پیکر وفاالطاف حسین
تحریک نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے بڑی درسگاہ میں جنم لیا۔...
معاشرتی اعتبار سے انسان نے بہت سے انسانی اور جذباتی رشتوں کو شناخت کر کے اختیار کیا۔ ان رشتوں کے مابین تعلق کبھی وفا کے نام پر تو کبھی محبت کے نام پر قائم ہوا۔ عمومی طور پر انسانوں کے مابین تعلق باہمی مفادات کی تکمیل کے لیے قائم ہوئے۔ اسی معاشرے میں کبھی حقوق کی جدوجہد، کبھی حکومت حاصل کرنے تو کبھی اپنے آپ کو بالادست بنانے کے لیے جدوجہد شروع کی گئی۔ لیکن یاد اور باقی وہ تحریکیں اور جدوجہد رہ گئی جو مظلوم اور حقوق سے محروم لوگوں کی فلاح کے لیے چلائی گئیں۔
اس میں بھی دو رائے نہیں کہ جب جب اس قسم کی تحریکوں نے جنم لیا تو سازشوں نے ان تحریکوں میں اپنے ڈیرے جمائے۔ جدوجہد اور سازشیں ایک ساتھ چلتی رہیں۔ یہاں پر کامیابی اس کو ملتی ہے جس کے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں اور جو حوصلے کے ساتھ سازشوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ تاریخ میں ایسی تحریکیں بھی موجود ہیں جو اس مقابلے کے دوران تھک ہار کر ختم ہو گئیں لیکن جن تحریکوں نے اپنے مقاصد کو حاصل کیا، انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔
ایسی ہی ایک تحریک نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے بڑی درسگاہ میں جنم لیا۔ اس تحریک کے روحِ رواں نے کبھی بھی اپنے ماننے والوں سے محبت کا تقاضا نہیں کیا۔ ہمیشہ اس نے اپنے کارکنان کو وفا کا لفظ کہا۔ شاید اس کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہو گی، وہ یہی ہے کہ محبت ایک غیر اختیاری جذبہ ہے جب کہ وفا ایک اختیاری فعل ہے۔ اسی بنیاد پر تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی اور احساسِ ذمے داری کو اس سے مشروط کیا گیا۔
یہ وہ کلیہ ہے جو ستمبر2004 میں اپنی واضح شکل میں سامنے آیا کیونکہ اس تحریک نے ایک طویل دورِ ابتلا کا سامنا کر لیا تھا۔ بہت سی سازشیں بے نقاب ہو چکی تھیں۔ بہت سی کالی بھیڑیں اپنی موت آپ مر چکی تھیں۔ اس کے بعد اس کلیے نے اس راستے کا تعین کیا کہ مظلوموں کی حکمرانی اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے ایک ایسے اصول کو اختیار کیا جائے کہ اپنی وفا کو احساسِ ذمے داری سے منسلک کر لیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے ہر عہد میں تطہیر کا عمل جاری رہا ہے۔ اور یہ واحد تحریک ہے جو ببانگ دہل اپنے اندر موجود خرابیوں کا نہ صرف اظہار کرتی ہے بلکہ ان کے تدارک کے لیے جو طریقہ کار تنظیم کے دستور میں وضع کیا گیا ہے، اسے اختیار کر کے صفائی کا عمل جاری رکھتی ہے۔ اس مضبوط اور طاقتور عوامی تحریک کی کامیابی اور اس کے برقرار رہنے کا راز اس کی واحد و یکتا قیادت ہے جس نے ملک کے فرسودہ گلے سڑے نظام کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے آواز بلند کی۔
آج ملک کے دارالحکومت میں جو دو جماعتیں دھرنا دیے ہوئے ہیں، ان کا مؤقف بھی اصلاحات سے جڑا ہوا ہے لیکن شاید انھوں نے اس طاقت کا اندازہ غلط لگایا جو اس ملک پر قابض ہے۔ وہ اس نظام کے تحفظ اور بقاء کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی کی مادرِ علمی سے اُٹھنے والی اس تحریک کے قائد نے آخری اور حتمی کال نہیں دی ہے اور اس میں دو رائے نہیں کہ جب وہ اس نتیجے کو پہنچ جائیں گے کہ اتنی دراڑیں اس نظام میں پڑ چکی ہیں کہ اس کو گرایا جا سکتا ہے اور وہ اس بات کا بھی ادراک رکھیں گے کہ ان کی عوامی طاقت اور کارکنان کی صلاحیت اس نظام کو گرانے کے لیے تیار ہے تو وہ دیر نہیں کریں گے۔
