علامہ بریانی عرف برڈ فلو
پیر الدین شریف زادے کے پاس ایسے مسائل دور دور سے آتے ہیں جن کا حل وہ نہایت ’’حسن و خوبی‘‘ سے نکال لیتے...
علامہ بریانی کو اگر دینی پیر الدین شریف زادہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، مناسب شکرانہ ملے تو دین کے بیچوں بیچ سے ایسے ایسے مسائل نکال لیتے ہیں کہ ہر کسی کے لیے ہر قسم کی ''گنجائش'' نکل آتی ہے خاص طور پر نکاحوں اور طلاقوں کے معاملے میں۔ مثلاً ایک مرتبہ ایک سردار نے اپنی بیوی کو ''پکے وٹے'' طلاق دی لیکن بعد میں اسے پچھتاوا ہوا کیونکہ وہ اس کی چہیتی بیوی بھی تھی ۔کسی نے اسے بتایا کہ اس طرح فلاں گاؤں میں علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے نام سے رہتے ہیں اگر وہ چاہیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ ایسا ڈھونڈ سکیں گے کہ انڈا ٹوٹنے کے بعد بھی ''پلیٹ'' میں ہی رہ جائے۔
اپنے ساتھ پھل فروٹ کے کریٹس لے کر وہ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن میں دنیا کا سب سے مرغوب ترین ''میوہ'' بھی ایک لفافے کے اندر شامل تھا۔ وہ منظر بڑا دیدنی تھا۔ ایک لمبی سی گاڑی رکی تو اس میں سے سردار اترا اور علامہ کی خلوت گاہ میں داخل ہو گیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مقصد بتایا کہ ایک مسئلہ پوچھنے آئے ہیں تو علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے ''جبین نماز'' (جس کے درمیان سجدے کا نشان بھی تھا اور جو بقول چشم گل چشم کے علامہ نے خود گرم اٹھنی سے بنوایا ہوا تھا) پر ایک جال سا بچھ گیا لیکن فوراً ہی وہ ''جال'' تحلیل بھی ہوا کیونکہ سردار کا ڈرائیور لوازمات سے لدا پھندا اندر آرہا تھا اور علامہ نے سردار کی واسکٹ میں جھانکتا ہوا وہ لمبا لفافہ بھی دیکھ لیا تھا جس میں اس کے تجربے کے مطابق کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی تھی سوائے،
اے زر تو خدا نیستی و لیکن بخدا
قاضی الحاجاتی و محی المماتی
یعنی اے زر تو خدا نہیں ہے لیکن حاجتوں کا پورا کرنے والا اور مردوں کو زندہ کرنے والا ضرور ہے، مقدمے کے سارے ''حالات'' ڈرائیور کی لائی ہوئی ''شہادتیں'' سن کر اور لفافے کے اندر کے ''ثبوت'' ملاحظہ کرنے کے بعد علامہ نے اپنا مخصوص اور کماؤ جملہ سنا دیا، میں کتاب دیکھ کر بتا سکوں گا۔ جس کتاب کا ذکر علامہ کرتے ہیں اسے آج تک علامہ کے علاوہ اور کسی نے نہیں دیکھا ہے کیونکہ ان کے خاندانی چورن کے نسخے کی طرح یہ کتاب بھی ان کے خاندانی ''اسرار'' میں شامل ہے لیکن بات ابھی ختم کہاں ہوئی ایسے مواقعے پر علامہ اپنے ''مہمان'' کی خاطر تواضع بھی تو کرتے ہیں جس کے دوران کوئی ایسی ''سخن گسترانہ'' بات آہی جاتی ہے جس سے علامہ کو اس ''مسئلے'' سے مزید ثواب نچوڑنے کا موقع مل جاتا ہے، مثلاً چائے میں دودھ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
