نظریاتی کجروی
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ 67 سال کے دوران جو جمہوری دور آتے رہے ہیں کیا یہ ۔۔۔
TOKYO:
بعض وقت سیاسی حالات اتنے پیچیدہ ہوجاتے ہیں کہ بڑے انقلابی علماء چہ کنم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات میں درست طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کون کے بجائے کیا کو اہمیت دی جائے۔ پاکستان ایک ماہ سے جس سیاسی بحران میں مبتلا ہے یہ بحران بہت پیچیدہ بھی نظر آتاہے اور بہت آسان اور سادہ بھی۔ اس بحران کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ پچھلے 67 سال سے ہماری سیاست ہمارا معاشرہ کس دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور آگے کی طرف ایک قدم بھی کیوں بڑھ نہیں پارہا؟
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ 67 سال کے دوران جو جمہوری دور آتے رہے ہیں کیا یہ دور واقعی جمہوری رہے ہیں؟ کیا اس ملک میں جاگیردارانہ نظام اب بھی برقرار ہے؟ کیا 67 سال سے مسلط Status Quo کو توڑے بغیر ہماری سیاست، ہماری جمہوریت عوامی بن سکتی ہے؟ کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسی سیاسی طاقت موجود ہے جو اس 'اسٹیٹس کو' کو توڑنے کی اہلیت اور طاقت رکھتی ہے؟ اگرچہ ان سوالوں کے معروضی جواب تلاش کرلیے جائیں تو موجودہ پیچیدہ سیاسی بحران کو سمجھنے ہی میں نہیں بلکہ اس پس منظر میں ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے میں بھی آسانی ہوجائے گی۔
مجھے ایکسپریس میں لکھتے ہوئے 12-13 سال ہورہے ہیں اس عرصے میں مجھے اپنی تحریر کی کبھی وضاحت کرنی پڑی نہ کسی طرف سے کوئی نظریاتی تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب برادرم منظور رضی نے دھرنوں کی حمایت کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے ہم پر کی جانے والی تنقید کا ذکر کیا تو اس کی وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے میں نے چند سوالوں کے ذریعے اس پیچیدہ بحران کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نقادوں کے شکوک شبہات دور کرنے اور اس پیچیدہ سیاسی بحران کو سمجھنے کے لیے مزید وضاحت ضروری نظر آرہی ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ عمران اور قادری کی تحریک کے پیچھے کسی تیسری یا چوتھی طاقت کی حمایت موجود ہو اور ممکن ہے کہ اس کے کچھ مقاصد بھی ہوں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عمران اور قادری کیا مطالبات کررہے ہیں؟ ان کے مطالبات میں شریف برادران کا استعفیٰ سر فہرست ہے اس مطالبے کے حوالے سے ہم نے ان ہی کالموں میں بار بار اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ محض نواز شریف سے استعفیٰ لے کر ان کی پارٹی کے کسی دوسرے شخص کو وزیراعظم بنانے کا مطالبہ بچکانہ مطالبہ ہے کیوں کہ جب تک اس پوری کلاس سے نجات حاصل نہیں کی جاتی اس کلاس کے فرد واحد کو ہٹانا لا حاصل ہی ہوگا۔
عمران خان اور قادری کے دوسرے مطالبات البتہ اسٹیٹس کو کے خلاف ہیں مثلاً زرعی اصلاحات، بلدیاتی نظام کا احیاء انتخابی نظام میں ایسی تبدیلی کے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ایماندار اور با صلاحیت لوگوں کی قانون ساز اداروں میں رسائی آسان ہو، دھاندلیوں کے مرکز الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل حکمران طبقات کی اربوں کھربوں کی لوٹ مار کا احتساب وغیرہ ایسے مطالبات ہیں جن کے تسلیم کیے جانے یا کرائے جانے سے 67 سالہ ظالمانہ سیٹ اپ کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی پارلیمانی پارٹی یہ مطالبات منوانا تو دور کی بات کیا کر بھی سکتی ہے۔؟ کیا روایتی انقلابی گروہ اس قدر طاقت ور ہیں کہ یہ مطالبات منواسکیں؟ جب ان سوالوں کا جواب نفی میں آتا ہے تو پھر کون سا راستہ رہ جاتا ہے؟ اسی تصادم پر آکر معاشرے سیاست اور 20 کروڑ عوام کو Status Quo سے نکالنے کے لیے عمران اور قادری کی حمایت پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ مذکورہ بالا مطالبات کو منواسکیں۔ کیا ہم بکھرے ہوئے ذاتی اور جماعتی مفادات میں الجھے ہوئے لفٹ کے متحد ہونے میں عشروں انتظار کرسکتے ہیں؟ کیا ہم عشروں سے انھیں متحد کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں؟ یہ کوششیں کیوں ناکام ہورہی ہیں۔ آیندہ ان کوششوں کی کامیابی کے کوئی امکان ہیں؟
