یہ کس جرم کی سزا بھگتتے ہیں
’’ کسی حد تک یہ سب سچ تھا اور اب اس میں سے بہت کچھ جھوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے… ‘‘
''میں آپ سے کسی خاص کام کے لیے ملنے آئی ہوں میڈم... '' میں نے نظر اٹھا کر آنے والی کو دیکھا، میرے پاس نرسری جماعت کی ایک طالبہ کی انتہائی اسمارٹ، پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی والدہ... پچیس سے تیس برس کے بیچ کی عمر...
'' بیٹھیں... '' میں نے اسے ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کو کہا، '' خیریت ہے نا سب ... سارا تو ٹھیک ہے نا!!!''میرے ذہن میں تھا کہ کہیں اس کی بیٹی کی کوئی شکایت نہ ہو۔
'' ہاں ... سارا ٹھیک ہے، بس میں ہی کچھ... '' وہ مصنوعی ہنسی ہنسی تھی، '' ایک درخواست تھی، جاننا چاہتی تھی کہ آپ کو زبانی کہہ دوں یا پھر مجھے تحریری درخواست دینا ہو گی؟ ''
'' اچھا... کہیں جا رہے ہیں آپ لوگ، کتنے دن کے لیے؟ '' میں نے سوال کیا۔
'' اصل میں میڈم ... '' وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی، '' مجھے سارا کے لیے چھٹی نہیں چاہیے، میں اسکول کو مطلع کرنا چاہتی ہوں کہ میری اور سارا کے باپ کی... علیحدگی ہو گئی ہے اس لیے سارا کو اس کے باپ کے حوالے نہ کیا جائے... اگر وہ اسے لینے کے لیے اسکول میں آئے تو مجھے فوراً مطلع کر دیا جائے!!''
'' ہوں ... '' میں نے گہری سانس لی، ہاتھ میں پکڑا قلم بند کیا، کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی، اس کے چہرے کو غور سے دیکھا، '' یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے... ''
'' it's okay '' اس نے یوں کہا جیسے محض کسی پرندے کا گھونسلہ تیز ہواؤں کی زد میں آ کر گر جائے... معمولی سی بات ہو، حالانکہ پرندوں کو اپنے گھونسلوں کے ٹوٹنے کا بھی اتنا ہی افسوس ہوتا ہو گا جتنا ہمیں اپنے کسی نقصان پر...'' ایسا تو ہونا ہی تھا ایک نہ ایک دن !!''
'' its not okay my dear at all '' میرے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی سختی آ گئی، میری ملازمت، میری کرسی ،مجھے ایسی جذباتیت کی اجازت نہیں دیتی، مجھے اپنے لہجے پر خود ہی ندامت ہوئی، '' اصل میں آپ لوگ پچھلے برس سارا کا داخلہ کروانے آئے تھے نا ، مجھے تو وہ دن بھی پوری تفصیل سے یاد ہے پیاری، تم نے مجھے بتایا تھا کہ تم اور تمہارے شوہر کی آپس میں محبت کی شادی تھی، اور یہ کہ اپنی بیٹی کے حوالے سے آپ لوگوں کے بہت سے خواب تھے، جن کی تکمیل کے لیے دونوں انتھک محنت کر رہے تھے...''