علامہ بریانی بڑی شرمندگی سے معذرت کرتے ہوئے ''دودھ'' کی قلت کمیابی اور خرابی کا ذکر کر دیتے ہیں یا چائے میں میٹھا کم ہونے کا سبب ''چینی یا گڑ'' بتاتے ہیں، چنانچہ سردار واپس جاتے ہی گڑ کی دو چار بوریاں یا کوئی گائے بھینس بھی اپنے دوسرے وزٹ سے پہلے پہلے ہی پہنچا دیتا ہے، تب ''کتاب'' میں سے مسئلہ بھی ''تولد'' ہو جاتا ہے، علامہ سردار کو بتاتے ہیں کہ چونکہ آپ نے طلاق ''ط'' سے نہیں بلکہ ''ت'' سے دیا ہے یا طلاق کے بجائے ''تلاک'' کہا ہے اس لیے طلاق صادر نہیں ہوئی ہے۔ ایک کیس میں تو یہ مسئلہ بھی نکالا تھا کہ طلاق دیتے وقت شوہر غصے میں تھا اور غصے کے بارے میں پکی بات ہے کہ جب یہ آتا ہے تو عقل رخصت پر چلی جاتی ہے لہٰذا اس وقت عقل کی غیر موجودگی میں ''غصے'' نے طلاق کا جو اظہار کیا وہ باطل ٹھہرتا ہے اس لیے طلاق صادر نہیں ہوئی البتہ اس شخص کو کسی اچھے ''عالم'' کے ذریعے دوبارہ نکاح پڑھوانا چاہیے۔
گاؤں کے اس پیر الدین شریف زادے کے پاس ایسے مسائل دور دور سے آتے ہیں جن کا حل وہ نہایت ''حسن و خوبی'' سے نکال لیتے ہیں کیونکہ ان کی خاندانی کتاب بھی ان کے خاندانی چورن پر گئی ہے اگر چورن ہر مرض کا علاج ہے تو یہ کتاب ہر مسئلے کا حل ہے، علامہ یعنی ہمارے گاؤں کے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کی اس کتاب نے سب سے بڑا کمال اس وقت دکھایا جب گاؤں میں ''برڈ فلو'' کی وبا آئی، گاؤں کے قریب ایک بہت بڑا پولٹری فارم تھا جس کا مالک غیر مسلم تھا ، اس فارم پر جب برڈ فلو نے ہلہ بول دیا تو مرغیاں مرنے لگیں چونکہ یہ ایک عام وبا تھی اس لیے ہر جگہ اس نے کشتوں کے پشتے لگا دیے، چنانچہ اس پولٹری فارم کے مالک نے اپنی مرغیاں اونے پونے بیچنا شروع کیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ گاؤں کے لوگ اس شخص کی مرغیاں خرید نہیں رہے تھے بلکہ باقاعدہ یہ بات مشہور ہو گئی کہ مرغیاں بھی اس شخص کی طرح غیرمسلم اور مسلمانوں کے لیے حرام ہیں، یہی وہ موقع تھا جب پولٹری فارم کے مالک کو کسی نے گاؤں کے پیر الدین شریف زادہ یعنی علامہ کے بارے میں بتایا جو اس وقت صرف علامہ بریانی تھے اور ابھی برڈ فلو نہیں ہوئے تھے
جاری تھی اسد داغ جگر سے مری تحصیل
آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا
چنانچہ رات کے اندھیرے میں پولٹری فارم کے مالک نے علامہ سے ایک خفیہ ملاقات کی جس میں ''باہمی دل چسپی'' کے امور پر ''تبادلہ خیال'' بھی ہوا اور پھر کچھ اور تبادلے بھی ہوئے، طے شدہ پروگرام کے مطابق دوسرے دن علامہ نے بندہ بھیج کر پولٹری فارم سے چار پانچ مرغیاں بظاہر ''خریدیں'' اور ان کو مختلف شکلوں میں اپنے شکم مبارک میں دفن کیا، گاؤں کے لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آخر علامہ نے مرغیاں کیوں کھائیں، بات بزرگوں تک پہنچی اور بزرگوں کا ایک وفد علامہ کے پاس آیا کہ آخر اس نے ان ''حرام مرغیوں'' کوکیوں کھایا اور اگر کھایا توکس شرعی بنیاد پر ۔۔۔ اور اگر ایسی کوئی ''شرعی بنیاد'' موجود ہے تو آخر گاؤں کے لوگوں نے کیا گناہ کیا ہے جو اتنے سستے کمال غنیمت سے محروم ہیں، علامہ اسی موقع کی تاک میں تھے چنانچہ پورے گاؤں کا ایک مجمع عام بلوایا گیا اور علامہ نے تقریر دل پذیر میں ثابت کیا کہ اس فارم کی مرغیاں کھانا جائز ہے۔
