہ فلمی پنڈت بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے، ساتھی اداکاروں میں بھارتی اداکار ''اوم پوری'' بھی تھے، جن کے مدمقابل اس نے جم کر اداکاری کی۔ یہ برطانوی ٹیلی ویژن کے کئی ڈراموں میں کام کرچکے ہیں۔

''ایوب دین خان'' بھی ایک پاکستانی نژاد اداکار اور اسکرپٹ رائٹر ہیں۔ یہ گزشتہ دس پندرہ برسوں سے برطانوی فلموں اور ڈراموں میں اداکاری کر رہے ہیں، اب تک تقریباً 20 فلموں اور ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں، کئی پروڈکشنز کے لیے انھوں نے اسکرپٹ نگاری بھی کی ہے۔ ان کا سب سے مشہور کردار جسے انھوںنے نبھایا، وہ پاکستانی نژاد برطانوی ناول نگار ''حنیف قریشی'' کے ناول پر بننے والی فلم ''سمی اینڈ روزی گیٹ لیڈ۔ Sammy and Rosie Get Laid'' میں تھا۔ ان کو اداکاری کے شعبے میں برطانیہ کے کئی اہم ایوارڈ بھی دیے گئے۔

برطانوی ٹیلی ویژن کے مزید پاکستانی نژاد ستارے جنہوں نے کئی ڈراموں میں کام کیا ہے، ان میں بابر بھٹی، صائمہ جاوید، شعیب خان، سرفراز منظور، اکبر الانا، شاہ رخ حسین، قاسم شفیق، شمیم علی، شاہد احمد، قاسم اختر، سعید جعفری، بدیع الزماں، غزل آصف، حجاز اکرم، حمزہ ارشد، عفتی چوہدری، جیف مرزا، مانی لیاقت، مینا منور، مرتضیٰ، نتاشا خان، ناز اکرام اللہ، سعدیہ عظمت، سائرہ خان، صنوبر حسین، سارا ڈھاڈا، شبانہ بخش، شازیہ مرزا، فرہاد ہارون، وقار صدیقی، افران عثمان اور زین مالک شامل ہیں۔

برطانیہ میں ہی رہ کر ایک عرصے تک فلم سازی کرنے والی شخصیت اور فلم ''جناح'' کے ہدایت کار ''جمیل دہلوی'' بھی ان برطانوی فنکاروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی سینما میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا۔ پاکستانی نژاد برطانوی ہدایت کار کی اس فلم ''جناح'' پاکستانی اداکاروں شکیل، طلعت حسین، خیام سرحدی، ونیزاحمد کو بھی بین الاقوامی سینما میں کام کرنے کا موقع ملا۔

یہ وہ تمام برطانوی فنکار ہیں، جن کا کسی نہ کسی طرح سے تعلق پاکستان سے بنتا ہے۔ کسی کے والدین نے پاکستان سے ہجرت کی اور برطانیہ میں بس گئے۔ کسی کی پیدائش پاکستان کی ہے مگر وہ کم عمری میں برطانیہ چلا گیا۔ ان میں سے کئی ایسے فنکار بھی ہیں جن کا خاندان نسل درنسل برطانیہ میں ہی آباد ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف دہشت گردی کا راگ تو الاپا جاتا ہے مگر ان فنکاروں کا کوئی حوالہ نہیں دیتا۔ اتنا عرصہ کام کرنے کے باوجود ان کو حق شناسائی نہیں دیا گیا، ان فنکاروں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔

(جاری ہے)
Load Next Story