تکبّر کے نشے میں ڈوبے ہوئے

یہ متکّبر لوگ بھی غضب کے ہیں۔ عام آدمیوں سے الگ تھلک اور ممتاز نظر آنے کا نشہ انھیں چین نہیں لینے دیتا ۔۔۔

theharferaz@yahoo.com

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پہلے این ایف سی ایوارڈ کے سلسلے کی آخری میٹنگ،1991کے رمضان میں منعقد ہوئی۔ پنجاب سے نون لیگ حکومت کے شاہ محمود قریشی، سندھ سے لیاقت جتوئی، سرحد سے صاحبزادہ محسن علی اور بلوچستان سے اسلم رئیسائی وزرائے خزانہ کی حیثیت سے شریک تھے۔ دن رات اجلاس چلتے رہتے، بحثیں جاری رہتیں، ایک نکتے پر اتفاق ہوتا تو دوسرے پر اختلاف شروع ہوجاتا، اجلاس کا دائرہ رات افطاری سے سحری تک بھی بڑھا دیا گیا، لیکن کوئی معنی خیز نتیجہ نہ نکلا، ڈپٹی سیکریٹری فنانس کی حیثیت سے اس کی میزبانی اور تمام کارروائی کو ضبطِ تحریر میں لانا میری ذمے داری تھی۔

ظفر اللہ جمالی بلوچستان کی جانب سے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے شریک تھے۔ اس دوران انھوں نے ایک گرُ کی بات بتائی۔ اجلاس ختم ہوا تو سب لوگ سحری کے لیے جانے لگے لیکن وہ باہر گاڑی کی جانب روانہ ہوگئے۔ میں نے سحری کے لیے کہا تو بولے کہ کامیاب زندگی کا ایک گرُ ہے کہ ''رات جہاں بھی گزارو، اٹھو اپنے بستر سے''۔ اجلاس ختم ہونے میں ایک دن رہ گیا تھا، اختلاف ختم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ آخری دن صبح حکم آیا کہ کسی نتیجے پر پہنچو اور دوپہر سے پہلے دستخط کر کے اٹھو۔ کوئٹہ سے ایک ہی فلائٹ تھی جس سے پنجاب اور اس زمانے کے سرحد کے وزیرخزانہ نے جانا تھا۔ فلائٹ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لیکن اتفاقِ رائے نہ ہو پار ہا تھا، میں ہر آدھے گھنٹے بعد ایک ڈرافٹ بنا کر لاتا، اس پر بحث شروع ہو جاتی۔ آخر ایک ڈرافٹ پر اتفاقِ رائے ہوا، لیکن فلائٹ کا وقت ہو گیا۔ وزیراعظم کا حکم تھا کہ دستخط کر کے وہاں سے اٹھنا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ناصر محمود کھوسہ کو بلایا گیا کہ فلائٹ کو کسی طریقے سے روکا جائے تاکہ ڈرافٹ تیار ہو اور دستخط ہو سکیں۔ ناصر محمود کھوسہ کو بیوروکریٹ بہت با اصول افسر سمجھتے ہیں۔ لیکن اپنی پوری نوکری میں ان کے اصول صرف عام انسانوں کے لیے تھے جب کہ حکمرانوں کے سامنے وہ ان اصولوں کو ردیّ کی ٹوکری میں پھینک دیتے۔ فلائٹ کو تکنیکی معاملے کی وجہ سے روکا جاتا تو کراچی بتانا ضروری تھا، جہاں سے ٹیم آتی، چیک کرتی اور ہو سکتا ہے فلائٹ میں ایک روز کی تاخیر ہو جاتی ایسے میں ناصر محمود کھوسہ نے وہ تاریخ رقم کی جس پر کسی بھی بیوروکریٹ کا سر شرمندگی سے جھک جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے ائیر پورٹ حکام کو یہ اطلاع دی کہ ہمیں بذریعہ سو رس معلوم ہوا ہے کہ جہاز کے سامان میں بم چھپایا گیا ہے، آپ اسے دوبارہ چیک کر لیں۔ تمام مسافروں کو جہاز سے اتارا گیا، سارا سامان واپس ائرپورٹ پر لایاگیا۔ مسافروں سے ان کے سامان کی شناخت کروائی گئی اور پھر سامان کی بھر پور تلاشی لی گئی۔ اس سارے عمل میں تین گھنٹے لگ گئے۔ مسافر واپس جہاز پر بیٹھے تو دونوں وزرائے خزانہ اور ان کے ہمراہ بیوروکریٹس کا ایک جم غفیر جہاز میں داخل ہوا اور جہاز روانہ ہوگیا۔

