اقامتی تعلیمی اداروں کی ضرورت
راقم کو نیشنل ہائی وے کے دونوں اطراف خان گڑھ اور مظفر گڑھ کے...
سندھ کے مقابلے میں پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں تعلیمی معیار تمام صوبوں سے بہتر ہے اور پنجاب کے لوگوں کی فوج میں زیادہ تعداد میں شمولیت کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں کیڈٹ کالجز بھی زیادہ ہیں اور کیڈٹ کالجوں میں داخلے کے لیے جو مقررہ معیار ہے اس معیار تک پہنچانے کے لیے پنجاب میں اقامتی تعلیمی ادارے موجود ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پاک فوج جوائن کرنے کے لیے نوجوان طلبا کی ایک بڑی تعداد نے دیہی علاقوں میں قائم اقامتی تعلیمی اداروں سے اپنی بنیاد مضبوط کی ہے۔
راقم کو نیشنل ہائی وے کے دونوں اطراف خان گڑھ اور مظفر گڑھ کے درمیان درجنوں اقامتی تعلیمی ادارے نظر آئے اور بعض اسکول دیکھنے کا بھی موقعہ ملا جن میں دین پور میں واقع ایک مثالی اسکول بھی ہے۔ ایک وسیع علاقے میں قائم یہ اسکول ایسا کیڈٹ ساز ادارہ ہے جہاں بچوں کی فطری، ذہنی، جسمانی، جذباتی اور اخلاقی خوبیوں کو نکھار کر اور ان میں قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کر کے پاکستان کے معروف کیڈٹ کالجز کے مقابلے کے امتحان کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
ملک میں قوم کو معیاری تعلیم دینے کے کیڈٹ کالجز چند ہی ہیں جہاں اثر و رسوخ و سفارش پر داخلہ کا رتی برابر بھی امکان نہیں ہے جہاں کے اصول، نظم و ضبط اور قوانین بہت سخت ہیں اور وہاں وزیر اعظم کے صاحبزادے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کیڈٹ سے یکساں سلوک ہوتا ہے اور امتیازی طور پر کسی کو کسی پر ترجیح دی جاتی ہے نہ اہمیت ملتی ہے۔
کیڈٹ کالجوں میں صلاحیت اور میرٹ پر داخلے ملتے ہیں اور یہ قابلیت حاصل کرنے اور میرٹ پر پورا اترنے کے لیے طلبا کو ایسے اقامتی اداروں میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے جہاں امیروں کے بچوں کو بھی وہاں کے علاقے کے غریب بچوں کے ساتھ چٹائیوں اور دریوں پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ان اقامتی اداروں میں دور دور سے طلبا پڑھنے آتے ہیں جن کی اکثریت اپنے وسائل کے باعث کیڈٹ کالجز میں داخلے کے لیے صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔
ان اقامتی اسکولوں میں پڑھنے والوں میں امیر والدین کی اولاد کو نہ اے سی میسر ہیں نہ ان سے کوئی امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اسکول میں زمین پر بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے اور لوڈشیڈنگ میں انھیں بھی دوسروں کی طرح پسینے کی حالت میں پڑھنا اور سونا پڑتا ہے۔ یہ اقامتی تعلیمی ادارے شہر سے باہر وسیع جگہوں پر مشتمل دیہی علاقوں میں قائم ہیں جہاں دوران تعلیم کسی تفریح کا تصور نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز کھانے پینے، پڑھنے، نماز، ٹی وی دیکھنے، کمپیوٹر کلاسز، ورزش، صبح جلد اٹھنے، رات کو جلد سونے کے اوقات مقرر ہیں اور حصول تعلیم پر وہاں زیادہ وقت مختص ہے اور اقامتی اداروں میں آنے کا مقصد بھی تعلیم کا حصول ہوتا ہے۔
ان تعلیمی اداروں میں بچوں کو کئی سال گزارنا پڑتے ہیں۔ وہ اپنے گھروں، والدین، بہن بھائیوں سے دور رہ کر ساری توجہ تعلیم پر دیتے ہیں اور انھیں مقررہ اوقات ہی میں گھر جانے کی چھٹی میسر آتی ہے اور اقامتی اسکولوں ہی میں رہ کر اپنا ہوم ورک بھی مکمل کرنا پڑتا ہے۔