باالفاظِ دیگر نظریے کے خالق اور اس کی دی ہوئی تحریک نظام کو گرانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے تاوقتیکہ قائد کے ماننے والے کارکنان اپنے آپ کو اس کوشش کے لیے تیار کر لیں۔ یہ ذکر اس قیادت کا ہے جسے حال ہی میں بین الاقوامی جریدے نے "The Right Man" کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ لفظ اپنے معنوں میں کئی جہتوں کا حامل ہے اور وہ جہات اس شخصیت کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ آج یہ شخصیت اپنی زندگی کے اکسٹھ برس مکمل کر رہی ہے۔ اور اس پوری زندگی میں نظریے، کاز اور مقصد سے اس کی بقاء اور وابستگی اس طرح سے ہے جیسے جسم اور روح کا ساتھ ہے۔
وہ آج بھی اس سفر کی قیادت کرتے ہوئے ان تمام تر حالات کا ادراک رکھتا ہے جو اس وقت وطن عزیز کو درپیش ہیں۔ یقینا جب بھی کوئی حتمی فیصلہ تبدیلی اور انقلاب کے لیے سامنے آیا تو وہ پاکستان کے سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، وڈیروں اور مکروہ عزائم رکھنے والے حکمرانوں کے لیے آخری کال ثابت ہو گی لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے کہ سب اس تحریک میں ہونے والے تطہیر کے عمل کے نتیجے میں تحریک کے کارکنان اپنے نظرئیے اور کاز کو سامنے رکھیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بالائے طاق رکھ دیں کیونکہ قائد تحریک الطاف حسین نے اس تحریک کو نہ صرف موروثیت سے بچا کر رکھا بلکہ پاکستان کی وہ بڑی سیاسی جماعت ہے۔
جس نے گزشتہ ستائیس سالوں سے اپنے عوامی مینڈیٹ کو برقرار رکھا ہے اور بتدریج اس میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سوچ پاکستان کے طول و عرض میں اس تیزی سے نہیں پھیل رہی جیسے سندھ کے شہری علاقوں میں پھیلی تھی۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس نظرئیے اور اس کاز میں جان نہیں، بلکہ یہ اس نظریے کے ماننے والے کارکنان کی کمزوری ہے کہ وہ اس شد و مد کے ساتھ اس کو نہیں پھیلا پا رہے جس کا تقاضا یہ سوچ اور نظریہ کرتا ہے۔
آج غریبوں کو ایوانوں میں بھیجنے کی بات ہوتی ہے۔ مسائل زدہ معاشرے میں مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات اور قانونی و آئینی اصلاحات کی بات کی جاتی ہے۔ یہ تمام کام قائد تحریک الطاف حسین نے اپنے محدود مینڈیٹ سے کر کے دکھائے۔ اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام اس پلیٹ فارم کو استعمال کریں اور کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکے لیکن اس سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم تمام کارکنان اس معیار پر پورا اتریں جس کا تقاضا ہمارا عہد، ہماری وفا اور ہمارا احساسِ ذمے داری ہم سے کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قائد کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ایک ایسا ماڈل پیش کریں جو تبدیلی کے لیے تمام راستے ہموار کرتا ہو اور یہی تجدید ِ عہدِ وفا ہے۔