سارے مسافر اسی بات پر خدا کا شکرادا کرتے رہے کہ کہیں کوئی بم موجود نہ تھا ورنہ تخریب کاری کی وجہ سے ان کی جان چلی جاتی۔ یہ حرکت اگر کسی عام آدمی سے سرزد ہوتی تو اسے ''دہشت گردی'' اور تخریب کاری کے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا۔ پولیس اس کے اس مذاق پر اسے لاتوں اور گھونسوں سے مارتی ہوئی وین میں ڈالتی اور تھانے لے جا کر اس کا دماغ درست کرتی لیکن اس ملک پر گذشتہ سات دہائیوں سے حکمران یہ طبقات جس طرح اپنے روّیوں سے عام آدمی کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے سامنے اپنے بالاتر ہونے کی نمائش کرتے ہیں۔ اور ان کو احساس کمتری کی اذیت کا شکار کرتے وہ صرف ائیرپورٹوں تک محدود نہیں۔ یہ روّیہ آپ کو زندگی کے ہر شعبے میں نظر آئے گا اور ان حکمران طبقوں میں سیاست دان، بیورو کریٹس اور جرنیل سب شامل ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ عام لوگوں کی لائن سے الگ تھلگ رہتے ہیں کہ کہیں ان کے پسینے کی بوُان کی طبعِ نازک پر گراں نہ گذرے۔ رحمن ملک یا رمیش کمار ہماری قومی تاریخ کے نئے کردار نہیں ہیں۔ لیکن تاریخ کا نیا روپ یہ ہے کہ وہ دو یا تین سو افراد جو جہاز میں بیٹھے دو تین گھنٹے اذیت برداشت کرتے تھے، اور کسی وی آئی پی کے آنے کے بعد سکھ کا سانس لیتے تھے کہ اب تو جہاز منزل کی طرف روانہ ہو جائے گا۔

یہ لوگ پہلے اپنی سیٹو ں پر بیٹھے دل میں یا آپس میں اپنی نفرت اور غصے کا اظہار کرتے رہتے تھے، اب انھی لوگوں نے اچانک نفرت کا آتش فشاں ان دونوں ممبران پارلیمنٹ پر لاوے کی صورت اُگل دیا۔ یہ ہکا بکا رہ گئے ہیں۔ لوگوں کے سامنے صفائیاں دیتے پھررہے ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہ پارلیمنٹ میں پہنچے تو گرجنے برسنے لگے۔ عالمی قوانین کی کتابیں نکال لیں اور کہا یہ دیکھو، بپھرے ہوئے (Unruly) مسافر کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کو اندازہ نہیں کہ یہ بپھرے ہوئے چند مسافر نہیں۔ سات دہائیوں کا غصہ ہے۔ جو آتش فشاں کی طرح بپھر رہا ہے، لاوے کی طرح ابل رہا ہے۔ جہاز کے بپھرے ہوئے مسافر کے بارے میں تو قانون کی کتابیں نکال لیں آپ نے لیکن جب قوم بپھر جاتی ہے تو کتاب تو دور کی بات ہے، ان متکّبر لوگوں کو سوچنے کی بھی مہلت نہیں دیتی ۔ کبھی بپھری ہوئی قوموں کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں۔


