دھرنے دیجیے مگر قومی مفاد میں
’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے نعروں سے بھوکے ننگوں کو بے گوروکفن لاشا بنایا جاتا رہے گا۔۔۔
اخبارات کی سرخیوں، کالموں کی سطروں میں پنہاں سنسنی، ٹی وی پر چلتے بھڑکیلے ٹاک شوز سے ٹپکتی وحشت، سیاسی ٹوپی ڈراموں کی طویل سیریز نہ جانے کب تک عوام کی طبیعتوں میں زہرگھولتی رہیں گی۔ وہی پرانے چہرے ، تو کبھی پرانے نئے چہروں کے ساتھ مختلف حربوں، حیلوں، بہانوں اور چاپلوسیوں کے ذریعے ترستی ہوئی سہمی آنکھوں کو سبز باغ دکھا دکھا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں گے ۔
''روٹی کپڑا اور مکان'' کے نعروں سے بھوکے ننگوں کو بے گوروکفن لاشا بنایا جاتا رہے گا ۔ ترقی کے نام پر برسوں کی جمع پونجی، بیواؤں کے پلاٹوں، ضعیفوں کی پینشنز، بیٹیوں کے جہیزوں کی رقم ہڑپ کرنے والے نئے قرضوں کے جال میں پھانستے رہیں گے ۔ دین و مذہب کے نام پر اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سچی اندھی محبت و عقیدت رکھنے والوں کو قتل و غارت گری کی ترغیب و تربیت دے کر امن کے داعی مذہب اسلام کو دہشت کی علامت بنانے کی کوشش ہوتی رہے گی ۔
محرومیوں، اذیتوں، بربادیوں، جہالتوں اور ذلتوں کی طویل داستان بھی ہمیں ملی غیرت اور خودداری کا احساس نہ دلاسکی ۔کرپشن، رشوت، مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ، ناانصافی، ظلم و زیادتی، پولیس و انتظامیہ کی سینہ زوری کے خلاف ماتم کرکے اپنا ہی منہ نوچتے رہے ۔ ہم جب بھی کبھی کسی دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو اپنے ہی بھائیوں کے سر پھاڑے، اپنے ہی ملک کی املاک کو آگ لگائی، اپنے نقصان کا بدلہ خود کو ہی ایذا پہنچا کر چکایا ۔ پرتشدد احتجاج، ہڑتالیں، مارچ، دھرنے، شٹرڈاؤن، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کے ذریعے اپنے ملک و معیشت کو نقصان پہنچانا ہم نے اپنی ثقافت کا حصہ بنا لیا ہے ۔
آج بھی وفاقی دارالحکومت میں اقتدار کے حصول کی کشمکش جاری ہے، ہزاروں لوگوں کا مجمع دھرنا دیے بیٹھا، پچھلے ایک ماہ سے شدید گرمی، حبس، بارش، بھوک، پیاس، رفع حاجت کی دشواریاں جھیلنے والے یہ دھرنے کے شرکا بھی ملک کی عام آبادی کی طرح پاکستان میں خوشحالی دیکھنے کے خواہش مند ہیں ۔ یہ لوگ ایک ایسی مملکت چاہتے ہیں جہاں ہر طرف امن و آشتی ہو، انصاف کا بول بالا ہو، لوگوں کو روزگار ملے، امیر و غریب میں فرق ختم ہو، کرپٹ، بدعنوان اورجرائم پیشہ افراد کو سرعام سزائیں دی جائیں ۔
ان لوگوں کے خیال میں ملک میں پھیلی تمام برائیوں کی جڑ پارلیمنٹ ہے اور خامیوں کو دور کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ حکمران ہیں ۔ دھرنے والوں کا تعلق دو تحریکوں سے ہے جن میں سے ایک کا بنیادی مطالبہ انتخابی نظام میں اصلاحات جب کہ دوسری کا ابتدائی مطالبہ قومی اسمبلی کی 4 نشستوں پر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات تھا ، جو عوامی نبض کے موافق وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا چلا گیا، وزیراعظم کے استعفے اور پارلیمنٹ کی تحلیل تک پہنچنے کے بعد اب ''اسلامی فلاحی ریاست کے قیام'' کے الفاظ کی آمیزش کے ساتھ ظہور پذیر ہو رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وقت و طلب کی مناسبت سے، جس کی کمی رہ گئی ہے ، مزید ایک لفظ ''شریعت'' بھی شامل کرلیا جائے ۔