ظاہر ہے کہ پیر الدین شریف زادہ کی تقریر کے بعد گاؤں کے لوگ سستی اور ارزاں مرغیوں پرپل پڑے، پولٹری فارم کے مالک نے خوش ہو کر علامہ کے لیے ہفتے میں ''سات خون'' معاف کر دیے، اسی واقعے کے نتیجے میں علامہ کے نام کے ساتھ برڈ فلو کا اضافہ ہوگیا اور ان کے شکم مبارک کو مرغیوں کا قبرستان ڈیکلیئر کر دیا گیا، انھوں نے اپنی بات کو پھیلا کر مرغیوں کے ساتھ ساتھ ہر چیز پر لاگو کر دیا، مال و زر سمیت کسی بھی چیز پر مسئلے کے دائرے کو یہ وسعت انھوں نے علاقے کے ٹھیکیداروں، سرکاری افسروں اور عوامی نمایندہ کی فرمائش پر دی ہوئی ہے جن میں رشوت سے لے کر ڈاکے اور اجرتی قتلوں تک کی آمدنی بھی شامل ہے۔
اپنے ساتھ پھل فروٹ کے کریٹس لے کر وہ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن میں دنیا کا سب سے مرغوب ترین ''میوہ'' بھی ایک لفافے کے اندر شامل تھا۔ وہ منظر بڑا دیدنی تھا۔ ایک لمبی سی گاڑی رکی تو اس میں سے سردار اترا اور علامہ کی خلوت گاہ میں داخل ہو گیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مقصد بتایا کہ ایک مسئلہ پوچھنے آئے ہیں تو علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے ''جبین نماز'' (جس کے درمیان سجدے کا نشان بھی تھا اور جو بقول چشم گل چشم کے علامہ نے خود گرم اٹھنی سے بنوایا ہوا تھا) پر ایک جال سا بچھ گیا لیکن فوراً ہی وہ ''جال'' تحلیل بھی ہوا کیونکہ سردار کا ڈرائیور لوازمات سے لدا پھندا اندر آرہا تھا اور علامہ نے سردار کی واسکٹ میں جھانکتا ہوا وہ لمبا لفافہ بھی دیکھ لیا تھا جس میں اس کے تجربے کے مطابق کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی تھی سوائے،
اے زر تو خدا نیستی و لیکن بخدا
قاضی الحاجاتی و محی المماتی
یعنی اے زر تو خدا نہیں ہے لیکن حاجتوں کا پورا کرنے والا اور مردوں کو زندہ کرنے والا ضرور ہے، مقدمے کے سارے ''حالات'' ڈرائیور کی لائی ہوئی ''شہادتیں'' سن کر اور لفافے کے اندر کے ''ثبوت'' ملاحظہ کرنے کے بعد علامہ نے اپنا مخصوص اور کماؤ جملہ سنا دیا، میں کتاب دیکھ کر بتا سکوں گا۔ جس کتاب کا ذکر علامہ کرتے ہیں اسے آج تک علامہ کے علاوہ اور کسی نے نہیں دیکھا ہے کیونکہ ان کے خاندانی چورن کے نسخے کی طرح یہ کتاب بھی ان کے خاندانی ''اسرار'' میں شامل ہے لیکن بات ابھی ختم کہاں ہوئی ایسے مواقعے پر علامہ اپنے ''مہمان'' کی خاطر تواضع بھی تو کرتے ہیں جس کے دوران کوئی ایسی ''سخن گسترانہ'' بات آہی جاتی ہے جس سے علامہ کو اس ''مسئلے'' سے مزید ثواب نچوڑنے کا موقع مل جاتا ہے، مثلاً چائے میں دودھ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
علامہ بریانی بڑی شرمندگی سے معذرت کرتے ہوئے ''دودھ'' کی قلت کمیابی اور خرابی کا ذکر کر دیتے ہیں یا چائے میں میٹھا کم ہونے کا سبب ''چینی یا گڑ'' بتاتے ہیں، چنانچہ سردار واپس جاتے ہی گڑ کی دو چار بوریاں یا کوئی گائے بھینس بھی اپنے دوسرے وزٹ سے پہلے پہلے ہی پہنچا دیتا ہے، تب ''کتاب'' میں سے مسئلہ بھی ''تولد'' ہو جاتا ہے، علامہ سردار کو بتاتے ہیں کہ چونکہ آپ نے طلاق ''ط'' سے نہیں بلکہ ''ت'' سے دیا ہے یا طلاق کے بجائے ''تلاک'' کہا ہے اس لیے طلاق صادر نہیں ہوئی ہے۔ ایک کیس میں تو یہ مسئلہ بھی نکالا تھا کہ طلاق دیتے وقت شوہر غصے میں تھا اور غصے کے بارے میں پکی بات ہے کہ جب یہ آتا ہے تو عقل رخصت پر چلی جاتی ہے لہٰذا اس وقت عقل کی غیر موجودگی میں ''غصے'' نے طلاق کا جو اظہار کیا وہ باطل ٹھہرتا ہے اس لیے طلاق صادر نہیں ہوئی البتہ اس شخص کو کسی اچھے ''عالم'' کے ذریعے دوبارہ نکاح پڑھوانا چاہیے۔
