مقدس اتحاد اور عوام
ذرا اندازہ لگائیں کہ بندر ہر مرتبہ کیا کرتا ہے؟ آپ نے درست اندازہ لگایا، وہ اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھتا ہے...
ٹریزے کے ساتھ روسو کی پہلی ملاقات مارچ 1745میں ہوئی تھی، اس وقت اس کی عمر 33 سال تھی۔ اگلے سال وہ مادام ڈیوپاں اور اس کے داماد کا سیکریٹری مقرر ہوا اور 1749میں اس نے پیرس کے آزاد خیال دانشوروں کے ایک حلقے کی طرف سے شایع ہونے والے انسائیکلوپیڈیا کے لیے موسیقی کے موضوع پر مقالات لکھنے شروع کیے۔
اس کا دوست دیدرو انسائیکلوپیڈیا کا مدیر تھا اور اسی نے روسو کو قلمی تعاون پر آمادہ کیا لیکن فرانس کے سیاسی اور مذہبی حکمرانوں کو دانشوروں کا یہ حلقہ اور انسائیکلوپیڈیا پسند نہ تھا۔ یہ لوگ نئے خیالات اور نئے علوم و فنون کو فرانس میں متعارف کروا رہے تھے اور حکمران ان باتوں کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے تھے۔ آخر کار 24 جولائی 1749 کو دیدرو کو ''اندھوں کے بارے میں ایک مکتوب'' کے عنوان سے مضمون لکھنے کی پاداش میں گرفتار کر کے ون سینے کے جیل خانے میں بند کر دیا گیا۔ اکتوبر کے مہینے میں روسو اپنے اس دوست سے ملاقات کی غرض سے جیل خانے کی طرف روانہ ہوا۔
اس مختصر سفر میں وہ بڑا واقعہ پیش آیا جس نے روسو کی کایا پلٹ دی اور اس کو وہ روپ دیا جس سے آج ہم آشنا ہیں۔ اس تقدیرساز واقعے کا ذکر روسو نے خود کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ہم اسی سے رجوع کرتے ہیں۔ ''اعترافات'' میں وہ ہم کو بتاتا ہے کہ اکتوبر 1749کی ایک گرم سہ پہر کو وہ اپنے دوست سے ملنے جا رہا تھا۔ راستے میں اس کو اخبار کے ذریعے ایک انعامی تحریری مقابلے کی اطلاع ملی۔ اس انعامی مقابلے کا اعلان دویژن کی اکادمی نے کیا تھا، جو اٹھارہویں صدی کے فرانس کے علمی اداروں میں نمایاں مقام رکھتی تھی اور ان تمام اکادمیوں سے پرانی تھی جو دارالحکومت پیرس سے باہر وجود میں آ گئی تھیں۔ مقابلے کے لیے اکادمی نے ایک ایسا موضوع چنا تھا جس پر صدیوں تک بحث ہوتی رہی ہے۔ وہ موضوع یہ تھا کہ آیا علوم و فنون کی ترقی نے اخلاق سدھارنے میں مدد دی ہے یا ان کو بگاڑ دیا ہے۔
روسو لکھتا ہے کہ جونہی اس نے یہ خبر پڑھی تو اسے محسوس ہوا کہ جیسے اس کے دل میں سیکڑوں چراغ روشن ہو گئے۔ خیالات کے ہجوم نے اس کے ذہن پر حملہ کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ نڈھال ہو گیا اور اس کو چلنے میں دشواری پیش آنے لگی۔ اس کیفیت میں وہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے تک اس پر شدید جذباتی دباؤ طاری رہا ۔ اس کے بعد ''جب میں اٹھا تو دیکھا کہ میری واسکٹ کا اگلا حصہ میرے آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔ مجھے یکسر خبر نہ ہوئی کہ میں نے آنسو کب بہائے۔