کسی بھی تحریک کو شروع کرنے سے پہلے ہی عوام کی نفسیات کو جاننا از حد ضروری ہوتا ہے کیونکہ تحریکوں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار بھی عوام ہی کی قربانیوں سے عبارت ہوتا ہے ۔ اس بات کو بہت پہلے ہی جان لینا چاہیے تھا کہ پاکستان کے عوام سادہ لوح ضرور مگر اتنے نادان بھی نہیں ہیں کہ اپنے اچھے برے کی تمیز نہ کرسکیں ، عوام جانتے ہیں کہ چار حلقوں کی دھاندلی کی تحقیقات کا عوامی مفاد سے کتنا تعلق ہے اور اصل فائدہ کس کو ہوگا، اسی طرح انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں انقلاب کیسے آسکتا ہے کیونکہ جو قوانین یا نظام پہلے موجود ہیں انھی پر عملدرآمد کرا دیا جائے تو کسی معرکے سے کم نہ ہوگا۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ کل اقتدار میں بیٹھ کر راج کرنے والے آج انقلاب کیسے لائیں گے۔ عوام کو یہ بھی یاد ہے کہ 2013کے عام انتخابات میں اکثریت دلوانے کے لیے اہم مہرے کس کی جھولی میں ڈالے گئے تھے ۔
عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف کے چلے جانے اور عمران خان کے آجانے سے انقلاب آجائے گا؟ یا نیا پاکستان بن جائے گا؟ یہ عوام جانتے ہیں کہ ایک حکمران کے چلے جانے کے بعد دوسرا بھی اس جیسا ہی آئے گا اور کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس ملک کے عوام سب جانتے ہیں کہ کسی کے جانے سے اور کسی آنے سے ان کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ ہاں عوام کا غیض و غضب جو دیکھنے میں آرہا ہے یا ان تحریکوں یا دھرنوں کی حمایت کی جارہی وہ صرف موجودہ حکومت سے نفرت کا اظہار ہے کیونکہ مہنگائی، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ اور وہ سب وعدے جو مسلم لیگ ن نے عام انتخابات سے قبل کیے تھے عوام کو پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اگر ان دونوں تحریکوںکے قائدین عوامی مطالبات لے کر میدان عمل میں اترتے تو انھیں ایک ماہ تک انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اب جب کہ ملک سیلابوں کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے طاہر القادری اور عمران خان کو چاہیے کہ وہ آسمانی آفت کو غنیمت سمجھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی اپیل پر توجہ دیتے ہوئے متاثرین سیلاب سے اظہار یکجہتی اور ان کی مدد کے لیے چل پڑیں، احتجاج ملتوی کردیں اور حکومت کو مطالبات پورے کرنے کے لیے 6ماہ کی مہلت دیں ۔ وہ اپنے مطالبات پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں ترمیم بھی کریں اور عوامی مفاد کے مطالبات کو سرفہرست رکھیں ۔ وہ وزیراعظم نواز شریف کو عام انتخابات سے قبل عوام سے کیے گئے وعدے باور کرائیں اور انھیں پورا کرنے پر زور دیں ۔
بے جا حکومتی قرضے لینے اورمہنگائی کی شرح میں اضافے کو روکنے، مزدور یا ورکرکی کم از کم ماہانہ اجرت 18 ہزار روپے کرنے کے وعدے کو پورا کرانے کے ساتھ آئی ایل او قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے مطالبات حکومت کے سامنے رکھیں۔ ٹیکسوں کی شرح کم، وصولیاں یقینی اور دائرہ کار بڑھانے کے لیے ٹھوس تجاویز کے ساتھ اپنے مطالبات پیش کریں۔ وہ پولیس، ایف بی آر اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کڑے احتساب کا قانون بنانے، بڑے بڑے اسمگلرز، منشیات فروشوں، قرض نادہندگان، قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی جیسے مطالبات پر عمل کے لیے حکومت کو وقت دے کر پویلین میں واپس چلے جائیں۔
وہ دیکھیں کہ اگر حکمران مقررہ مدت میں مطالبات پورے کرنے میں پرخلوص ہیں اور مثبت نتائج ملنے کی امید بھی ہے تو وہ حکومت کے ساتھ دیں اور تمام تلخیاں بھلا کر ملک و قوم کے لیے ترقی کے عمل میں مکمل معاونت کریں۔ اور اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی یا سنجیدگی نہیں دکھاتی تو طاہر القادری اور عمران خان یہی تحریکیں اور دھرنے یہیں سے دوبارہ شروع کردیں۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو یقین رکھنا چاہیے کہ اگر ان کے مطالبے عوامی مفاد کے تحت ہوں گے تو اگلے دھرنوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ شامل ہوں گے اور ''امپائر'' کو چلا چلا کر بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ''امپائر'' خود ہی آگے آکر اپنا فیصلہ سنا دے گا۔