یہ ہے وہ مایوس کن صورت حال جس سے نکلنے کے لیے عمران اور قادری کی حمایت کے علاوہ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم نصف صدی سے اس طبقاتی استحصال کے خلاف ہر محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں، قدم قدم پر ہمارے لیے پر تعیش زندگی گزارنے کے مواقعے موجود تھے انھیں ٹھکراکر ہم نے فقر و فاقوں کی زندگی قبول کی ہماری عوام سے کمٹمنٹ اس قدر مضبوط ہمارا نظریہ اس قدر مستحکم ہمارا ضمیر اس قدر بیدار ہے کہ ہم اپنے نظریات ضمیر اور قلم کا سودا نہیں کرسکتے۔ اس پس منظر میں اگر کوئی ہم پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا الزام لگاتا ہے تو اس کی نیک نیتی پر ہم ماتم ہی کرسکتے ہیں۔
عمران خان کے لیے سیاست کرکٹ کا کھیل ہے عمران خان نے نظریاتی سیاست کرنے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا جب معراج محمد خان تحریک انصاف میں شامل ہونے کی تیاری کررہے تھے تو میں، یوسف مستی خان، عثمان بلوچ اور اعزاز نذیز مرحوم نے انھیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن معراج نہ مانے، آخر کار انھیں یہاں سے مایوس ہوکر واپس آنا پڑا، طاہر القادری ایک مذہبی تنظیم منہاج القرآن کے سربراہ ہیں پاکستان عوامی تحریک ان کا ضمنی آپشن ہے لیکن یہ دونوں حضرات بوجوہ Status Quo کو توڑنے پر آمادہ ہیں جو اس ملک کی سیاسی معاشرتی زندگی کے راستے میں ہمالیہ کی طرح کھڑا ہے اگر وقت اور حالات نے انھیں اس قابل بنادیا ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو کیا ہمیں ان کی مخالفت کرکے کرپٹ خاندانی جمہوریت کی حمایت کرکے اسے اور مستحکم بنانا چاہیے۔؟
ہوسکتاہے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات موجود ہوں اور اسٹیبلشمنٹ ان اختلافات کی وجہ سے دھرنوں والوں کے لیے سوفٹ کارنر رکھتی ہو لیکن معروضی اپروچ کا تقاضا یہ ہے کہ ان تضادات کو ہم عوام کے مفادات کے لیے استعمال کریں، جو جمہوریت کے چیمپئن آج فوج کے خلاف صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے متحد نظر آرہے ہیں اگر خدانخواستہ فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو یہ جمہوریت دیوتا فوجی حکومت میں شامل ہونے میں کوئی دیر نہیں کریں گے۔ ایوب خان کی فوجی حکومت سے مشرف کی حکومت تک یہی ہوتا رہا ہے۔
2005 میں مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ میں نے اس کانفرنس کے آرگنائزر عابد حسن منٹو کو فون کیا اور ان سے کہاکہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چاروں صوبوں سے آنے والے کامریڈوں کی ایک نشست کا اہتمام کیا جائے اور عشروں سے چھائے ہوئے جمود کو توڑنے کے لیے دوستوں کو کسی ورکنگ ایجنڈے پر متفق کیا جائے، کسان کانفرنس کے بعد ایک مقامی ہوٹل میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں صرف یہ طے ہوا کہ اس سلسلے کی اگلی میٹنگ کراچی میں ہوگی اور کراچی میں ہونے والی میٹنگ میں صرف یہ فیصلہ ہوا کہ ملک کے موجودہ حالات پہ ایک ڈاکو منٹ لکھا جائے پھر اس کی روشنی میں ورکنگ پلان بنایا جائے افسوس کہ اس ڈاکو منٹ کو لکھنے میں کئی سال لگ گئے اور پھر یہ ڈاکومنٹ کسی الماری کی زینت بن گیا۔
اس کے بعد بکھرے ہوئے لیفٹ کے دھڑوں میں اتحاد کا سلسلہ چلتا اور ٹوٹتا رہا۔ یہ سلسلہ جس طرح عشروں سے جاری ہے مزید کئی عشروں تک جاری رہ سکتا ہے، خدا کرے کہ یہ سلسلہ کہیں تورکے۔ لیکن وقت ہمارا انتظار نہیں کرسکتا۔ ہمارا اور اس ملک کے 20 کروڑ انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اس ظالمانہ Status Quo کو توڑنا ہے جو عوام کے آگے بڑھنے کے راستے میں ہمالیہ کی طرح کھڑا ہے اگر عمران اور قادری اس ظالمانہ اور انتہائی مضبوط اسٹیٹس کو کو توڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو ان کی حمایت کرنا نظریاتی کجروی کہلاسکتی ہے؟