آج17 ستمبر کا دن بھی ہمیں تجدید ِ عہد وفا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے اور حقیقی عہد ِ وفا یہی ہے کہ ہم زندگی کے نظریے کو قائد تحریک الطاف حسین کے نظریے سے تبدیل کر دیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے تبدیلی اور حقوق کے حصول کی منزل حاصل کرنے کے لیے اپنے قائد کے شانہ بشانہ کام کریں۔
اس میں بھی دو رائے نہیں کہ جب جب اس قسم کی تحریکوں نے جنم لیا تو سازشوں نے ان تحریکوں میں اپنے ڈیرے جمائے۔ جدوجہد اور سازشیں ایک ساتھ چلتی رہیں۔ یہاں پر کامیابی اس کو ملتی ہے جس کے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں اور جو حوصلے کے ساتھ سازشوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ تاریخ میں ایسی تحریکیں بھی موجود ہیں جو اس مقابلے کے دوران تھک ہار کر ختم ہو گئیں لیکن جن تحریکوں نے اپنے مقاصد کو حاصل کیا، انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔
ایسی ہی ایک تحریک نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے بڑی درسگاہ میں جنم لیا۔ اس تحریک کے روحِ رواں نے کبھی بھی اپنے ماننے والوں سے محبت کا تقاضا نہیں کیا۔ ہمیشہ اس نے اپنے کارکنان کو وفا کا لفظ کہا۔ شاید اس کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہو گی، وہ یہی ہے کہ محبت ایک غیر اختیاری جذبہ ہے جب کہ وفا ایک اختیاری فعل ہے۔ اسی بنیاد پر تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی اور احساسِ ذمے داری کو اس سے مشروط کیا گیا۔
یہ وہ کلیہ ہے جو ستمبر2004 میں اپنی واضح شکل میں سامنے آیا کیونکہ اس تحریک نے ایک طویل دورِ ابتلا کا سامنا کر لیا تھا۔ بہت سی سازشیں بے نقاب ہو چکی تھیں۔ بہت سی کالی بھیڑیں اپنی موت آپ مر چکی تھیں۔ اس کے بعد اس کلیے نے اس راستے کا تعین کیا کہ مظلوموں کی حکمرانی اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے ایک ایسے اصول کو اختیار کیا جائے کہ اپنی وفا کو احساسِ ذمے داری سے منسلک کر لیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے ہر عہد میں تطہیر کا عمل جاری رہا ہے۔ اور یہ واحد تحریک ہے جو ببانگ دہل اپنے اندر موجود خرابیوں کا نہ صرف اظہار کرتی ہے بلکہ ان کے تدارک کے لیے جو طریقہ کار تنظیم کے دستور میں وضع کیا گیا ہے، اسے اختیار کر کے صفائی کا عمل جاری رکھتی ہے۔ اس مضبوط اور طاقتور عوامی تحریک کی کامیابی اور اس کے برقرار رہنے کا راز اس کی واحد و یکتا قیادت ہے جس نے ملک کے فرسودہ گلے سڑے نظام کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے آواز بلند کی۔
آج ملک کے دارالحکومت میں جو دو جماعتیں دھرنا دیے ہوئے ہیں، ان کا مؤقف بھی اصلاحات سے جڑا ہوا ہے لیکن شاید انھوں نے اس طاقت کا اندازہ غلط لگایا جو اس ملک پر قابض ہے۔ وہ اس نظام کے تحفظ اور بقاء کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی کی مادرِ علمی سے اُٹھنے والی اس تحریک کے قائد نے آخری اور حتمی کال نہیں دی ہے اور اس میں دو رائے نہیں کہ جب وہ اس نتیجے کو پہنچ جائیں گے کہ اتنی دراڑیں اس نظام میں پڑ چکی ہیں کہ اس کو گرایا جا سکتا ہے اور وہ اس بات کا بھی ادراک رکھیں گے کہ ان کی عوامی طاقت اور کارکنان کی صلاحیت اس نظام کو گرانے کے لیے تیار ہے تو وہ دیر نہیں کریں گے۔