گاؤں کے اس پیر الدین شریف زادے کے پاس ایسے مسائل دور دور سے آتے ہیں جن کا حل وہ نہایت ''حسن و خوبی'' سے نکال لیتے ہیں کیونکہ ان کی خاندانی کتاب بھی ان کے خاندانی چورن پر گئی ہے اگر چورن ہر مرض کا علاج ہے تو یہ کتاب ہر مسئلے کا حل ہے، علامہ یعنی ہمارے گاؤں کے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کی اس کتاب نے سب سے بڑا کمال اس وقت دکھایا جب گاؤں میں ''برڈ فلو'' کی وبا آئی، گاؤں کے قریب ایک بہت بڑا پولٹری فارم تھا جس کا مالک غیر مسلم تھا ، اس فارم پر جب برڈ فلو نے ہلہ بول دیا تو مرغیاں مرنے لگیں چونکہ یہ ایک عام وبا تھی اس لیے ہر جگہ اس نے کشتوں کے پشتے لگا دیے، چنانچہ اس پولٹری فارم کے مالک نے اپنی مرغیاں اونے پونے بیچنا شروع کیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ گاؤں کے لوگ اس شخص کی مرغیاں خرید نہیں رہے تھے بلکہ باقاعدہ یہ بات مشہور ہو گئی کہ مرغیاں بھی اس شخص کی طرح غیرمسلم اور مسلمانوں کے لیے حرام ہیں، یہی وہ موقع تھا جب پولٹری فارم کے مالک کو کسی نے گاؤں کے پیر الدین شریف زادہ یعنی علامہ کے بارے میں بتایا جو اس وقت صرف علامہ بریانی تھے اور ابھی برڈ فلو نہیں ہوئے تھے
جاری تھی اسد داغ جگر سے مری تحصیل
آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا
چنانچہ رات کے اندھیرے میں پولٹری فارم کے مالک نے علامہ سے ایک خفیہ ملاقات کی جس میں ''باہمی دل چسپی'' کے امور پر ''تبادلہ خیال'' بھی ہوا اور پھر کچھ اور تبادلے بھی ہوئے، طے شدہ پروگرام کے مطابق دوسرے دن علامہ نے بندہ بھیج کر پولٹری فارم سے چار پانچ مرغیاں بظاہر ''خریدیں'' اور ان کو مختلف شکلوں میں اپنے شکم مبارک میں دفن کیا، گاؤں کے لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آخر علامہ نے مرغیاں کیوں کھائیں، بات بزرگوں تک پہنچی اور بزرگوں کا ایک وفد علامہ کے پاس آیا کہ آخر اس نے ان ''حرام مرغیوں'' کوکیوں کھایا اور اگر کھایا توکس شرعی بنیاد پر ۔۔۔ اور اگر ایسی کوئی ''شرعی بنیاد'' موجود ہے تو آخر گاؤں کے لوگوں نے کیا گناہ کیا ہے جو اتنے سستے کمال غنیمت سے محروم ہیں، علامہ اسی موقع کی تاک میں تھے چنانچہ پورے گاؤں کا ایک مجمع عام بلوایا گیا اور علامہ نے تقریر دل پذیر میں ثابت کیا کہ اس فارم کی مرغیاں کھانا جائز ہے۔
ظاہر ہے کہ پیر الدین شریف زادہ کی تقریر کے بعد گاؤں کے لوگ سستی اور ارزاں مرغیوں پرپل پڑے، پولٹری فارم کے مالک نے خوش ہو کر علامہ کے لیے ہفتے میں ''سات خون'' معاف کر دیے، اسی واقعے کے نتیجے میں علامہ کے نام کے ساتھ برڈ فلو کا اضافہ ہوگیا اور ان کے شکم مبارک کو مرغیوں کا قبرستان ڈیکلیئر کر دیا گیا، انھوں نے اپنی بات کو پھیلا کر مرغیوں کے ساتھ ساتھ ہر چیز پر لاگو کر دیا، مال و زر سمیت کسی بھی چیز پر مسئلے کے دائرے کو یہ وسعت انھوں نے علاقے کے ٹھیکیداروں، سرکاری افسروں اور عوامی نمایندہ کی فرمائش پر دی ہوئی ہے جن میں رشوت سے لے کر ڈاکے اور اجرتی قتلوں تک کی آمدنی بھی شامل ہے۔