بعض وقت سیاسی حالات اتنے پیچیدہ ہوجاتے ہیں کہ بڑے انقلابی علماء چہ کنم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات میں درست طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کون کے بجائے کیا کو اہمیت دی جائے۔ پاکستان ایک ماہ سے جس سیاسی بحران میں مبتلا ہے یہ بحران بہت پیچیدہ بھی نظر آتاہے اور بہت آسان اور سادہ بھی۔ اس بحران کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ پچھلے 67 سال سے ہماری سیاست ہمارا معاشرہ کس دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور آگے کی طرف ایک قدم بھی کیوں بڑھ نہیں پارہا؟
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ 67 سال کے دوران جو جمہوری دور آتے رہے ہیں کیا یہ دور واقعی جمہوری رہے ہیں؟ کیا اس ملک میں جاگیردارانہ نظام اب بھی برقرار ہے؟ کیا 67 سال سے مسلط Status Quo کو توڑے بغیر ہماری سیاست، ہماری جمہوریت عوامی بن سکتی ہے؟ کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسی سیاسی طاقت موجود ہے جو اس 'اسٹیٹس کو' کو توڑنے کی اہلیت اور طاقت رکھتی ہے؟ اگرچہ ان سوالوں کے معروضی جواب تلاش کرلیے جائیں تو موجودہ پیچیدہ سیاسی بحران کو سمجھنے ہی میں نہیں بلکہ اس پس منظر میں ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے میں بھی آسانی ہوجائے گی۔
مجھے ایکسپریس میں لکھتے ہوئے 12-13 سال ہورہے ہیں اس عرصے میں مجھے اپنی تحریر کی کبھی وضاحت کرنی پڑی نہ کسی طرف سے کوئی نظریاتی تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب برادرم منظور رضی نے دھرنوں کی حمایت کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے ہم پر کی جانے والی تنقید کا ذکر کیا تو اس کی وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے میں نے چند سوالوں کے ذریعے اس پیچیدہ بحران کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نقادوں کے شکوک شبہات دور کرنے اور اس پیچیدہ سیاسی بحران کو سمجھنے کے لیے مزید وضاحت ضروری نظر آرہی ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ عمران اور قادری کی تحریک کے پیچھے کسی تیسری یا چوتھی طاقت کی حمایت موجود ہو اور ممکن ہے کہ اس کے کچھ مقاصد بھی ہوں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عمران اور قادری کیا مطالبات کررہے ہیں؟ ان کے مطالبات میں شریف برادران کا استعفیٰ سر فہرست ہے اس مطالبے کے حوالے سے ہم نے ان ہی کالموں میں بار بار اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ محض نواز شریف سے استعفیٰ لے کر ان کی پارٹی کے کسی دوسرے شخص کو وزیراعظم بنانے کا مطالبہ بچکانہ مطالبہ ہے کیوں کہ جب تک اس پوری کلاس سے نجات حاصل نہیں کی جاتی اس کلاس کے فرد واحد کو ہٹانا لا حاصل ہی ہوگا۔
عمران خان اور قادری کے دوسرے مطالبات البتہ اسٹیٹس کو کے خلاف ہیں مثلاً زرعی اصلاحات، بلدیاتی نظام کا احیاء انتخابی نظام میں ایسی تبدیلی کے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ایماندار اور با صلاحیت لوگوں کی قانون ساز اداروں میں رسائی آسان ہو، دھاندلیوں کے مرکز الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل حکمران طبقات کی اربوں کھربوں کی لوٹ مار کا احتساب وغیرہ ایسے مطالبات ہیں جن کے تسلیم کیے جانے یا کرائے جانے سے 67 سالہ ظالمانہ سیٹ اپ کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی پارلیمانی پارٹی یہ مطالبات منوانا تو دور کی بات کیا کر بھی سکتی ہے۔؟ کیا روایتی انقلابی گروہ اس قدر طاقت ور ہیں کہ یہ مطالبات منواسکیں؟ جب ان سوالوں کا جواب نفی میں آتا ہے تو پھر کون سا راستہ رہ جاتا ہے؟ اسی تصادم پر آکر معاشرے سیاست اور 20 کروڑ عوام کو Status Quo سے نکالنے کے لیے عمران اور قادری کی حمایت پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ مذکورہ بالا مطالبات کو منواسکیں۔ کیا ہم بکھرے ہوئے ذاتی اور جماعتی مفادات میں الجھے ہوئے لفٹ کے متحد ہونے میں عشروں انتظار کرسکتے ہیں؟ کیا ہم عشروں سے انھیں متحد کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں؟ یہ کوششیں کیوں ناکام ہورہی ہیں۔ آیندہ ان کوششوں کی کامیابی کے کوئی امکان ہیں؟
