سیلاب سے انقلاب تک
آستین میں چھپے گھر کے بھیدیوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا ورنہ یہ دشمن کے آلہ کار بن کر ملک کو نقصان پہنچانے کا۔۔۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے جنم دن ہی سے مسائل و مشکلات کے سیلاب میں ہچکولے کھا رہا ہے اندرونی و بیرونی ہر دو محاذ پر درپیش چیلنجوں و آزمائشوں کے باعث ملکی قیادت اور عوام گزشتہ چھ دہائیوں سے کڑے امتحانوں سے گزر رہے ہیں۔ بقول منیر نیازی ۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے منیر ؔ
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
سب سے افسوس ناک اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے دشمن باہر سے کہیں زیادہ ہماری آستینوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ قومی اثاثوں، حساس تنصیبات اور اہم شخصیات کو نشانہ بنانا ان کا اصل ہدف ہے تا کہ وطن عزیز ہر لحاظ سے کمزور ہوتا چلا جائے اور وہ غالب آ جائیں۔ ملک دشمن یہ عناصر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کر کے 18 کروڑ عوام پر اپنا خود ساختہ نظریہ طاقت کے زور پر مسلط کرنے کے خواہاں ہیں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسی لہو رنگ وارداتوں کے ذریعے وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے ناپاک عزم کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ملک کے معاشی حب کراچی کو شرپسند عناصر نے خاص نشانے پر رکھا ہوا ہے جہاں طویل عرصے سے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں علامہ عباس کمیلی کے فرزند علی اکبر کمیلی اور مفتی نعیم کے داماد مرزا مسعود کی ٹارگٹڈ کلنگ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کراچی میں گزشتہ ایک سال سے آپریشن جاری ہے سیکڑوں شرپسند عناصر کو گرفتار کیا جا چکا ہے اس کے باوجود شہر قائد میں 8/10 افراد کا روزانہ قتل ہونا معمول کی واردات ہے جس سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے اور آپریشن پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
مقام اطمینان ہے کہ حالات کی نزاکت و سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ملک کی عسکری قیادت نے ملک دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے بروقت اقدام اٹھاتے ہوئے آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا۔ پوری قوم آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جرأت مند قیادت پر فخر کرتی ہے کہ وہ ایک پیشہ ور سولجر ہیں اور ہر آزمائش میں قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے 18 کروڑ عوام پاک فوج کی پشت پر کھڑے ہیں اور ایک ایک سپاہی کی جدوجہد و قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب کے آغاز پر بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اس کا ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ چند ماہ کی خاموشی کے بعد بالآخر 7 ستمبر کو دہشت گردوں نے بعض ''اندرونی باغیوں'' کی مدد سے کراچی ڈاک یارڈ پر حملہ کرنے کی کوشش کی ان کا ہدف پاک بحریہ کی سب سے بڑی میرین بیس تھی جو آبدوزیں اور دیگر جدید دفاعی ساز و سامان بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم نیول سیکیورٹی اہلکاروں نے اس حملے کو ناکام بناتے ہوئے بعض دہشت گردوں کو زندہ گرفتار بھی کر لیا جن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
حیرت انگیز انکشافات سامنے آ سکتے ہیں حسب سابق طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کا ردعمل ہے بعض ذرایع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈاکیارڈ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں خفیہ طور پر پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر سازشیں کر رہی ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کا برملا خدشات کا اظہار کرنا غلط نہیں ہے۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے اپنے لوگ غیروں کے آلہ کار بن کے ملک کی بنیادوں کو ضربیں لگا رہے ہیں جیسا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں انکشاف کیا کہ مذکورہ حملے میں نیوی کے اہل کار بھی شامل تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل مہران بیس، کراچی ایئرپورٹ، کامرہ اور جی ایچ کیو حملے میں بھی گھر کے بھیدی وطن دشمن عناصر کی سازشوں میں شریک کار تھے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ضرب عضب سے خوفزدہ ہو کر پنجابی طالبان نے پاکستان میں عسکری کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے اور دیگر جہادی گروپوں کو بھی ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا ہے جو ان کا ایک صائب اقدام ہے لیکن یہ صرف ایک گروپ کا اعلان ہے جب کہ ملک میں 50 سے زائد جہادی جتھے سرگرم عمل ہیں ان سب کے مکمل تائب ہونے یا خاتمے تک قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہمیں آنکھ بند کر کے ان کے ''اعلان تائب'' پر اعتبار کر لینا چاہیے؟ ہرگز نہیں تا وقت کہ آخری طالب بھی اخلاص نیت سے ''ایمان'' لے آئے اور عملاً خود کو پرامن شہری ثابت کرے ملک کے آئین، قانون، پارلیمنٹ کو تسلیم کرے یا پھر وہ اپنے انجام تک نہ پہنچ جائے کہ برے کام کا برا نتیجہ نیز ہمیں اپنے پیروں میں پڑی آگ کو بھی بجھانے کے لیے جلد نتیجہ خیز ٹھوس، عملی و جامع اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
آستین میں چھپے گھر کے بھیدیوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا ورنہ یہ دشمن کے آلہ کار بن کر ملک کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے رہیں گے۔ خطرات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ پاکستان کے ایک ناکام ریاست ہونے کی اغیار کی سازشی تھیوریوں کو تقویت ملے گی پاکستان ٹوٹنے کی پیشین گوئیاں کرنے والے عناصر ہم پر ہنس رہے ہوں گے۔ جگ ہنسائی کا نشانہ بننے سے پہلے ہمیں بحیثیت قوم جاگنا ہو گا وقت کی آواز پر کان دھرنا ہوں گے۔
ایک جانب ملک کی جغرافیائی و نظریاتی اساس کو اندرونی و بیرونی خطرات نے گھیر رکھا ہے تو دوسری جانب آزاد کشمیر سے صوبہ پنجاب و سندھ تک طوفانی بارشوں و خوفناک سیلابی ریلوں سے ہونے والی تباہ کاریوں و ہلاکت خیزیوں نے پوری قوم کو افسردہ کر دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک تین سو سے زائد افراد جاں بحق اور ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ دیہات ڈوب چکے ہیں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور زرعی اراضی زیر آب آگئی ہیں تقریباً 10 لاکھ افراد بارشوں و سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
لاہور میں سیلابی پانی کے باعث ایک مسجد کی چھت گرنے سے 22 نمازیوں کی شہادت کا دلخراش سانحہ بھی پیش آیا حکومت نے سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم میاں نواز شریف آزاد کشمیر سے پنجاب تک سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر کے متاثرین کی دلجوئی ان کی داد رسی، امداد کی فراہمی، دوبارہ بحالی و آبادکاری کے دعوے کر رہے ہیں جب کہ پاک فوج کے جوان، این جی اوز کے رضاکار بھی سیلاب سے متاثرین کو خوراک، لباس، دوائیں، روزمرہ کی اشیا اور دیگر چیزوں کی فراہمی میں روز و شب مصروف ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں سیلاب پہلی مرتب آیا ہے جو حکمراں حواس باختہ نظر آ رہے ہیں جواب یقینا نفی میں ہے۔ بارشیں اور سیلاب پاکستان میں ہر سال کا معمول ہیں۔ بدقسمتی سے سیلابی ریلے غریبوں کی بستیوں ہی کو تاراج کرتے ہیں یا امرا کے محلات و کارخانے اور زمینوں کو بچانے کے لیے سیلابی پانیوں کا رخ غریبوں کے دیہاتوں کی سمت موڑ دیا جاتا ہے۔ سیلابوں میں ہر سال غریبوں کی عمر بھر کی کمائی ڈوب جاتی ہے لیکن وزیروں، مشیروں، امیروں اور عوامی نمایندوں کے محلات و اثاثے محفوظ رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سال ڈوبنے والے غریبوں کو صرف طفل تسلیاں دی جاتی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ سیلابی پانی کو روکنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے ارباب اقتدار نے دریاؤں پر ڈیمز بنانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں مصلحتوں و مفادات کا شکار ہوتے رہے۔ مخالفتوں کا سامنا کرنے اور رکاوٹیں دور کرنے کے لیے جرأت و فیصلہ کن اقدام اٹھانے سے قاصر رہے جس کا نتیجہ ہر سال لاکھوں افراد کی تباہی و بربادی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور پھر حکمرانوں کو عوام کے غم و غصے اور نفرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا تلخ مشاہدہ وزیر اعظم کو اپنے دورہ کشمیر و سرگودھا میں ہو چکا ہے۔ جس کا فائدہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں بیٹھے ''آزادی و انقلاب'' داعیان عمران خان و ڈاکٹر طاہرالقادری اٹھا رہے ہیں۔
