چاندی جیسے پانی والا بے مثال سوہنی کا چناب بپھر گیا
وسطی پنجاب کی تہذیب وثقافت اور تاریخ سے جڑے ایک عظیم دریا کا دلچسپ قصّہ
ارجنٹائن کی کہاوت ہے: ''جب تک دریا پار نہ کرلو، مگر مچھ سے کبھی بیر نہ رکھو۔'' اس کہاوت کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ جہاں بھی رہیے، کوشش کیجیے کہ وہاں طاقت ور سے دوستی رکھئیے۔ یہ بات دریاؤں کے نزدیک رہنے والوں کو خصوصاً یاد رکھنی چاہیے... کیونکہ تھوڑا سا زیادہ پانی آنے پہ دریا بپھرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
یہی دیکھئے کہ 2010ء میں دریائے سندھ بپھرا تھا، تو اس بار دریائے چناب اور جہلم میں ایسے زبردست سیلاب آگئے جو کم از کم نئی نسل نے جاگتی نظروں سے نہیں دیکھے تھے۔ یہ دونوں دریا پنجاب کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ جیسے جرمنوں کی تہذیب و ثقافت میں دریائے رائن کو نمایاں مقام حاصل ہے، اسی طرح پنجابیوں کی روزمرہ معاشرتی و معاشی کے ساتھ ساتھ جذباتی و رومانی زندگی میں بھی چناب و جہلم بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
یہ دونوں دریا ہمالیہ کے پہاڑوں میں جنم لیتے ہیں۔ دریائے چناب کا منبع زنسکر سلسلہ ہائے کوہ (range Zanskar) کے پہاڑ ہیں۔یہ انیس ہزار فٹ بلند پہاڑ بھارتی ریاست،ہماچل پردیش میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کا سولہ ہزار فٹ بلند درہ بارا لاشالا (Baralachala) ماضی میں اہم تجارتی راستہ رہا ہے۔زنسکر پہاڑوں پہ پگھلتے گلیشیروں سے دو ندیاں...چندرا اور بھاگا جنم لیتی ہیں۔ ٹنڈی گاؤں کے مقام پر دونوں ندیاں مل جائیں،تو دریائے چندرا بھاگا وجود میں آتا ہے۔
دریائے چناب اور رومان کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ شاید اس لیے کہ چاندی جیسے پانی کو سموئے وسیع و عریض چناب کو دیکھا جائے تو وہ انسانوں پر رومانی جذبات طاری کردیتا ہے۔ یا شاید یوں کہ اس کی ابتدا ہی ایک عشق سے ہوئی۔
زنسکر سلسلہ ہائے کوہ کی وادیوں میں ایک لوک داستان مشہور ہے۔ داستان کچھ یوں ہے کہ چاند کی بیٹی، چندرا اور سورج دیوتا کا بیٹا، بھاگا ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ د رہ بارا لاشالا پہنچ کر شادی کریں گے۔ چنانچہ وہ مختلف سمتوں سے اوپر روانہ ہوئے۔
چندرا دبلی پتلی اور تیز و طرار تھی، اس نے 71 میل کا فاصلہ پھرتی سے طے کیا اور پہلے ٹنڈی پہنچ گئی۔ بھاگا کو اونچی نیچی گھاٹیاں پار کرنا پڑیں۔ اسی لیے وہ دیر سے پہنچا حالانکہ فاصلہ صرف 37 میل تھا۔ آخر ٹنڈی کے مقام پر ان کا بیاہ ہوگیا۔
دریائے چندرا بھاگا جب مقبوضہ کشمیر میں کشتواڑ شہر کے قریب پہنچے، تو اس میں ایک اور ندی، مراؤ نامی آملتی ہے۔ تبھی دریائے چناب وجود میں آتا ہے۔ یہ دو الفاظ، چن (چاند) اور آب (پانی) کا مرکب ہے۔
چناب ضلع سیالکوٹ کے قریب سے پاکستانی پنجاب کے میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ ہزاروں سال قبل اس دریا کے کنارے سیکڑوں انسانی بستیوں کی بنیاد پڑی۔ ان میں تین ...سیالکوٹ، گجرات اور جھنگ آج لیجنڈری شہروں کا درجہ پاچکے ۔اور یہ دریائے چناب ہی ہے جس کے علاقوں میں تین عظیم پنجابی رومانی لوک داستانوں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں نے جنم لیا:
سوہنی آکھدی، گَل میری تو سن گھڑیئے
مینوں مہینوال نال توں ملائیں گھڑیئے
(سوہنی اپنے گھڑے سے کہتی ہے کہ اے میری بات سن، دریا میں تیرتے ہوئے میرا سہارا بن اور مجھے مہینوال سے ملادے)
تاہم علاقے کی رومانی لوک داستانوں میں پورن بھگت کی داستان سب سے قدیم ہے۔شہزادہ پورن سیالکوٹ کی بنیاد رکھنے والے راجا سالوان (یاسالبان) کا بیٹا تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تو نجومیوں کے اصرار پر اس نے بیٹے کو بارہ سال خود سے دور رکھا۔ اس دوران راجا نے ایک نوجوان لڑکی، لونا سے شادی کرلی۔
