پاکستان ایک نظر میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجوہات
سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت پربھی اثراندازرہا ہے۔ غیر یقینی صورتحال اوربارباراکھاڑ پچھاڑسرمایہ کاری کیلئے زہرقاتل ہے۔
پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے حالانکہ دستور بھی موجود ہے اور سیاسی نظام بھی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ساٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود مستحکم سیاسی حالات ہمارا مقدر نہ بن سکے ۔
قیام پاکستان کے بعد طویل عرصے تک کسی اور جماعت کی غیر فعال موجودگی میں محض ایک جماعت کا ہونا اسکی ایک وجہ ہے ۔ پھر قیام کے تھوڑے عرصے بعد ہی لگنے والے مارشل لاء نے سیاسی نمو کی بنیادیں ہلادیں ۔ طویل مارشل لاء ادوار نے سیاسی کلچر کو اس طرح پنپنے کا موقع نہ دیا جیسے دوسرے ممالک میں مواقع میسر تھے۔ اسمیں کچھ غلطی سیاسی جماعتوں کی بھی ہے کیونکہ جب بھی ملک میں آمریت آئی کچھ سیاسی قوتیں ڈکٹیٹر کی ہمنوا بن کر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس دور کو طولانی فراہم کرتی رہیں ۔ لیکن جمہوری ادوار میں یہی جماتیں باہم دست و گریباں ہو کر نئی مہم جوئی کی راہ ہموار کرتی رہیں ۔ سیاسی بالغ نظری کا یہی فقدان بار بار سیاسی تعطل کی اہم وجہ بنا رہا ۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جاگیردار طبقہ ملک پر حاوی ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ اشرافیہ کی ایسی شکل اختیار کرگیا جسکے شکنجے میں سیاست سے لیکر وسائل تک ہر چیز جکڑی گئی۔ یہی اشرافیہ سیاسی میدان میں اتنی طاقتور ہوگئی کہ جمہوریت صرف تقریر اور جماعتوں کے منشور تک محدود ہو کر رہ گئی ۔ مخصوص ذہنیت عوامی مسائل و جذبات کی صحیح ترجمانی سے قاصر رہی ۔ بھارت نے ساٹھ کے عشرے میں ہی جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کافیصلہ کیا جبکہ ہم آج تک اس فرسودہ نظام کو لئے بیٹھے ہیں حالانکہ مہذب معاشرے میں ایسے کسی نظام کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
افغان جہاد کے وقت مذہبی جماعتوں نے ملک کے سیاسی افق پر ایسی جگہ بنائی کہ قوم آج تک یہ نہ سمجھ سکی کہ مذہبی سیاسی جماعتیں سیاست کرنا چاہتی ہیں یا تبلیغ ۔ ' مذہب کو سیاست سے الگ ہونا چاہئے یا ملک کو مکمل مذہبی رنگ میں ڈھال دیا جائے ، اسلام میں جمہوریت کا تصور ہے یا نہیں ' یہ بحث ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔ مزید براں سیکیولرازم صحیح تشریح نہ ہونے کے باعث لبرل طبقے اور مذہبی طبقے کے درمیان وجہ تنازعہ بن گیا، نتیجہ کنفیوژن اور قول وفعل کا تضاد ۔
اختیارات کی نچلی سطح تک منقلی نہ ہونے کیوجہ سے عوام الناس خود کو سیاست سے اجنبی پاتے ہیں ۔ پانچ سال بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کےلئے ووٹنگ عوام میں وہ ولولہ پیدا نہیں کرسکتی جو کونسلر یا ناظم جیسے نمائندوں کو اپنے درمیان پاکر ہو ۔ یہ نظام عوام کی سیاسی تربیت کی آماجگاہ ہوتا ہے نیز گلی محلے کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بھی ۔ سیاست کا ایوانوں سے نکل کر عام آدمی تک پہنچنا سیاسی استحکام کی علامت ہوتا ہے۔ ایک وقت ہوتا تھا جب طلبہ یونین کا رواج تھا اور لوگ جمہوری طریقے سے اپنے نمائندہ طلبہ کو اختیارات سے نوازتے تھے مگر ضیاالحق کی جانب سے لگائی گئی پابندی نے اِس کو تشدد میں تبدیل کردیا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ضیا کے بعد جتنی بھی جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں اُنہوں نے بھی کبھی اِس پابندی کو ختم کرنے کی جسارت نہیں کی کہ ناجانے وہ کس خوف کا شکار ہیں۔
سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت پر بھی اثر انداز رہا ہے ۔ غیر یقینی صورتحال اور بار بار اکھاڑ پچھاڑ سرمایہ کاری کے لئے زہرقاتل ہے ۔ نئی سوچ اور جہتیں صحتمند معاشرے اور ترقی کا معیار ہیں ۔ عوام کو متحرک رکھ کر ہر ملک نے سیاسی جڑوں کو مضبوط کیا ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی اب اس حقیقت کو سمجھ رہی ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسا لمحہ ہوگا کہ اِس ملک پر راج کرنے والی سیاسی الیٹ کب اپنی انا کو کم کرکے عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد طویل عرصے تک کسی اور جماعت کی غیر فعال موجودگی میں محض ایک جماعت کا ہونا اسکی ایک وجہ ہے ۔ پھر قیام کے تھوڑے عرصے بعد ہی لگنے والے مارشل لاء نے سیاسی نمو کی بنیادیں ہلادیں ۔ طویل مارشل لاء ادوار نے سیاسی کلچر کو اس طرح پنپنے کا موقع نہ دیا جیسے دوسرے ممالک میں مواقع میسر تھے۔ اسمیں کچھ غلطی سیاسی جماعتوں کی بھی ہے کیونکہ جب بھی ملک میں آمریت آئی کچھ سیاسی قوتیں ڈکٹیٹر کی ہمنوا بن کر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس دور کو طولانی فراہم کرتی رہیں ۔ لیکن جمہوری ادوار میں یہی جماتیں باہم دست و گریباں ہو کر نئی مہم جوئی کی راہ ہموار کرتی رہیں ۔ سیاسی بالغ نظری کا یہی فقدان بار بار سیاسی تعطل کی اہم وجہ بنا رہا ۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جاگیردار طبقہ ملک پر حاوی ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ اشرافیہ کی ایسی شکل اختیار کرگیا جسکے شکنجے میں سیاست سے لیکر وسائل تک ہر چیز جکڑی گئی۔ یہی اشرافیہ سیاسی میدان میں اتنی طاقتور ہوگئی کہ جمہوریت صرف تقریر اور جماعتوں کے منشور تک محدود ہو کر رہ گئی ۔ مخصوص ذہنیت عوامی مسائل و جذبات کی صحیح ترجمانی سے قاصر رہی ۔ بھارت نے ساٹھ کے عشرے میں ہی جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کافیصلہ کیا جبکہ ہم آج تک اس فرسودہ نظام کو لئے بیٹھے ہیں حالانکہ مہذب معاشرے میں ایسے کسی نظام کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
افغان جہاد کے وقت مذہبی جماعتوں نے ملک کے سیاسی افق پر ایسی جگہ بنائی کہ قوم آج تک یہ نہ سمجھ سکی کہ مذہبی سیاسی جماعتیں سیاست کرنا چاہتی ہیں یا تبلیغ ۔ ' مذہب کو سیاست سے الگ ہونا چاہئے یا ملک کو مکمل مذہبی رنگ میں ڈھال دیا جائے ، اسلام میں جمہوریت کا تصور ہے یا نہیں ' یہ بحث ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔ مزید براں سیکیولرازم صحیح تشریح نہ ہونے کے باعث لبرل طبقے اور مذہبی طبقے کے درمیان وجہ تنازعہ بن گیا، نتیجہ کنفیوژن اور قول وفعل کا تضاد ۔
اختیارات کی نچلی سطح تک منقلی نہ ہونے کیوجہ سے عوام الناس خود کو سیاست سے اجنبی پاتے ہیں ۔ پانچ سال بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کےلئے ووٹنگ عوام میں وہ ولولہ پیدا نہیں کرسکتی جو کونسلر یا ناظم جیسے نمائندوں کو اپنے درمیان پاکر ہو ۔ یہ نظام عوام کی سیاسی تربیت کی آماجگاہ ہوتا ہے نیز گلی محلے کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بھی ۔ سیاست کا ایوانوں سے نکل کر عام آدمی تک پہنچنا سیاسی استحکام کی علامت ہوتا ہے۔ ایک وقت ہوتا تھا جب طلبہ یونین کا رواج تھا اور لوگ جمہوری طریقے سے اپنے نمائندہ طلبہ کو اختیارات سے نوازتے تھے مگر ضیاالحق کی جانب سے لگائی گئی پابندی نے اِس کو تشدد میں تبدیل کردیا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ضیا کے بعد جتنی بھی جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں اُنہوں نے بھی کبھی اِس پابندی کو ختم کرنے کی جسارت نہیں کی کہ ناجانے وہ کس خوف کا شکار ہیں۔
سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت پر بھی اثر انداز رہا ہے ۔ غیر یقینی صورتحال اور بار بار اکھاڑ پچھاڑ سرمایہ کاری کے لئے زہرقاتل ہے ۔ نئی سوچ اور جہتیں صحتمند معاشرے اور ترقی کا معیار ہیں ۔ عوام کو متحرک رکھ کر ہر ملک نے سیاسی جڑوں کو مضبوط کیا ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی اب اس حقیقت کو سمجھ رہی ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسا لمحہ ہوگا کہ اِس ملک پر راج کرنے والی سیاسی الیٹ کب اپنی انا کو کم کرکے عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