لیکن انھیں بھرپور جواب دینے کے لیے قدرت نے میاں صاحب کو ایک نادر موقع دے دیا ہے۔ آگے بڑھیے اور متاثرین کی آبادکاری کے لیے ایسے ''انقلابی'' اقدامات اٹھائیے کہ آیندہ سال سے ملک کے کروڑوں غریب عوام سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ میاں صاحب ''سیلاب'' سے ''انقلاب'' تک اٹھائے گئے اقدامات آپ کے اقتدار کو محفوظ بنا دیں گے۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے منیر ؔ
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
سب سے افسوس ناک اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے دشمن باہر سے کہیں زیادہ ہماری آستینوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ قومی اثاثوں، حساس تنصیبات اور اہم شخصیات کو نشانہ بنانا ان کا اصل ہدف ہے تا کہ وطن عزیز ہر لحاظ سے کمزور ہوتا چلا جائے اور وہ غالب آ جائیں۔ ملک دشمن یہ عناصر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کر کے 18 کروڑ عوام پر اپنا خود ساختہ نظریہ طاقت کے زور پر مسلط کرنے کے خواہاں ہیں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسی لہو رنگ وارداتوں کے ذریعے وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے ناپاک عزم کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ملک کے معاشی حب کراچی کو شرپسند عناصر نے خاص نشانے پر رکھا ہوا ہے جہاں طویل عرصے سے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں علامہ عباس کمیلی کے فرزند علی اکبر کمیلی اور مفتی نعیم کے داماد مرزا مسعود کی ٹارگٹڈ کلنگ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کراچی میں گزشتہ ایک سال سے آپریشن جاری ہے سیکڑوں شرپسند عناصر کو گرفتار کیا جا چکا ہے اس کے باوجود شہر قائد میں 8/10 افراد کا روزانہ قتل ہونا معمول کی واردات ہے جس سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے اور آپریشن پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
مقام اطمینان ہے کہ حالات کی نزاکت و سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ملک کی عسکری قیادت نے ملک دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے بروقت اقدام اٹھاتے ہوئے آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا۔ پوری قوم آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جرأت مند قیادت پر فخر کرتی ہے کہ وہ ایک پیشہ ور سولجر ہیں اور ہر آزمائش میں قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے 18 کروڑ عوام پاک فوج کی پشت پر کھڑے ہیں اور ایک ایک سپاہی کی جدوجہد و قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب کے آغاز پر بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اس کا ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ چند ماہ کی خاموشی کے بعد بالآخر 7 ستمبر کو دہشت گردوں نے بعض ''اندرونی باغیوں'' کی مدد سے کراچی ڈاک یارڈ پر حملہ کرنے کی کوشش کی ان کا ہدف پاک بحریہ کی سب سے بڑی میرین بیس تھی جو آبدوزیں اور دیگر جدید دفاعی ساز و سامان بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم نیول سیکیورٹی اہلکاروں نے اس حملے کو ناکام بناتے ہوئے بعض دہشت گردوں کو زندہ گرفتار بھی کر لیا جن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
حیرت انگیز انکشافات سامنے آ سکتے ہیں حسب سابق طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کا ردعمل ہے بعض ذرایع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ڈاکیارڈ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں خفیہ طور پر پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر سازشیں کر رہی ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کا برملا خدشات کا اظہار کرنا غلط نہیں ہے۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے اپنے لوگ غیروں کے آلہ کار بن کے ملک کی بنیادوں کو ضربیں لگا رہے ہیں جیسا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں انکشاف کیا کہ مذکورہ حملے میں نیوی کے اہل کار بھی شامل تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل مہران بیس، کراچی ایئرپورٹ، کامرہ اور جی ایچ کیو حملے میں بھی گھر کے بھیدی وطن دشمن عناصر کی سازشوں میں شریک کار تھے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ضرب عضب سے خوفزدہ ہو کر پنجابی طالبان نے پاکستان میں عسکری کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے اور دیگر جہادی گروپوں کو بھی ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا ہے جو ان کا ایک صائب اقدام ہے لیکن یہ صرف ایک گروپ کا اعلان ہے جب کہ ملک میں 50 سے زائد جہادی جتھے سرگرم عمل ہیں ان سب کے مکمل تائب ہونے یا خاتمے تک قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہمیں آنکھ بند کر کے ان کے ''اعلان تائب'' پر اعتبار کر لینا چاہیے؟ ہرگز نہیں تا وقت کہ آخری طالب بھی اخلاص نیت سے ''ایمان'' لے آئے اور عملاً خود کو پرامن شہری ثابت کرے ملک کے آئین، قانون، پارلیمنٹ کو تسلیم کرے یا پھر وہ اپنے انجام تک نہ پہنچ جائے کہ برے کام کا برا نتیجہ نیز ہمیں اپنے پیروں میں پڑی آگ کو بھی بجھانے کے لیے جلد نتیجہ خیز ٹھوس، عملی و جامع اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