دینی تعلیم کے لیے ہمارے ملک میں بڑے بڑے مدارس موجود ہیں جہاں اندرون ملک سے ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی طلبا حصول علم کے لیے آتے ہیں اور ان کا قیام ان ہی دینی مدرسوں میں ہوتا ہے جہاں انھیں دین کے مختلف علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ مدارس دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے اقامتی ادارے بھی ہیں جہاں رہ کر انھیں مقررہ مدت تک تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔
اقامتی دینی تعلیمی اداروں کو بیرون ملک این جی اوز بھی کہا جاتا ہے جہاں انھیں ہر علم کی دینی تعلیم ملتی ہے۔ ان مدارس میں اکثریت ایسی ہے جن کے مالی وسائل محدود ہیں اور وہاں بچوں کو کھانے لانے کے لیے باہر بھیجا جاتا ہے اور وہاں رہائش بھی فرسودہ ہوتی ہے مگر اب بڑے بڑے دینی ادارے وجود میں آ چکے ہیں اور یہ عطیات کے ذریعے جدید دینی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے خوبصورت جدید عمارتیں، بہترین فرنیچر، سونے کے لیے آرام دہ بستر اور خوراک صاف ستھرے طور پر تیار کی جاتی ہے۔ ان اداروں کی سالانہ تقاریب تقسیم اسناد ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اکثر نجی اسکول تجارتی بنیادوں پر قائم ہو رہے ہیں۔
ان اسکولوں میں داخلہ لینا غریبوں کے لیے ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں اور وہاں امیروں یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد یا افسروں کے بچے ہی داخلہ لے کر پڑھ سکتے ہیں۔ ان نجی اداروں میں طلبا کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اس لیے وہاں بھی شفٹوں میں تعلیم دی جانے لگی ہے تا کہ مالکان کی کمائی بڑھتی جائے اور ان کا نام نہاد تعلیمی معیار برقرار رہے۔ شہروں میں نجی تعلیمی ادارے اقامتی نہیں ہوتے جب کہ دیہی علاقوں میں نجی اقامتی اسکول بڑھ رہے ہیں جہاں سادگی ضرور ہوتی ہے مگر وہاں اکثر تعلیمی معیار برقرار رکھا جاتا ہے۔ ان اسکولوں میں بھی باہمی مقابلوں کے باعث اب معیار تعلیم ترجیح بن گیا ہے۔ ان اسکولوں میں دور دور سے آئے ہوئے طلبا کو رہائش بھی دی جاتی ہے اور قریبی علاقوں والے اپنے گھر روزانہ آتے جاتے ہیں۔
1964ء میں میٹرک امتیازی حیثیت سے پاس کر کے جے وی کے امتحان میں پنجاب میں سوم اور پھر سی ٹی کے امتحان میں اول پوزیشن لینے والے محمد جمیل قریشی نے 1967ء میں بطور سرکاری معلم بننے کا فیصلہ کیا تو ان کا مقصد اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے نئی نسل کو بہترین تعلیم فراہم کرنا تھا اور بعد میں انھوں نے تعلیمی دنیا میں انقلاب لانے کے لیے دین پور میں مثالی اسکول قائم کیا جو 1988ء میں مڈل تک تعلیم کے لیے تھا جس کے استاد کرم الٰہی کو پرائمری، مڈل اور کیڈٹ کالجز کے شاندار نتائج کی بنیاد پر پہلی بار صدارتی ایوارڈ ملا۔ جب کہ ڈویژن میں اول آنے پر قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مثالی مڈل اسکول کے بانی محمد جمیل قریشی سے ملک کی تعلیمی بدحالی سے متعلق میں نے سوال کیا تو سادگی کے پیکر معلم نے بتایا کہ مراعات یافتہ طبقے کے مفادات اور سیاسی غلبے کی ریشہ دوانیوں کے تعلیمی عمل پر جو اثرات پڑے ان کی وجہ سے تعلیمی نظام اپنے ملی تقاضوں کی تکمیل کر پایا نہ معیاری تعلیمی تقاضوں کی طرف پیش رفت ہو سکی۔