جب شہزادہ پورن واپس سیالکوٹ آیا، تو وہ جوان رعنا بن چکا تھا۔ رانی لونا اس پر مرمٹی مگر شہزادے نے اظہار التفات نہ کیا کیونکہ وہ اس کی سوتیلی ماں تھی۔ جب رانی لونا کی ناجائز تمنا پوری نہ ہوئی، تو اس نے شہزادے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔
رانی نے اس پر اپنی بے حرمتی کرنے کا الزام لگایا۔ تب سالوان نے غصے میں آ کر اپنے بیٹے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ مگر راجا کے سرداروں نے شہزادے کو بچایا اور اسے فرار کرادیا۔ پورن پھر ایک ہندو گرو، بابا گورکھ ناتھ کا چیلا بن گیا اور خود بھی مہایوگی بن کر ابھرا۔
ہندو فرقے، جنڈیال کے پیروکار شہزادے پورن ہی کو اپنا سربراہ مانتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل جنڈیالوں کا سب سے بڑا مندر سیالکوٹ میں واقع تھا۔ جب جنڈیال بھارت گئے، تو انہوں نے جموں کے قصبے، جندی میں پورن سے وابستہ مندر تعمیر کرلیا۔ جنڈیال مہاجنوں کی ذیلی ذات شمار ہوتی ہے۔ آج کئی جنڈیال کاروباری ارب پتی بھارتیوں کی صف میں شامل ہیں۔
موسم برسات میں پہاڑوں پہ ہونے والی شدید بارشوں کے سبب دریائے چناب عموماً بپھر جاتا ہے۔ اسی لیے اس کے کناروں پر ایسے قبائل آباد ہوئے جن کے باشندے جفاکش، سخت جان اور محنتی تھے۔ ان میں گوجر، جٹ اور راجپوت قبائل نمایاں ہیں۔ انہی قبائل نے سکندر اعظم سے لے کر مغلوں اور سکھوں تک مختلف حملہ آوروں کا بھی سامنا کیا اور جنگوں میں انھیں شکستیں بھی دیں۔
دریائے چناب اپنی تمام تر فطری خوبصورتی اور ہیبت ناکی کے ساتھ آگے بڑھتا شہر ِصوفیائے کرام ، اُچ شریف کے نزدیک دریائے ستلج سے جاملتا ہے۔ یوں پنجند کا مقام ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس سے آگے مٹھن کوٹ پر پنجند کے پانچوں دریا عظیم پاکستانی دریا سندھ سے جاملتے ہیں۔ یوں ہمالیہ کی کوکھ سے نکلنے والے حسین دریا کا طویل سفر تمام ہوتا ہے۔ چاند جیسے چمکتے پانی والا آب یعنی چناب تقریباً 960 کلو میٹر طویل ہے۔
یہی دیکھئے کہ 2010ء میں دریائے سندھ بپھرا تھا، تو اس بار دریائے چناب اور جہلم میں ایسے زبردست سیلاب آگئے جو کم از کم نئی نسل نے جاگتی نظروں سے نہیں دیکھے تھے۔ یہ دونوں دریا پنجاب کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ جیسے جرمنوں کی تہذیب و ثقافت میں دریائے رائن کو نمایاں مقام حاصل ہے، اسی طرح پنجابیوں کی روزمرہ معاشرتی و معاشی کے ساتھ ساتھ جذباتی و رومانی زندگی میں بھی چناب و جہلم بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
یہ دونوں دریا ہمالیہ کے پہاڑوں میں جنم لیتے ہیں۔ دریائے چناب کا منبع زنسکر سلسلہ ہائے کوہ (range Zanskar) کے پہاڑ ہیں۔یہ انیس ہزار فٹ بلند پہاڑ بھارتی ریاست،ہماچل پردیش میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کا سولہ ہزار فٹ بلند درہ بارا لاشالا (Baralachala) ماضی میں اہم تجارتی راستہ رہا ہے۔زنسکر پہاڑوں پہ پگھلتے گلیشیروں سے دو ندیاں...چندرا اور بھاگا جنم لیتی ہیں۔ ٹنڈی گاؤں کے مقام پر دونوں ندیاں مل جائیں،تو دریائے چندرا بھاگا وجود میں آتا ہے۔
دریائے چناب اور رومان کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔ شاید اس لیے کہ چاندی جیسے پانی کو سموئے وسیع و عریض چناب کو دیکھا جائے تو وہ انسانوں پر رومانی جذبات طاری کردیتا ہے۔ یا شاید یوں کہ اس کی ابتدا ہی ایک عشق سے ہوئی۔
زنسکر سلسلہ ہائے کوہ کی وادیوں میں ایک لوک داستان مشہور ہے۔ داستان کچھ یوں ہے کہ چاند کی بیٹی، چندرا اور سورج دیوتا کا بیٹا، بھاگا ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ د رہ بارا لاشالا پہنچ کر شادی کریں گے۔ چنانچہ وہ مختلف سمتوں سے اوپر روانہ ہوئے۔