آہ میں سچ کہتا ہوں کہ اس درخت تلے میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا تھا، اس کا چوتھا حصہ بھی میں معرض تحریر میں لانے میں کامیاب ہو جاتا تو میں اپنے سماجی نظام کے جملہ تضادات بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔'' وہ لکھتا ہے کہ انسان فطرت کے اعتبار سے نیک ہے۔ یہ ارادے ہی ہیں جنھوں نے اس کا ستیاناس کیا ہے''۔ ہمارا بھی ستیاناس اسی ارادے کے ہاتھوں ہوا ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کے رفقانے ارادہ کیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک حاصل کیا جائے، جہاں انھیں معاشی، سیاسی اور سماجی انصاف حاصل ہو سکے، جہاں انھیں آزادی نصیب ہو سکے، جہاں ان کا استحصال نہ ہو، جہاں وہ خوشحال اور بااختیار ہوں۔ اسی ارادے کے بعد انھوں نے جدوجہد شروع کی اور ان کی جدوجہد میں لوگوں نے بھرپور ساتھ دیا اور وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے اور ایک نیا ملک پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اسے لوگوں کی بدقسمتی کہیں گے کہ قائداعظم کا جلد ہی انتقال ہو گیا اور انھیں اپنی سوچ اور خیالات کے مطابق پاکستان بنانا نصیب نہ ہوا۔
ان کے انتقال کے بعد ہی بیوروکریسی نے ارادہ کیا کہ کیوں نہ وہ اپنا تسلط نئے ملک میں قائم کر دیں، وہ اپنے ارادے میں جلد ہی کامیاب ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی ملاؤں نے بھی نئے ملک کو مال غنیمت سمجھا، لہٰذا انھوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنا تسلط پہلے تو قائم نہ کر سکے کیوں نہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں کر دیں۔ اور پھر انھوں نے قرارداد مقاصد کی آڑ میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دیے۔ باقی دیگر معاملات تاریخ کا حصہ ہیں۔
ان کی دیکھادیکھی ابن الوقت اور مفاد پرست جاگیردار سیاست دانوں نے جن کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا اور نہ ہی انھوں نے کسی قسم کی کوئی قربانیاں دی تھیں، انھوں نے جب دیکھا کہ نئے ملک کے حصے بخرے ہو رہے ہیں تو وہ کیسے پیچھے رہ سکتے تھے، لہٰذا وہ بھی میدان میں کودے اور آپس میں اتحاد قائم کر کے ارادہ کیا کہ بہتی ندی میں وہ بھی ہاتھ دھوئیں گے۔ وہ بھی اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے۔
لہٰذا ملک میں ایک ''مقدس'' اتحاد وجود میں آ گیا، جس میں بیوروکریسی، جاگیردار، سیاست دان اور ملا شامل تھے اور وہ ہی مقدس اتحاد آج تک قائم و دائم ہے اور ساتھ ساتھ اسی مقدس اتحاد کا ملک پر تسلط بھی جاری و ساری ہے اور اسی تسلط کی کھڑکی توڑ نمائش آپ کو ہر جگہ مل جائے گی۔ باقی رہ گئے بیچارے عوام، تو نہ تو انھوں نے کبھی اپنے بااختیار اور خوشحال ہونے کا ارادہ کیا اور نہ کبھی اس کے لیے سوچا۔ پھر ظاہر ہے ان کا تو ستیاناس ہونا ہی تھا، جو ہو رہا ہے۔
ہندوستان میں بندروں کے شکاری انھیں پکڑنے کے لیے ایک صندوق استعمال کرتے ہیں جس کے اوپر ڈھکنے میں ایک کھلا سوراخ ہوتا ہے، جو اتنا بڑا ہوتا ہے کہ بندر اس میں اپنا ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ اس صندوق میں اخروٹ ہوتے ہیں، بندر سوراخ سے ہاتھ صندوق میں ڈال کر اخروٹوں سے مٹھی بھر لیتا ہے، اب وہ مٹھی کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوراخ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں سے صرف کھلا ہاتھ ہی نکل سکتا ہے، بند مٹھی نہیں۔ بندر کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ یا تو اخروٹ مٹھی سے نکال کر آزاد ہو جائے یا اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھے اور پھنسا رہے۔