ہمارا تعلیمی عمل ناکامیوں اور نامرادیوں کا ایسا طویل سفر ہے جس کی منزل کا تعین اب تک نہیں ہو سکا ہے اور پاکستان خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں 159 نمبر پر ہے اور ہمارا تعلیم کا بجٹ جی این پی کا 2.44 فی صد ہے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ اور نظام تعلیم کا قبلہ درست ہونا ضروری اور سب کو تعلیم کے لیے اپنی قومی ذمے داری محسوس کر کے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ خواندگی کی شرح میں اضافے کے ساتھ بدلتے تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے پر توجہ وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔
راقم کو نیشنل ہائی وے کے دونوں اطراف خان گڑھ اور مظفر گڑھ کے درمیان درجنوں اقامتی تعلیمی ادارے نظر آئے اور بعض اسکول دیکھنے کا بھی موقعہ ملا جن میں دین پور میں واقع ایک مثالی اسکول بھی ہے۔ ایک وسیع علاقے میں قائم یہ اسکول ایسا کیڈٹ ساز ادارہ ہے جہاں بچوں کی فطری، ذہنی، جسمانی، جذباتی اور اخلاقی خوبیوں کو نکھار کر اور ان میں قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کر کے پاکستان کے معروف کیڈٹ کالجز کے مقابلے کے امتحان کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
ملک میں قوم کو معیاری تعلیم دینے کے کیڈٹ کالجز چند ہی ہیں جہاں اثر و رسوخ و سفارش پر داخلہ کا رتی برابر بھی امکان نہیں ہے جہاں کے اصول، نظم و ضبط اور قوانین بہت سخت ہیں اور وہاں وزیر اعظم کے صاحبزادے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کیڈٹ سے یکساں سلوک ہوتا ہے اور امتیازی طور پر کسی کو کسی پر ترجیح دی جاتی ہے نہ اہمیت ملتی ہے۔
کیڈٹ کالجوں میں صلاحیت اور میرٹ پر داخلے ملتے ہیں اور یہ قابلیت حاصل کرنے اور میرٹ پر پورا اترنے کے لیے طلبا کو ایسے اقامتی اداروں میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے جہاں امیروں کے بچوں کو بھی وہاں کے علاقے کے غریب بچوں کے ساتھ چٹائیوں اور دریوں پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ان اقامتی اداروں میں دور دور سے طلبا پڑھنے آتے ہیں جن کی اکثریت اپنے وسائل کے باعث کیڈٹ کالجز میں داخلے کے لیے صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔
ان اقامتی اسکولوں میں پڑھنے والوں میں امیر والدین کی اولاد کو نہ اے سی میسر ہیں نہ ان سے کوئی امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اسکول میں زمین پر بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے اور لوڈشیڈنگ میں انھیں بھی دوسروں کی طرح پسینے کی حالت میں پڑھنا اور سونا پڑتا ہے۔ یہ اقامتی تعلیمی ادارے شہر سے باہر وسیع جگہوں پر مشتمل دیہی علاقوں میں قائم ہیں جہاں دوران تعلیم کسی تفریح کا تصور نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز کھانے پینے، پڑھنے، نماز، ٹی وی دیکھنے، کمپیوٹر کلاسز، ورزش، صبح جلد اٹھنے، رات کو جلد سونے کے اوقات مقرر ہیں اور حصول تعلیم پر وہاں زیادہ وقت مختص ہے اور اقامتی اداروں میں آنے کا مقصد بھی تعلیم کا حصول ہوتا ہے۔
ان تعلیمی اداروں میں بچوں کو کئی سال گزارنا پڑتے ہیں۔ وہ اپنے گھروں، والدین، بہن بھائیوں سے دور رہ کر ساری توجہ تعلیم پر دیتے ہیں اور انھیں مقررہ اوقات ہی میں گھر جانے کی چھٹی میسر آتی ہے اور اقامتی اسکولوں ہی میں رہ کر اپنا ہوم ورک بھی مکمل کرنا پڑتا ہے۔
دینی تعلیم کے لیے ہمارے ملک میں بڑے بڑے مدارس موجود ہیں جہاں اندرون ملک سے ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی طلبا حصول علم کے لیے آتے ہیں اور ان کا قیام ان ہی دینی مدرسوں میں ہوتا ہے جہاں انھیں دین کے مختلف علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ مدارس دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے اقامتی ادارے بھی ہیں جہاں رہ کر انھیں مقررہ مدت تک تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔
اقامتی دینی تعلیمی اداروں کو بیرون ملک این جی اوز بھی کہا جاتا ہے جہاں انھیں ہر علم کی دینی تعلیم ملتی ہے۔ ان مدارس میں اکثریت ایسی ہے جن کے مالی وسائل محدود ہیں اور وہاں بچوں کو کھانے لانے کے لیے باہر بھیجا جاتا ہے اور وہاں رہائش بھی فرسودہ ہوتی ہے مگر اب بڑے بڑے دینی ادارے وجود میں آ چکے ہیں اور یہ عطیات کے ذریعے جدید دینی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے خوبصورت جدید عمارتیں، بہترین فرنیچر، سونے کے لیے آرام دہ بستر اور خوراک صاف ستھرے طور پر تیار کی جاتی ہے۔ ان اداروں کی سالانہ تقاریب تقسیم اسناد ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اکثر نجی اسکول تجارتی بنیادوں پر قائم ہو رہے ہیں۔
ان اسکولوں میں داخلہ لینا غریبوں کے لیے ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں اور وہاں امیروں یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد یا افسروں کے بچے ہی داخلہ لے کر پڑھ سکتے ہیں۔ ان نجی اداروں میں طلبا کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اس لیے وہاں بھی شفٹوں میں تعلیم دی جانے لگی ہے تا کہ مالکان کی کمائی بڑھتی جائے اور ان کا نام نہاد تعلیمی معیار برقرار رہے۔ شہروں میں نجی تعلیمی ادارے اقامتی نہیں ہوتے جب کہ دیہی علاقوں میں نجی اقامتی اسکول بڑھ رہے ہیں جہاں سادگی ضرور ہوتی ہے مگر وہاں اکثر تعلیمی معیار برقرار رکھا جاتا ہے۔ ان اسکولوں میں بھی باہمی مقابلوں کے باعث اب معیار تعلیم ترجیح بن گیا ہے۔ ان اسکولوں میں دور دور سے آئے ہوئے طلبا کو رہائش بھی دی جاتی ہے اور قریبی علاقوں والے اپنے گھر روزانہ آتے جاتے ہیں۔
1964ء میں میٹرک امتیازی حیثیت سے پاس کر کے جے وی کے امتحان میں پنجاب میں سوم اور پھر سی ٹی کے امتحان میں اول پوزیشن لینے والے محمد جمیل قریشی نے 1967ء میں بطور سرکاری معلم بننے کا فیصلہ کیا تو ان کا مقصد اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے نئی نسل کو بہترین تعلیم فراہم کرنا تھا اور بعد میں انھوں نے تعلیمی دنیا میں انقلاب لانے کے لیے دین پور میں مثالی اسکول قائم کیا جو 1988ء میں مڈل تک تعلیم کے لیے تھا جس کے استاد کرم الٰہی کو پرائمری، مڈل اور کیڈٹ کالجز کے شاندار نتائج کی بنیاد پر پہلی بار صدارتی ایوارڈ ملا۔ جب کہ ڈویژن میں اول آنے پر قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مثالی مڈل اسکول کے بانی محمد جمیل قریشی سے ملک کی تعلیمی بدحالی سے متعلق میں نے سوال کیا تو سادگی کے پیکر معلم نے بتایا کہ مراعات یافتہ طبقے کے مفادات اور سیاسی غلبے کی ریشہ دوانیوں کے تعلیمی عمل پر جو اثرات پڑے ان کی وجہ سے تعلیمی نظام اپنے ملی تقاضوں کی تکمیل کر پایا نہ معیاری تعلیمی تقاضوں کی طرف پیش رفت ہو سکی۔
ہمارا تعلیمی عمل ناکامیوں اور نامرادیوں کا ایسا طویل سفر ہے جس کی منزل کا تعین اب تک نہیں ہو سکا ہے اور پاکستان خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں 159 نمبر پر ہے اور ہمارا تعلیم کا بجٹ جی این پی کا 2.44 فی صد ہے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ اور نظام تعلیم کا قبلہ درست ہونا ضروری اور سب کو تعلیم کے لیے اپنی قومی ذمے داری محسوس کر کے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ خواندگی کی شرح میں اضافے کے ساتھ بدلتے تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے پر توجہ وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