''روٹی کپڑا اور مکان'' کے نعروں سے بھوکے ننگوں کو بے گوروکفن لاشا بنایا جاتا رہے گا ۔ ترقی کے نام پر برسوں کی جمع پونجی، بیواؤں کے پلاٹوں، ضعیفوں کی پینشنز، بیٹیوں کے جہیزوں کی رقم ہڑپ کرنے والے نئے قرضوں کے جال میں پھانستے رہیں گے ۔ دین و مذہب کے نام پر اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سچی اندھی محبت و عقیدت رکھنے والوں کو قتل و غارت گری کی ترغیب و تربیت دے کر امن کے داعی مذہب اسلام کو دہشت کی علامت بنانے کی کوشش ہوتی رہے گی ۔
محرومیوں، اذیتوں، بربادیوں، جہالتوں اور ذلتوں کی طویل داستان بھی ہمیں ملی غیرت اور خودداری کا احساس نہ دلاسکی ۔کرپشن، رشوت، مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ، ناانصافی، ظلم و زیادتی، پولیس و انتظامیہ کی سینہ زوری کے خلاف ماتم کرکے اپنا ہی منہ نوچتے رہے ۔ ہم جب بھی کبھی کسی دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو اپنے ہی بھائیوں کے سر پھاڑے، اپنے ہی ملک کی املاک کو آگ لگائی، اپنے نقصان کا بدلہ خود کو ہی ایذا پہنچا کر چکایا ۔ پرتشدد احتجاج، ہڑتالیں، مارچ، دھرنے، شٹرڈاؤن، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کے ذریعے اپنے ملک و معیشت کو نقصان پہنچانا ہم نے اپنی ثقافت کا حصہ بنا لیا ہے ۔
آج بھی وفاقی دارالحکومت میں اقتدار کے حصول کی کشمکش جاری ہے، ہزاروں لوگوں کا مجمع دھرنا دیے بیٹھا، پچھلے ایک ماہ سے شدید گرمی، حبس، بارش، بھوک، پیاس، رفع حاجت کی دشواریاں جھیلنے والے یہ دھرنے کے شرکا بھی ملک کی عام آبادی کی طرح پاکستان میں خوشحالی دیکھنے کے خواہش مند ہیں ۔ یہ لوگ ایک ایسی مملکت چاہتے ہیں جہاں ہر طرف امن و آشتی ہو، انصاف کا بول بالا ہو، لوگوں کو روزگار ملے، امیر و غریب میں فرق ختم ہو، کرپٹ، بدعنوان اورجرائم پیشہ افراد کو سرعام سزائیں دی جائیں ۔
ان لوگوں کے خیال میں ملک میں پھیلی تمام برائیوں کی جڑ پارلیمنٹ ہے اور خامیوں کو دور کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ حکمران ہیں ۔ دھرنے والوں کا تعلق دو تحریکوں سے ہے جن میں سے ایک کا بنیادی مطالبہ انتخابی نظام میں اصلاحات جب کہ دوسری کا ابتدائی مطالبہ قومی اسمبلی کی 4 نشستوں پر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات تھا ، جو عوامی نبض کے موافق وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا چلا گیا، وزیراعظم کے استعفے اور پارلیمنٹ کی تحلیل تک پہنچنے کے بعد اب ''اسلامی فلاحی ریاست کے قیام'' کے الفاظ کی آمیزش کے ساتھ ظہور پذیر ہو رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وقت و طلب کی مناسبت سے، جس کی کمی رہ گئی ہے ، مزید ایک لفظ ''شریعت'' بھی شامل کرلیا جائے ۔
کسی بھی تحریک کو شروع کرنے سے پہلے ہی عوام کی نفسیات کو جاننا از حد ضروری ہوتا ہے کیونکہ تحریکوں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار بھی عوام ہی کی قربانیوں سے عبارت ہوتا ہے ۔ اس بات کو بہت پہلے ہی جان لینا چاہیے تھا کہ پاکستان کے عوام سادہ لوح ضرور مگر اتنے نادان بھی نہیں ہیں کہ اپنے اچھے برے کی تمیز نہ کرسکیں ، عوام جانتے ہیں کہ چار حلقوں کی دھاندلی کی تحقیقات کا عوامی مفاد سے کتنا تعلق ہے اور اصل فائدہ کس کو ہوگا، اسی طرح انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں انقلاب کیسے آسکتا ہے کیونکہ جو قوانین یا نظام پہلے موجود ہیں انھی پر عملدرآمد کرا دیا جائے تو کسی معرکے سے کم نہ ہوگا۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ کل اقتدار میں بیٹھ کر راج کرنے والے آج انقلاب کیسے لائیں گے۔ عوام کو یہ بھی یاد ہے کہ 2013کے عام انتخابات میں اکثریت دلوانے کے لیے اہم مہرے کس کی جھولی میں ڈالے گئے تھے ۔
عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف کے چلے جانے اور عمران خان کے آجانے سے انقلاب آجائے گا؟ یا نیا پاکستان بن جائے گا؟ یہ عوام جانتے ہیں کہ ایک حکمران کے چلے جانے کے بعد دوسرا بھی اس جیسا ہی آئے گا اور کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس ملک کے عوام سب جانتے ہیں کہ کسی کے جانے سے اور کسی آنے سے ان کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ ہاں عوام کا غیض و غضب جو دیکھنے میں آرہا ہے یا ان تحریکوں یا دھرنوں کی حمایت کی جارہی وہ صرف موجودہ حکومت سے نفرت کا اظہار ہے کیونکہ مہنگائی، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ اور وہ سب وعدے جو مسلم لیگ ن نے عام انتخابات سے قبل کیے تھے عوام کو پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اگر ان دونوں تحریکوںکے قائدین عوامی مطالبات لے کر میدان عمل میں اترتے تو انھیں ایک ماہ تک انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اب جب کہ ملک سیلابوں کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہے طاہر القادری اور عمران خان کو چاہیے کہ وہ آسمانی آفت کو غنیمت سمجھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی اپیل پر توجہ دیتے ہوئے متاثرین سیلاب سے اظہار یکجہتی اور ان کی مدد کے لیے چل پڑیں، احتجاج ملتوی کردیں اور حکومت کو مطالبات پورے کرنے کے لیے 6ماہ کی مہلت دیں ۔ وہ اپنے مطالبات پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں ترمیم بھی کریں اور عوامی مفاد کے مطالبات کو سرفہرست رکھیں ۔ وہ وزیراعظم نواز شریف کو عام انتخابات سے قبل عوام سے کیے گئے وعدے باور کرائیں اور انھیں پورا کرنے پر زور دیں ۔
بے جا حکومتی قرضے لینے اورمہنگائی کی شرح میں اضافے کو روکنے، مزدور یا ورکرکی کم از کم ماہانہ اجرت 18 ہزار روپے کرنے کے وعدے کو پورا کرانے کے ساتھ آئی ایل او قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے مطالبات حکومت کے سامنے رکھیں۔ ٹیکسوں کی شرح کم، وصولیاں یقینی اور دائرہ کار بڑھانے کے لیے ٹھوس تجاویز کے ساتھ اپنے مطالبات پیش کریں۔ وہ پولیس، ایف بی آر اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کڑے احتساب کا قانون بنانے، بڑے بڑے اسمگلرز، منشیات فروشوں، قرض نادہندگان، قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی جیسے مطالبات پر عمل کے لیے حکومت کو وقت دے کر پویلین میں واپس چلے جائیں۔
وہ دیکھیں کہ اگر حکمران مقررہ مدت میں مطالبات پورے کرنے میں پرخلوص ہیں اور مثبت نتائج ملنے کی امید بھی ہے تو وہ حکومت کے ساتھ دیں اور تمام تلخیاں بھلا کر ملک و قوم کے لیے ترقی کے عمل میں مکمل معاونت کریں۔ اور اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی یا سنجیدگی نہیں دکھاتی تو طاہر القادری اور عمران خان یہی تحریکیں اور دھرنے یہیں سے دوبارہ شروع کردیں۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو یقین رکھنا چاہیے کہ اگر ان کے مطالبے عوامی مفاد کے تحت ہوں گے تو اگلے دھرنوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ شامل ہوں گے اور ''امپائر'' کو چلا چلا کر بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ''امپائر'' خود ہی آگے آکر اپنا فیصلہ سنا دے گا۔