ذرا اندازہ لگائیں کہ بندر ہر مرتبہ کیا کرتا ہے؟ آپ نے درست اندازہ لگایا، وہ اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھتا ہے اور پھنسا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح کی واردات ہمارا مقدس اتحاد بھی عوام کے ساتھ کر رہا ہے، اس نے بھی برائے نام حقوق، نہ ہونے والی آزادی، ذلت سے بھری خوشحالی ایک صندوق میں بند کر کے رکھ دی ہے، جب لوگ اسے لینے کے لیے صندوق میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ ان کے جال میں بندر کی طرح پھنس جاتے ہیں۔ ہم بندروں سے مختلف نہیں ہیں، ہم بھی ساری زندگی ان ہی اخروٹوں کو پکڑے رکھے ہوئے ہیں جو ہمیں نہ تو خوشحال اور بااختیار بننے دے رہے ہیں اور نہ ہی آزاد ہونے دے رہے ہیں۔
ہم مسلسل یہ جواز تراشتے رہتے ہیں کہ ہم آزاد، بااختیار اور خوشحال اس وجہ سے نہیں ہو سکتے کہ ... یاد رکھیے یہ ''کہ ...'' ہمیشہ اخروٹ ہوتے ہیں، جنھیں پکڑے رکھنے کی وجہ سے ہم ترقی، کامیابی اور خوشحالی سے کوسوں دور ہیں۔ کامیاب لوگ جواز نہیں تراشتے بلکہ ناکام لوگ جواز تراشتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے مفت مشورہ یہ ہے کہ سوچو مت، پوچھو مت، سنو مت، صرف جواز تراشتے رہو اور اخروٹ پکڑے رکھو۔ اب آپ آزاد، خوشحال، بااختیار ہو کر کرو گے بھی کیا؟ 67 سال تو تم نے اخروٹ پکڑے پکڑے ضایع کر دیے ہیں، تمھارے نام پر تمھارے ذریعے 67 سال سے مخصوص لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، مزے کر رہے ہیں، اسمبلیوں میں بیٹھ کر تمھارے ٹیکسوں پر عیاشیاں کر رہے ہیں، اگر مزید اور سال مزے کر لیں گے تو تمہیں کیا فرق پڑے گا۔ بس تم اپنا کام جاری رکھو اور اخروٹ پکڑے رہو۔
اس کا دوست دیدرو انسائیکلوپیڈیا کا مدیر تھا اور اسی نے روسو کو قلمی تعاون پر آمادہ کیا لیکن فرانس کے سیاسی اور مذہبی حکمرانوں کو دانشوروں کا یہ حلقہ اور انسائیکلوپیڈیا پسند نہ تھا۔ یہ لوگ نئے خیالات اور نئے علوم و فنون کو فرانس میں متعارف کروا رہے تھے اور حکمران ان باتوں کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے تھے۔ آخر کار 24 جولائی 1749 کو دیدرو کو ''اندھوں کے بارے میں ایک مکتوب'' کے عنوان سے مضمون لکھنے کی پاداش میں گرفتار کر کے ون سینے کے جیل خانے میں بند کر دیا گیا۔ اکتوبر کے مہینے میں روسو اپنے اس دوست سے ملاقات کی غرض سے جیل خانے کی طرف روانہ ہوا۔
اس مختصر سفر میں وہ بڑا واقعہ پیش آیا جس نے روسو کی کایا پلٹ دی اور اس کو وہ روپ دیا جس سے آج ہم آشنا ہیں۔ اس تقدیرساز واقعے کا ذکر روسو نے خود کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ہم اسی سے رجوع کرتے ہیں۔ ''اعترافات'' میں وہ ہم کو بتاتا ہے کہ اکتوبر 1749کی ایک گرم سہ پہر کو وہ اپنے دوست سے ملنے جا رہا تھا۔ راستے میں اس کو اخبار کے ذریعے ایک انعامی تحریری مقابلے کی اطلاع ملی۔ اس انعامی مقابلے کا اعلان دویژن کی اکادمی نے کیا تھا، جو اٹھارہویں صدی کے فرانس کے علمی اداروں میں نمایاں مقام رکھتی تھی اور ان تمام اکادمیوں سے پرانی تھی جو دارالحکومت پیرس سے باہر وجود میں آ گئی تھیں۔ مقابلے کے لیے اکادمی نے ایک ایسا موضوع چنا تھا جس پر صدیوں تک بحث ہوتی رہی ہے۔ وہ موضوع یہ تھا کہ آیا علوم و فنون کی ترقی نے اخلاق سدھارنے میں مدد دی ہے یا ان کو بگاڑ دیا ہے۔
