3 نومبر کی ایمرجنسی کا ریکارڈ جنرل حامد اپنے ساتھ لے گئے سربراہ تحقیقاتی ٹیم
وزارت دفاع سے بھی ریکارڈ نہیں ملا، حکومت نے پرویز مشرف کی معاونت کرنیوالوں کے تعین کا مینڈیٹ۔۔۔، عدالت میں جرح مکمل
لاہور:
سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کے مقدمے میں سربراہ تحقیقاتی ٹیم اور ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی نے بتایا کہ3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی لگانے کا مکمل ریکارڈ اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے چیف آف اسٹاف جنرل حامد جاوید اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ریکارڈ غائب ہونے کی تحقیقات تو نہیں کی تاہم وزارت دفاع سے رابطہ کیا گیا مگر ریکارڈ نہ مل سکا۔ جمعرات کوخصوصی عدالت کے روبرو استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیان ریکارڈ ہونے اور جرح مکمل کرنے کے بعد مزید سماعت یکم اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ وکیل صفائی بیرسٹر فروغ نسیم کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے خالد قریشی نے کہا کہ جنرل حامد جاوید کو ریکارڈ فراہم کرنے کیلیے کوئی نوٹس جاری ہوا نہ ہی ان کا بیان قلمبند کیا جاسکا البتہ شوکت عزیز کی جانب سے لکھا گیا خط ریکارڈ پر موجود ہے مگر انکی جانب سے ایمرجنسی لگانے کیلیے بھیجی گئی کسی ایڈوائس کا وجود نہیں ملا، شوکت عزیز اور ان کی کابینہ نے جنرل مشرف کے احکام پر عمل کیا۔
مشرف کیساتھ کوئی معاون کار نہیں تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کے پاس اس فرد کا نام موجود نہیں جو 3 نومبر2007 کو وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ریکارڈ کا محافظ تھا۔ پرویز مشرف نے دیگر حکام کے ساتھ جو ملاقاتیں یا مشاورت کی، اس بارے میںکوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ وفاقی حکومت نے انھیں ایمرجنسی کے نفاذ میں معاونت کرنے والوں کے تعین کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا، عدالت یکم اکتوبر سیاشفاق پرویز کیانی اور شوکت عزیز سمیت سابق فوجی و سول حکام کو شریک ملزمان نامزد کرنے کیلیے پرویز مشرف کی درخواست کی سماعت کرے گی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگلے مرحلے میں پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کیلیے عدالت طلب کیا جائے گا۔
سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کے مقدمے میں سربراہ تحقیقاتی ٹیم اور ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی نے بتایا کہ3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی لگانے کا مکمل ریکارڈ اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے چیف آف اسٹاف جنرل حامد جاوید اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ریکارڈ غائب ہونے کی تحقیقات تو نہیں کی تاہم وزارت دفاع سے رابطہ کیا گیا مگر ریکارڈ نہ مل سکا۔ جمعرات کوخصوصی عدالت کے روبرو استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیان ریکارڈ ہونے اور جرح مکمل کرنے کے بعد مزید سماعت یکم اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ وکیل صفائی بیرسٹر فروغ نسیم کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے خالد قریشی نے کہا کہ جنرل حامد جاوید کو ریکارڈ فراہم کرنے کیلیے کوئی نوٹس جاری ہوا نہ ہی ان کا بیان قلمبند کیا جاسکا البتہ شوکت عزیز کی جانب سے لکھا گیا خط ریکارڈ پر موجود ہے مگر انکی جانب سے ایمرجنسی لگانے کیلیے بھیجی گئی کسی ایڈوائس کا وجود نہیں ملا، شوکت عزیز اور ان کی کابینہ نے جنرل مشرف کے احکام پر عمل کیا۔
مشرف کیساتھ کوئی معاون کار نہیں تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کے پاس اس فرد کا نام موجود نہیں جو 3 نومبر2007 کو وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ریکارڈ کا محافظ تھا۔ پرویز مشرف نے دیگر حکام کے ساتھ جو ملاقاتیں یا مشاورت کی، اس بارے میںکوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ وفاقی حکومت نے انھیں ایمرجنسی کے نفاذ میں معاونت کرنے والوں کے تعین کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا، عدالت یکم اکتوبر سیاشفاق پرویز کیانی اور شوکت عزیز سمیت سابق فوجی و سول حکام کو شریک ملزمان نامزد کرنے کیلیے پرویز مشرف کی درخواست کی سماعت کرے گی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگلے مرحلے میں پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کیلیے عدالت طلب کیا جائے گا۔