چندرا دبلی پتلی اور تیز و طرار تھی، اس نے 71 میل کا فاصلہ پھرتی سے طے کیا اور پہلے ٹنڈی پہنچ گئی۔ بھاگا کو اونچی نیچی گھاٹیاں پار کرنا پڑیں۔ اسی لیے وہ دیر سے پہنچا حالانکہ فاصلہ صرف 37 میل تھا۔ آخر ٹنڈی کے مقام پر ان کا بیاہ ہوگیا۔
دریائے چندرا بھاگا جب مقبوضہ کشمیر میں کشتواڑ شہر کے قریب پہنچے، تو اس میں ایک اور ندی، مراؤ نامی آملتی ہے۔ تبھی دریائے چناب وجود میں آتا ہے۔ یہ دو الفاظ، چن (چاند) اور آب (پانی) کا مرکب ہے۔
چناب ضلع سیالکوٹ کے قریب سے پاکستانی پنجاب کے میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ ہزاروں سال قبل اس دریا کے کنارے سیکڑوں انسانی بستیوں کی بنیاد پڑی۔ ان میں تین ...سیالکوٹ، گجرات اور جھنگ آج لیجنڈری شہروں کا درجہ پاچکے ۔اور یہ دریائے چناب ہی ہے جس کے علاقوں میں تین عظیم پنجابی رومانی لوک داستانوں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں نے جنم لیا:
سوہنی آکھدی، گَل میری تو سن گھڑیئے
مینوں مہینوال نال توں ملائیں گھڑیئے
(سوہنی اپنے گھڑے سے کہتی ہے کہ اے میری بات سن، دریا میں تیرتے ہوئے میرا سہارا بن اور مجھے مہینوال سے ملادے)
تاہم علاقے کی رومانی لوک داستانوں میں پورن بھگت کی داستان سب سے قدیم ہے۔شہزادہ پورن سیالکوٹ کی بنیاد رکھنے والے راجا سالوان (یاسالبان) کا بیٹا تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تو نجومیوں کے اصرار پر اس نے بیٹے کو بارہ سال خود سے دور رکھا۔ اس دوران راجا نے ایک نوجوان لڑکی، لونا سے شادی کرلی۔
جب شہزادہ پورن واپس سیالکوٹ آیا، تو وہ جوان رعنا بن چکا تھا۔ رانی لونا اس پر مرمٹی مگر شہزادے نے اظہار التفات نہ کیا کیونکہ وہ اس کی سوتیلی ماں تھی۔ جب رانی لونا کی ناجائز تمنا پوری نہ ہوئی، تو اس نے شہزادے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔
رانی نے اس پر اپنی بے حرمتی کرنے کا الزام لگایا۔ تب سالوان نے غصے میں آ کر اپنے بیٹے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ مگر راجا کے سرداروں نے شہزادے کو بچایا اور اسے فرار کرادیا۔ پورن پھر ایک ہندو گرو، بابا گورکھ ناتھ کا چیلا بن گیا اور خود بھی مہایوگی بن کر ابھرا۔
ہندو فرقے، جنڈیال کے پیروکار شہزادے پورن ہی کو اپنا سربراہ مانتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل جنڈیالوں کا سب سے بڑا مندر سیالکوٹ میں واقع تھا۔ جب جنڈیال بھارت گئے، تو انہوں نے جموں کے قصبے، جندی میں پورن سے وابستہ مندر تعمیر کرلیا۔ جنڈیال مہاجنوں کی ذیلی ذات شمار ہوتی ہے۔ آج کئی جنڈیال کاروباری ارب پتی بھارتیوں کی صف میں شامل ہیں۔
موسم برسات میں پہاڑوں پہ ہونے والی شدید بارشوں کے سبب دریائے چناب عموماً بپھر جاتا ہے۔ اسی لیے اس کے کناروں پر ایسے قبائل آباد ہوئے جن کے باشندے جفاکش، سخت جان اور محنتی تھے۔ ان میں گوجر، جٹ اور راجپوت قبائل نمایاں ہیں۔ انہی قبائل نے سکندر اعظم سے لے کر مغلوں اور سکھوں تک مختلف حملہ آوروں کا بھی سامنا کیا اور جنگوں میں انھیں شکستیں بھی دیں۔
دریائے چناب اپنی تمام تر فطری خوبصورتی اور ہیبت ناکی کے ساتھ آگے بڑھتا شہر ِصوفیائے کرام ، اُچ شریف کے نزدیک دریائے ستلج سے جاملتا ہے۔ یوں پنجند کا مقام ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس سے آگے مٹھن کوٹ پر پنجند کے پانچوں دریا عظیم پاکستانی دریا سندھ سے جاملتے ہیں۔ یوں ہمالیہ کی کوکھ سے نکلنے والے حسین دریا کا طویل سفر تمام ہوتا ہے۔ چاند جیسے چمکتے پانی والا آب یعنی چناب تقریباً 960 کلو میٹر طویل ہے۔