یہ ہے وہ مایوس کن صورت حال جس سے نکلنے کے لیے عمران اور قادری کی حمایت کے علاوہ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم نصف صدی سے اس طبقاتی استحصال کے خلاف ہر محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں، قدم قدم پر ہمارے لیے پر تعیش زندگی گزارنے کے مواقعے موجود تھے انھیں ٹھکراکر ہم نے فقر و فاقوں کی زندگی قبول کی ہماری عوام سے کمٹمنٹ اس قدر مضبوط ہمارا نظریہ اس قدر مستحکم ہمارا ضمیر اس قدر بیدار ہے کہ ہم اپنے نظریات ضمیر اور قلم کا سودا نہیں کرسکتے۔ اس پس منظر میں اگر کوئی ہم پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا الزام لگاتا ہے تو اس کی نیک نیتی پر ہم ماتم ہی کرسکتے ہیں۔
عمران خان کے لیے سیاست کرکٹ کا کھیل ہے عمران خان نے نظریاتی سیاست کرنے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا جب معراج محمد خان تحریک انصاف میں شامل ہونے کی تیاری کررہے تھے تو میں، یوسف مستی خان، عثمان بلوچ اور اعزاز نذیز مرحوم نے انھیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن معراج نہ مانے، آخر کار انھیں یہاں سے مایوس ہوکر واپس آنا پڑا، طاہر القادری ایک مذہبی تنظیم منہاج القرآن کے سربراہ ہیں پاکستان عوامی تحریک ان کا ضمنی آپشن ہے لیکن یہ دونوں حضرات بوجوہ Status Quo کو توڑنے پر آمادہ ہیں جو اس ملک کی سیاسی معاشرتی زندگی کے راستے میں ہمالیہ کی طرح کھڑا ہے اگر وقت اور حالات نے انھیں اس قابل بنادیا ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو کیا ہمیں ان کی مخالفت کرکے کرپٹ خاندانی جمہوریت کی حمایت کرکے اسے اور مستحکم بنانا چاہیے۔؟
ہوسکتاہے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات موجود ہوں اور اسٹیبلشمنٹ ان اختلافات کی وجہ سے دھرنوں والوں کے لیے سوفٹ کارنر رکھتی ہو لیکن معروضی اپروچ کا تقاضا یہ ہے کہ ان تضادات کو ہم عوام کے مفادات کے لیے استعمال کریں، جو جمہوریت کے چیمپئن آج فوج کے خلاف صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے متحد نظر آرہے ہیں اگر خدانخواستہ فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو یہ جمہوریت دیوتا فوجی حکومت میں شامل ہونے میں کوئی دیر نہیں کریں گے۔ ایوب خان کی فوجی حکومت سے مشرف کی حکومت تک یہی ہوتا رہا ہے۔
2005 میں مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ میں نے اس کانفرنس کے آرگنائزر عابد حسن منٹو کو فون کیا اور ان سے کہاکہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چاروں صوبوں سے آنے والے کامریڈوں کی ایک نشست کا اہتمام کیا جائے اور عشروں سے چھائے ہوئے جمود کو توڑنے کے لیے دوستوں کو کسی ورکنگ ایجنڈے پر متفق کیا جائے، کسان کانفرنس کے بعد ایک مقامی ہوٹل میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں صرف یہ طے ہوا کہ اس سلسلے کی اگلی میٹنگ کراچی میں ہوگی اور کراچی میں ہونے والی میٹنگ میں صرف یہ فیصلہ ہوا کہ ملک کے موجودہ حالات پہ ایک ڈاکو منٹ لکھا جائے پھر اس کی روشنی میں ورکنگ پلان بنایا جائے افسوس کہ اس ڈاکو منٹ کو لکھنے میں کئی سال لگ گئے اور پھر یہ ڈاکومنٹ کسی الماری کی زینت بن گیا۔
اس کے بعد بکھرے ہوئے لیفٹ کے دھڑوں میں اتحاد کا سلسلہ چلتا اور ٹوٹتا رہا۔ یہ سلسلہ جس طرح عشروں سے جاری ہے مزید کئی عشروں تک جاری رہ سکتا ہے، خدا کرے کہ یہ سلسلہ کہیں تورکے۔ لیکن وقت ہمارا انتظار نہیں کرسکتا۔ ہمارا اور اس ملک کے 20 کروڑ انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اس ظالمانہ Status Quo کو توڑنا ہے جو عوام کے آگے بڑھنے کے راستے میں ہمالیہ کی طرح کھڑا ہے اگر عمران اور قادری اس ظالمانہ اور انتہائی مضبوط اسٹیٹس کو کو توڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو ان کی حمایت کرنا نظریاتی کجروی کہلاسکتی ہے؟