آستین میں چھپے گھر کے بھیدیوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا ورنہ یہ دشمن کے آلہ کار بن کر ملک کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے رہیں گے۔ خطرات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ پاکستان کے ایک ناکام ریاست ہونے کی اغیار کی سازشی تھیوریوں کو تقویت ملے گی پاکستان ٹوٹنے کی پیشین گوئیاں کرنے والے عناصر ہم پر ہنس رہے ہوں گے۔ جگ ہنسائی کا نشانہ بننے سے پہلے ہمیں بحیثیت قوم جاگنا ہو گا وقت کی آواز پر کان دھرنا ہوں گے۔
ایک جانب ملک کی جغرافیائی و نظریاتی اساس کو اندرونی و بیرونی خطرات نے گھیر رکھا ہے تو دوسری جانب آزاد کشمیر سے صوبہ پنجاب و سندھ تک طوفانی بارشوں و خوفناک سیلابی ریلوں سے ہونے والی تباہ کاریوں و ہلاکت خیزیوں نے پوری قوم کو افسردہ کر دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک تین سو سے زائد افراد جاں بحق اور ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ دیہات ڈوب چکے ہیں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور زرعی اراضی زیر آب آگئی ہیں تقریباً 10 لاکھ افراد بارشوں و سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
لاہور میں سیلابی پانی کے باعث ایک مسجد کی چھت گرنے سے 22 نمازیوں کی شہادت کا دلخراش سانحہ بھی پیش آیا حکومت نے سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم میاں نواز شریف آزاد کشمیر سے پنجاب تک سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر کے متاثرین کی دلجوئی ان کی داد رسی، امداد کی فراہمی، دوبارہ بحالی و آبادکاری کے دعوے کر رہے ہیں جب کہ پاک فوج کے جوان، این جی اوز کے رضاکار بھی سیلاب سے متاثرین کو خوراک، لباس، دوائیں، روزمرہ کی اشیا اور دیگر چیزوں کی فراہمی میں روز و شب مصروف ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں سیلاب پہلی مرتب آیا ہے جو حکمراں حواس باختہ نظر آ رہے ہیں جواب یقینا نفی میں ہے۔ بارشیں اور سیلاب پاکستان میں ہر سال کا معمول ہیں۔ بدقسمتی سے سیلابی ریلے غریبوں کی بستیوں ہی کو تاراج کرتے ہیں یا امرا کے محلات و کارخانے اور زمینوں کو بچانے کے لیے سیلابی پانیوں کا رخ غریبوں کے دیہاتوں کی سمت موڑ دیا جاتا ہے۔ سیلابوں میں ہر سال غریبوں کی عمر بھر کی کمائی ڈوب جاتی ہے لیکن وزیروں، مشیروں، امیروں اور عوامی نمایندوں کے محلات و اثاثے محفوظ رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سال ڈوبنے والے غریبوں کو صرف طفل تسلیاں دی جاتی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ سیلابی پانی کو روکنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے ارباب اقتدار نے دریاؤں پر ڈیمز بنانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں مصلحتوں و مفادات کا شکار ہوتے رہے۔ مخالفتوں کا سامنا کرنے اور رکاوٹیں دور کرنے کے لیے جرأت و فیصلہ کن اقدام اٹھانے سے قاصر رہے جس کا نتیجہ ہر سال لاکھوں افراد کی تباہی و بربادی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور پھر حکمرانوں کو عوام کے غم و غصے اور نفرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا تلخ مشاہدہ وزیر اعظم کو اپنے دورہ کشمیر و سرگودھا میں ہو چکا ہے۔ جس کا فائدہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں بیٹھے ''آزادی و انقلاب'' داعیان عمران خان و ڈاکٹر طاہرالقادری اٹھا رہے ہیں۔
لیکن انھیں بھرپور جواب دینے کے لیے قدرت نے میاں صاحب کو ایک نادر موقع دے دیا ہے۔ آگے بڑھیے اور متاثرین کی آبادکاری کے لیے ایسے ''انقلابی'' اقدامات اٹھائیے کہ آیندہ سال سے ملک کے کروڑوں غریب عوام سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ میاں صاحب ''سیلاب'' سے ''انقلاب'' تک اٹھائے گئے اقدامات آپ کے اقتدار کو محفوظ بنا دیں گے۔