باالفاظِ دیگر نظریے کے خالق اور اس کی دی ہوئی تحریک نظام کو گرانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے تاوقتیکہ قائد کے ماننے والے کارکنان اپنے آپ کو اس کوشش کے لیے تیار کر لیں۔ یہ ذکر اس قیادت کا ہے جسے حال ہی میں بین الاقوامی جریدے نے "The Right Man" کے خطاب سے نوازا ہے۔ یہ لفظ اپنے معنوں میں کئی جہتوں کا حامل ہے اور وہ جہات اس شخصیت کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ آج یہ شخصیت اپنی زندگی کے اکسٹھ برس مکمل کر رہی ہے۔ اور اس پوری زندگی میں نظریے، کاز اور مقصد سے اس کی بقاء اور وابستگی اس طرح سے ہے جیسے جسم اور روح کا ساتھ ہے۔
وہ آج بھی اس سفر کی قیادت کرتے ہوئے ان تمام تر حالات کا ادراک رکھتا ہے جو اس وقت وطن عزیز کو درپیش ہیں۔ یقینا جب بھی کوئی حتمی فیصلہ تبدیلی اور انقلاب کے لیے سامنے آیا تو وہ پاکستان کے سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، وڈیروں اور مکروہ عزائم رکھنے والے حکمرانوں کے لیے آخری کال ثابت ہو گی لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے کہ سب اس تحریک میں ہونے والے تطہیر کے عمل کے نتیجے میں تحریک کے کارکنان اپنے نظرئیے اور کاز کو سامنے رکھیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بالائے طاق رکھ دیں کیونکہ قائد تحریک الطاف حسین نے اس تحریک کو نہ صرف موروثیت سے بچا کر رکھا بلکہ پاکستان کی وہ بڑی سیاسی جماعت ہے۔
جس نے گزشتہ ستائیس سالوں سے اپنے عوامی مینڈیٹ کو برقرار رکھا ہے اور بتدریج اس میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سوچ پاکستان کے طول و عرض میں اس تیزی سے نہیں پھیل رہی جیسے سندھ کے شہری علاقوں میں پھیلی تھی۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس نظرئیے اور اس کاز میں جان نہیں، بلکہ یہ اس نظریے کے ماننے والے کارکنان کی کمزوری ہے کہ وہ اس شد و مد کے ساتھ اس کو نہیں پھیلا پا رہے جس کا تقاضا یہ سوچ اور نظریہ کرتا ہے۔
آج غریبوں کو ایوانوں میں بھیجنے کی بات ہوتی ہے۔ مسائل زدہ معاشرے میں مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات اور قانونی و آئینی اصلاحات کی بات کی جاتی ہے۔ یہ تمام کام قائد تحریک الطاف حسین نے اپنے محدود مینڈیٹ سے کر کے دکھائے۔ اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام اس پلیٹ فارم کو استعمال کریں اور کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکے لیکن اس سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم تمام کارکنان اس معیار پر پورا اتریں جس کا تقاضا ہمارا عہد، ہماری وفا اور ہمارا احساسِ ذمے داری ہم سے کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قائد کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ایک ایسا ماڈل پیش کریں جو تبدیلی کے لیے تمام راستے ہموار کرتا ہو اور یہی تجدید ِ عہدِ وفا ہے۔
آج17 ستمبر کا دن بھی ہمیں تجدید ِ عہد وفا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے اور حقیقی عہد ِ وفا یہی ہے کہ ہم زندگی کے نظریے کو قائد تحریک الطاف حسین کے نظریے سے تبدیل کر دیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے تبدیلی اور حقوق کے حصول کی منزل حاصل کرنے کے لیے اپنے قائد کے شانہ بشانہ کام کریں۔