روسو لکھتا ہے کہ جونہی اس نے یہ خبر پڑھی تو اسے محسوس ہوا کہ جیسے اس کے دل میں سیکڑوں چراغ روشن ہو گئے۔ خیالات کے ہجوم نے اس کے ذہن پر حملہ کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ نڈھال ہو گیا اور اس کو چلنے میں دشواری پیش آنے لگی۔ اس کیفیت میں وہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے تک اس پر شدید جذباتی دباؤ طاری رہا ۔ اس کے بعد ''جب میں اٹھا تو دیکھا کہ میری واسکٹ کا اگلا حصہ میرے آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔ مجھے یکسر خبر نہ ہوئی کہ میں نے آنسو کب بہائے۔
آہ میں سچ کہتا ہوں کہ اس درخت تلے میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا تھا، اس کا چوتھا حصہ بھی میں معرض تحریر میں لانے میں کامیاب ہو جاتا تو میں اپنے سماجی نظام کے جملہ تضادات بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔'' وہ لکھتا ہے کہ انسان فطرت کے اعتبار سے نیک ہے۔ یہ ارادے ہی ہیں جنھوں نے اس کا ستیاناس کیا ہے''۔ ہمارا بھی ستیاناس اسی ارادے کے ہاتھوں ہوا ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کے رفقانے ارادہ کیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک حاصل کیا جائے، جہاں انھیں معاشی، سیاسی اور سماجی انصاف حاصل ہو سکے، جہاں انھیں آزادی نصیب ہو سکے، جہاں ان کا استحصال نہ ہو، جہاں وہ خوشحال اور بااختیار ہوں۔ اسی ارادے کے بعد انھوں نے جدوجہد شروع کی اور ان کی جدوجہد میں لوگوں نے بھرپور ساتھ دیا اور وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے اور ایک نیا ملک پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اسے لوگوں کی بدقسمتی کہیں گے کہ قائداعظم کا جلد ہی انتقال ہو گیا اور انھیں اپنی سوچ اور خیالات کے مطابق پاکستان بنانا نصیب نہ ہوا۔
ان کے انتقال کے بعد ہی بیوروکریسی نے ارادہ کیا کہ کیوں نہ وہ اپنا تسلط نئے ملک میں قائم کر دیں، وہ اپنے ارادے میں جلد ہی کامیاب ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی ملاؤں نے بھی نئے ملک کو مال غنیمت سمجھا، لہٰذا انھوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنا تسلط پہلے تو قائم نہ کر سکے کیوں نہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں کر دیں۔ اور پھر انھوں نے قرارداد مقاصد کی آڑ میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دیے۔ باقی دیگر معاملات تاریخ کا حصہ ہیں۔
ان کی دیکھادیکھی ابن الوقت اور مفاد پرست جاگیردار سیاست دانوں نے جن کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا اور نہ ہی انھوں نے کسی قسم کی کوئی قربانیاں دی تھیں، انھوں نے جب دیکھا کہ نئے ملک کے حصے بخرے ہو رہے ہیں تو وہ کیسے پیچھے رہ سکتے تھے، لہٰذا وہ بھی میدان میں کودے اور آپس میں اتحاد قائم کر کے ارادہ کیا کہ بہتی ندی میں وہ بھی ہاتھ دھوئیں گے۔ وہ بھی اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے۔
