شہر قائد میں آلودہ پانی کی ہلاکت خیزی

نیگلیریا اور ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے

نیگلیریا اور ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ فوٹو: فائل

شہر قائد کے باسیوں کی زندگی ہر طرح کے خطرات کی زد میں ہے۔ کون سی ایسی افتاد ہے جو اس شہر ناپرساں کے باسیوں پر نہیں ٹوٹی لیکن یہاں کے باسیوں کی ہمت کی تحسین کرنی چاہیے کہ وہ ہر حال میں جیے جاتے ہیں۔

ہاں یہ بجا ہے کہ کبھی کبھار ان کے صبر کا پیمانہ چھلک جاتا اور ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔ قتل و غارت، بھتا، اغواء برائے تاوان، ٹارگیٹ کلنگ، ڈکیتی، راہ زنی تو اب معمول سمجھ کے قبول کر لیے گئے ہیں۔ لوڈشیڈنگ چاہے وہ بجلی کی ہو یا گیس کی، عادت سی بن گئی ہے۔

سڑکیں تباہ حال ہیں، نکاسی کا نظام ختم ہو گیا ہے اور کئی سڑکیں اور گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ شاہراہوں پر کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور اکثر جگہ انہیں نذرآتش کیا جاتا ہے جس کے دھویں سے سانس کے امراض جنم لے رہے ہیں، رہا امن و امان تو وہ بس خواب ہے۔ لیکن پینے کے صاف پانی کی فراہمی نہ ہونے سے شہریوں کی زندگی کو انتہائی خطرات لاحق ہیں۔ آلودہ پانی کی وجہ سے شہری نہ صرف نگلیریا کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ ہمہ اقسام کے ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہوکر موت کی نیند سو رہے ہیں۔ اگر سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو یہ امراض وبائی صورت اختیار کرلیں گے۔

نیگلیریا ایسا جرثومہ ہے جو ناک سے جسم میں داخل ہو کر دماغ تک پہنچ جاتا اور اسے کھانے لگتا ہے، نتیجتاً انسان کی موت ہوجاتی ہے۔ نیگلیریا منہ کے ذریعے دماغ تک نہیں پہنچتا اور نہ ہی یہ جرثومہ نمکین پانی میں زندہ رہ پاتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق پینے او ر وضو کرنے کے لیے پانی کو سو ڈگری پر اچھی طرح ابالنا نیگلیریا کے جرثومے کے خاتمے کا باعث بن جاتا ہے۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ گھروں میں موجود ٹینکوں کی سال میں کم سے کم دو بار صفائی کی جائے اور کلورین کا استعمال کیا جائے۔

انسداد نیگلیریا کی مشترکہ کمیٹی نے گزشتہ ماہ پانی کے نمونوں کی رپورٹ محکمۂ صحت میں جمع کرائی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گڈاپ، گلشن اقبال، بلدیہ، ملیر، لیاقت آباد، سائٹ، شاہ فیصل، بن قاسم سمیت دیگر علاقوں سے 2854 پانی کے نمونے حاصل کیے گئے، ان نمونوں کے کیمیائی تجزیے کے دوران انکشاف ہوا کہ 1965 نمونوں میں کلورین کی مقدار انتہائی کم ہے۔ واٹربورڈ کے 612 پمپ ہائوسسز اور دیگر میں کلورین سرے ہی سے موجود نہیں۔ کراچی کو فراہم کیے جانے والے پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل نہیں کی جارہی جس کی وجہ سے کراچی سمیت صوبے بھر میں نیگلیریا کے مرض سے متاثرہ افراد تواتر کے ساتھ رپورٹ ہورہے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے شہر میں نیگلیریا کی وجہ سے بڑھتی ہوئی اموات کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ادارۂ فراہمی و نکاسی آب اور بلدیہ عظمیٰ کی انتظامیہ سے شہریوں کو کلورین کی مطلوبہ مقدار سے کم والا پانی فراہم کرنے اور بیماری کے پھیلاؤ کے اسباب کے بارے میں وضاحت طلب کرلی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی واٹر بورڈ اور کے ایم سی انتظامیہ کو اس زمرے میں تمام مطلوبہ فنڈز بھی مہیا کیے جانے کے باوجود غیر ذمے دار افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے نیگلیریا کی احتیاطی تدابیر کے بارے میں عوام میں آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ضمن میں ادارۂ فراہمی و نکاسی آب کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اگر اس کی جانب سے فراہم کیے جانے والے پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار موجود ہو تو نیگلیریا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ صوبائی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ '' نیگلیریا امیبا '' کے دماغ میں داخل ہونے کے بعد اس کا علاج ناممکن ہے لیکن پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار کو یقینی بناکر اس امیبا سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارۂ فراہمی و نکاسی آب کے ساتھ اس ضمن میں کئی اجلاس ہوچکے ہیں اور مختلف مقامات پر محکمۂ صحت اور ادارۂ فراہمی و نکاسی آب کی جانب سے مشترکہ کاوشیں بھی کی جارہی ہیں جس کے بعد جن علاقوں میں کلورین کی مزید ضرورت ہوتی ہے وہاں اسے یقینی بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیگلیریا سے اموات نہایت تشویش ناک ہیں اور اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ عوام کو اس کے بارے میں آگاہی دی جائے۔