یہ متکّبر لوگ بھی غضب کے ہیں۔ عام آدمیوں سے الگ تھلک اور ممتاز نظر آنے کا نشہ انھیں چین نہیں لینے دیتا۔ سیاسی رہنما ہو، اعلیٰ بیوروکریٹ یا جرنیل، جہاز سے اترتے ہی اس کے ذاتی اسٹاف کے لوگ اس کا پاسپورٹ پکڑتے ہیں، دستی بیگ ہاتھ میں لیتے ہیں، صاحب ،دروازے پر کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوتا ہے اور وہ مہریں لگوا، سامان وصول کر کے گھرآتے ہیں۔ وی آئی پی لائونج میں بھی جاتے ہوئے ایسا ہی پروٹوکول موجود ہوتا ہے صاحب بس جہاز کا دروازہ بند ہونے سے چند لمحے قبل اپنی سیٹ پر آکر بیٹھتا ہے۔یہی سیاسی رہنما، یہی چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس یا جرنیل جب تک سرکار ی نوکری میں ہوتے ہیں، کسی عوامی عہدے پر براجمان ہوتے ہیں تو ان کی جان کو لاکھوں خطرے لاحق ہوتے ہیں۔ ان کے آگے پیچھے مستعد گارڈ یا اسکوارڈ چلتے ہیں، لیکن جیسے ہی وہ اس نوکری میں یا عوامی عہدے پر نہیں رہتے تو اگلے دن کسی دکان پر سودا خریدتے پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان''یوسف بے کارواں'' لوگوں کے چہرے پر سجا ہوا دکھ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔

تاریخ میں ان متکّبر اور عوام سے ممتاز رہنے والے کرداروں میں ایک نمایاں کردار ابوجہل کا بھی تھا۔ مکہ کے سرداروں کا ایک سردار، جسے اپنی دانائی اور قبیلے کی برتری کا بہت غرور تھا۔ اس نے وصیت کی تھی، کہ جنگ کے دوران اگر کوئی مجھے قتل کرے تو میرا سر گردن سے ذرا نیچے سے کاٹے تا کہ قتل ہونے والے سروں کے درمیان میرا سربڑا، ممتاز، ممیز اور علیحدہ نظر آئے۔ یہ خواہش موت کے بعد آج بھی قائم ہے۔ قبرستانوں میں علیحدہ احاطے اور منقش سنگِ مزار۔ لیکن انھیں اندازہ تک نہیں کہ اللہ نے یوم حشر میں بھی ان لوگوں کے علیحدہ اور مختلف ہونے کا اعلان کیا ہے۔

اللہ فرماتا ہے'' مجرمو! آج کے دن علیحدہ ہو جائو''(یٰسین)۔ وہ دن جب حشر کے میدان میں سب انسان برابر کھڑے ہوں گے۔ اللہ ایک اعلان کے ساتھ ان کو عام لوگوں کی لائن سے الگ کردے گا۔سیّد الابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' قیامت کے دن متکّبر لوگ چونٹیوں کی طرح ہوں گے اور لوگ انھیں روندتے ہوئے گذریں گے''۔ اس دن کسی پارلیمنٹ میں کوئی تحریکِ استحقاق جمع نہ ہو سکے گی، کوئی عالمی یا ملکی آئین اور قانون کی کتابیں نہیں کھول سکے گا ۔ کسی مقدس ایوان کا تقدس ان کا تحفظ نہیں کر سکے گا۔ جس طرح وہ آج اس دنیا میں عام لوگوں سے علیحدہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ انھیں وہاں بھی علیحدہ کر دے گا۔

نوٹ:فیس بک اور ٹوئٹر پر میرے نام سے بہت سے اکائونٹ اور پیج بنائے گئے ہیں جن کا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ۔ میرے اکائونٹ درج ذیل ہیں۔

فیس بک:www.facebook.com/oryamaqbool

Load Next Story