لہٰذا ملک میں ایک ''مقدس'' اتحاد وجود میں آ گیا، جس میں بیوروکریسی، جاگیردار، سیاست دان اور ملا شامل تھے اور وہ ہی مقدس اتحاد آج تک قائم و دائم ہے اور ساتھ ساتھ اسی مقدس اتحاد کا ملک پر تسلط بھی جاری و ساری ہے اور اسی تسلط کی کھڑکی توڑ نمائش آپ کو ہر جگہ مل جائے گی۔ باقی رہ گئے بیچارے عوام، تو نہ تو انھوں نے کبھی اپنے بااختیار اور خوشحال ہونے کا ارادہ کیا اور نہ کبھی اس کے لیے سوچا۔ پھر ظاہر ہے ان کا تو ستیاناس ہونا ہی تھا، جو ہو رہا ہے۔
ہندوستان میں بندروں کے شکاری انھیں پکڑنے کے لیے ایک صندوق استعمال کرتے ہیں جس کے اوپر ڈھکنے میں ایک کھلا سوراخ ہوتا ہے، جو اتنا بڑا ہوتا ہے کہ بندر اس میں اپنا ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ اس صندوق میں اخروٹ ہوتے ہیں، بندر سوراخ سے ہاتھ صندوق میں ڈال کر اخروٹوں سے مٹھی بھر لیتا ہے، اب وہ مٹھی کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوراخ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں سے صرف کھلا ہاتھ ہی نکل سکتا ہے، بند مٹھی نہیں۔ بندر کو انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ یا تو اخروٹ مٹھی سے نکال کر آزاد ہو جائے یا اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھے اور پھنسا رہے۔
ذرا اندازہ لگائیں کہ بندر ہر مرتبہ کیا کرتا ہے؟ آپ نے درست اندازہ لگایا، وہ اخروٹ مٹھی میں پکڑے رکھتا ہے اور پھنسا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح کی واردات ہمارا مقدس اتحاد بھی عوام کے ساتھ کر رہا ہے، اس نے بھی برائے نام حقوق، نہ ہونے والی آزادی، ذلت سے بھری خوشحالی ایک صندوق میں بند کر کے رکھ دی ہے، جب لوگ اسے لینے کے لیے صندوق میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ ان کے جال میں بندر کی طرح پھنس جاتے ہیں۔ ہم بندروں سے مختلف نہیں ہیں، ہم بھی ساری زندگی ان ہی اخروٹوں کو پکڑے رکھے ہوئے ہیں جو ہمیں نہ تو خوشحال اور بااختیار بننے دے رہے ہیں اور نہ ہی آزاد ہونے دے رہے ہیں۔
ہم مسلسل یہ جواز تراشتے رہتے ہیں کہ ہم آزاد، بااختیار اور خوشحال اس وجہ سے نہیں ہو سکتے کہ ... یاد رکھیے یہ ''کہ ...'' ہمیشہ اخروٹ ہوتے ہیں، جنھیں پکڑے رکھنے کی وجہ سے ہم ترقی، کامیابی اور خوشحالی سے کوسوں دور ہیں۔ کامیاب لوگ جواز نہیں تراشتے بلکہ ناکام لوگ جواز تراشتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے مفت مشورہ یہ ہے کہ سوچو مت، پوچھو مت، سنو مت، صرف جواز تراشتے رہو اور اخروٹ پکڑے رکھو۔ اب آپ آزاد، خوشحال، بااختیار ہو کر کرو گے بھی کیا؟ 67 سال تو تم نے اخروٹ پکڑے پکڑے ضایع کر دیے ہیں، تمھارے نام پر تمھارے ذریعے 67 سال سے مخصوص لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، مزے کر رہے ہیں، اسمبلیوں میں بیٹھ کر تمھارے ٹیکسوں پر عیاشیاں کر رہے ہیں، اگر مزید اور سال مزے کر لیں گے تو تمہیں کیا فرق پڑے گا۔ بس تم اپنا کام جاری رکھو اور اخروٹ پکڑے رہو۔