انہوں نے کہا کہ خصوصاً وضو کے لیے پانی ابال کر استعمال کیا جائے کیوں کہ نیگلیریا کا باعث بننے والا امیبا ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوتا اور اسے کھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید ہدایت کی کہ اس ضمن میں ایک مربوط تشہیری مہم چلائی جائے تاکہ عوام کو اس کے بارے میں احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں میڈیا کا کردار نہایت اہم ہے کیوںکہ اس کے ذریعے عوام کو موثر انداز میں آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے۔

ہیپاٹائٹس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آئے روز لوگوں کی بڑی تعداد لقمۂ اجل بن رہی ہے۔ ہیپاٹائٹس کی پانچ اقسام اے، بی، سی، ڈی اور ای میں بی اور سی کو جان لیوا تصور کیا جاتا ہے۔ پی آئی ایم اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر بارہواں شخص یرقان کے عارضے میں مبتلا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی یہ تعداد نوّے لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یرقان کے وائرس کی اقسام مختلف ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے بھوک کو ختم کر دیتا اور جگر میں سوزش کا باعث بنتا ہے۔

ہیپاٹائٹس بی یا کالا یرقان آلودہ خون، پسینے اور جسم کے مختلف مادوں کے ذریعے ایک سے دوسرے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ خطرناک قسم ہے۔ ہیپاٹائٹس سی میں عموماً بیس تا چالیس سال کی عمر کے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں پر اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ خون سے پھیلنے والے وائرس سی کے باعث مریض جوڑوں کے درد، سر درد، کھانسی، گلے کی خرابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ملک میں ہیپاٹائٹس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد 9 ملین سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔

مریضوں کی تعداد سندھ اور خیبر پختون خواہ میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر بیماری کی طرح ہیپاٹائٹس میں بھی احتیاط کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای کی بڑی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ پاکستان میں صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے کے وجہ سے دیگر بیماریوں کے ساتھ ہیپاٹائٹس جیسی بیماری کے مریضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بر وقت تشخیص نہ ہونے کی صورت میں پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں اور مریض کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہیپاٹائٹس ہی ہے۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں صرف ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ہی ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس، دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس بیماری کے باعث سالانہ قریبا 1.4 ملین افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کو 'خاموش قاتل' قرار دیا جاتا ہے کیوںکہ ان بیماریوں کا مریض کو عموماً اس وقت ہی علم ہوتا ہے جب یا تو وہ ان کے ٹیسٹ کروا لے یا پھر اس کا جگر خطرناک حد تک خراب ہو جائے۔ اقوام متحدہ کے ادارۂ برائے صحت کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس اے اور ای اقسام کے انفیکشن متعدی ہیں جو عموماً پینے کے گندے پانی یا ناقص نکاسی آب کے باعث پھیلتا ہے۔

پاکستان بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیوںکہ اکثر لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ صرف صو بہ سندھ میں ہی ہیپاٹائٹس کے تیس لاکھ مریض ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ افراد ہیپاٹائٹس بی اور اسی لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی کے وائرس سے متاثر ہیں۔

یہ گمبھیر صورت حال ہے، جس کی جانب حکام کو فی الفور توجہ دینی ہوگی اور شہر قائد میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ نکاسی آب کے مسائل کو بھی حل کرنا ہوگا بصورت دیگر جو صورت حال ہوگی وہ نوشتۂ دیوار ہے۔
Load Next Story