بات کچھ اِدھر اُدھر کی کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

کسی نے سچ کہا تھا کہ ایک عظیم شاعرہرعہد کا ترجمان ہوتا ہے اورکبھی مرتا نہیں ہے اس کا کلام اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے.

کسی نے سچ کہا تھا کہ ایک عظیم شاعرہرعہد کا ترجمان ہوتا ہے اورکبھی مرتا نہیں ہے اس کا کلام اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے. فوٹو فیس بک

ہر بڑے شاعر کا نام ایک طلسم ہے جسے زبان پر لاتے ہی نظرکے سامنے ایک نیا جہان ابھر آتا ہے ۔شاعری صرف جذبات کے اظہار کا نام ہی نہیں ہے یہ تو ترجمان ہے ایک متحرک زندگی کا، جس میں غم بھی ہیں، خوشیاں بھی ہیں ادھوری خواہشوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی ، جس میں ہر انسان کبھی ابھرتا ہے کبھی ڈوبتا ہے ۔ لیکن جس نے دوسروں کے دکھ کو اپنے اندر محسوس کرنے کی دولت کو پا لیا اور جب وہ بیان کرنے پر آیا تواس کے لفظوں کی ترتیب نے ایک شاعری کا روپ دھار لیا ، تو ایسے اشعار اپنے تخلیق کار کو امر کر دیتے ہیں وقت کی قید سے آزاد کر کے ایک ایسا روشن ستارہ بنادیتے ہیں جو ابد تک روشن رہتا ہے۔

شاعر کا ذہن ایک ہی جست میں کائنات کی حدوں کو عبور کر کے وہاں جا پہنچتا ہے جہاں ہماری سوچ کبھی سفر نہیں کر سکتی ہے۔اس کے الفاظ ہماری کیفیت کو تو بیان کر رہے ہوتے ہیں مگر اس کی تلاش میں اس کے تخلیق کار کی روح نے ستاروں سے آگے کے جہاں اور پاتال کی گہرایؤں کو چند لمحوں میں چھان لیا ہوتا ہے۔ایسے ہی ایک تخلیق کار کا نام ہے میر تقی میر۔

میر کو غالب کا یوں خراج تحسین پیش کرنا ان کی صلاحیتوں کا ایک کھلا اعتراف ہی تو ہے کہ؛
ریختے کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

میر تقی میر 1723 ء کو اکبر آباد( آگرہ) میں پیدا ہوئے آگرہ جس کی شناخت تاج محل بھی ہے۔آپ کا نام محمد تقی تھا مگر شاعری میں میر تقی میر کے تخلص کے ساتھ اردو زبان کو چنا ،آپ کا شمار ان بانی شاعروں میں سر فہرست ہے جنہوں نے اردو زبان کو ادب میں اعلی مقام دلایا جب کہ فارسی کا اثر اس وقت بے پناہ تھا،اور شاعری گلی کوچوں میں نہیں بلکہ شاہی درباروں میں پنپتی تھی۔

شاعر اور ایک لیڈر کی زندگی میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے ان کی تشکیل میں حالات و واقعات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔یہ ایسے معاشروں میں کرن بن کر سامنے آتے ہیں جہاں ہر طرف ریاستی انارکی ، استحصال اور غربت و ظلم کے بادل چھائے ہوتے ہیں خود ان کی اپنی زندگی بھی ان سے بچ نہیں پاتی مگر ان کی مضبوطی اور جدو جہد کا جذبہ انہیں سب میں رہتے ہوئے ایک الگ شناخت دیتا ہے۔


اسی طرح شاعر میر تقی میر نے اپنے بچپن ہی میں پہلا دکھ یتیمی کا سہا۔ فکر معاش انہیں دہلی لے آیا اور ایک نواب کے ہاں ملازمت اختیار کی مگر اس کی وفات کے بعد پھر واپس آگرہ لوٹ آئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب سارا ہند ایک بھڑکتے ہوئے الاؤ کی مانند تھا جس کے شعلے ہر طرف ہی ہر طبقے کو جلائے جا رہے تھے۔یوں لگتا ہے جیسے میر کا وجود تیز طوفانوں میں تیر رہا تھا جو ایک بار آگرہ سے دہلی، پھر واپس دہلی اور پھر انہیں لکھنؤ آصف الدولہ کے دربار لے گیا۔

ان کی زندگی کا یہ وہ مرحلہ تھا جب ان کی شاعری نے خوشبو بن کر ان کے وجود کو سارے ہندوستان میں پھیلانا شروع کیا۔لکھنؤ نے انہیں نہ صرف شناخت دی بلکہ انکی شریک حیات اور جواں سال اولاد سے ہمیشہ کی جدائی کا غم بھی دیا اور ان غم و الم نے انہیں ایسی تنہائی میں دھکیل دیا جس کا خاتمہ ان کے وجود کے ساتھ 20 ستمبر 1810ء کو ہوا۔ان کی شاعری میں جہاں درد و الم کی سیاہی دکھائی دیتی ہے وہاں جدوجہد کی روشنی کی کرن بھی گہری دکھائی دیتی ہے۔

کسی نے سچ کہا تھا کہ ایک عظیم شاعرہرعہد کا ترجمان ہوتا ہے اورکبھی مرتا نہیں ہے اس کا کلام اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے اور جس خاک میں اس کی خاک ملتی ہے وہاں اس سے زندگی کی ہری بھری کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ کلیات میر میں ان کا مجموعہ شاعری آج بھی محفوظ ہے۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

ان کی غزلیات میں سے کسی ایک کا چناؤ کرنا بہت مشکل ہے ہر مصرعہ ہی اپنے اندر ایک فلاسفی لئے زندگی کے عروج و زوال کو بیان کرتا دکھائی دیتا ہے ۔
دیکھ تو دل کہ جان سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story