'' کسی حد تک یہ سب سچ تھا اور اب اس میں سے بہت کچھ جھوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے... '' اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا، '' میں تھک گئی ہوں ، میری انگلیاں فگار ہو گئی ہیں اپنے دل کے زخموں کو سیتے سیتے ... ''
'' ارے تم تو بہت اچھا لکھ سکتی ہو... '' میں نے اس کے دکھ کو کم کرنے کی خاطر کہا۔
'' لکھتی ہوں ... '' اس نے میری طرف دیکھا، '' میں لکھاری ہی تو ہوں ، اور آپ کو علم ہے کہ لکھاریوں کی کیا وقعت ہے، کیا معاوضے ملتے ہیں اور کیا قدر ہے... ایک کال سینٹر میں رات بھر کام کرتی ہوں ، دن کو دو کالجوں میں انگریزی کی کلاسز لیتی ہوں ،بیٹی کو اسکول لانا اور واپس لے کر جانا، میں خودکو کتنا خرچ کرتی ہوں ، تین کام کرتی ہوں ، کیا میں انسان نہیں، کیا میں جرم محبت کی سزا بھگتنے کو اکیلی رہوں ... ''
'' سارا کا باپ تو بہت اچھی جاب کرتا تھا نا ... '' میں نے حیرت سے پوچھا۔
'' وہ کوئی کام ٹک کر نہیں کرتا، اگر میں کام نہ کروں تو ہمارے گھر میں فاقوں تک نوبت آ جائے... وہ ایک بے حس آدمی ہے، اسے میری کوئی پروا نہیں، میں سارا کی پیدائش سے ایک دن پہلے تک بھی کام کر رہی تھی، کیونکہ اس کی ملازمت نہیں تھی اور ہمیں ایک ایک پائی کی ضرورت تھی... میں نے سب کچھ برداشت کیا مگر اب برداشت کی حد ختم ہو گئی ہے... وہ مجھ پر ہاتھ اٹھانے لگا ہے، سارا کے سامنے بھی، میں اپنی بیٹی کو ایک ذہنی طور پر بیمار شخص کے ساتھ رہ کر نہیں پال سکتی!! '' وہ اپنے دل کے پھپھولے میرے سامنے پھوڑ رہی تھی۔
'' ہاتھ اٹھاتا ہے تم پر ... واقعی؟ '' میں شدید حیران تھی، '' مجھے تو وہ بہت مہذب لگتا ہے... ''
'' I know '' اس نے طنز سے کہا، '' میں بھی اسے دیکھ کر ہی تو دھوکہ کھا گئی تھی، مجھے بھی لگا کہ وہ مہذب ہو گا، میرے ماں باپ نے مخالفت بھی کی... مگر میرے دماغ پر تو اس کی محبت کا بھوت سوار تھا... ''
'' تم اسے کہاں ملی تھیں پہلی بار... '' میں نے سوال کیا،کیونکہ میں ایک گھر بچانا چاہتی تھی۔
'' ساتویں جماعت میں ... '' وہ ہنسی، '' ہم دونوں کلاس فیلو تھے... دس سال تک ہم تعلیم کے دوران ہر جگہ کلاس فیلو رہے ... پھر ہم نے فوراً شادی کر لی، میرے والدین کے مخالفت کے باوجود... ایک مقام پر میرے دل میں والدین کی محبت غالب آ گئی تھی مگر پھر اس نے کہا کہ اگر میں نے اس سے شادی نہ کی تو وہ مجھے مار دے گا یا میرے چہرے پر تیزاب پھینک دے گا تا کہ میںکسی کے قابل بھی نہ رہوں ... اس وقت پاپا نے کہا بھی کہ وہ بہت شدت پسند اور بد تمیز ہے مگر اس وقت مجھے پاپا کے ریمارکس برے لگے، پاپا اس کی دھمکیوں کی رپورٹ پولیس کو کروانا چاہتے تھے مگر میں ڈٹ گئی، اس کی محبت والدین کی محبت پر پھر غالب آ گئی اور میں نے اس سے شادی کر لی، اس کے گھروالوں نے بھی مجھے اول دن سے ہی بتا دیا کہ میں فقط ان کے بیٹے کی پسند تھی اور اس سے بڑھ کر مجھے کوئی توقع نہیں کرنا چاہیے تھی... مگر مجھے کس کی پروا تھی!!!'' وہ رکی۔
'' خرابی کہاں ہوئی؟ اب کیا مسئلہ ہے، اب وہ محبت کیا ہوئی اور اس جنون کے عالم کا کیا ہوا؟ ''
'' میں تھک گئی ہوں ! '' اس نے گہری سانس لی، '' وہ جنونی ہو گیا ہے، میں سارا کو ایک ایسے ماحول میں نہیں پلنے دینا چاہتی جس میں ماں اور باپ دونوں میں محبت کی بجائے اختلافات ہو ں، میں نہیں چاہتی کہ اسے ہم سے نفرت ہو جائے... ''
'' تمہیں اپنے ماں باپ سے نفرت تھی کیا ماریہ؟ '' میں نے سوال کیا۔
'' نہیں ... ہرگز نہیں ، وہ تو ایک بہت پیاری جوڑی ہیں ، ابھی تک، محبت کی علامت... '' اس کے لہجے میں اپنے ماں باپ کے لیے ستائش تھی، '' میرا شوہر تو میرے باپ کے پاسنگ بھی نہیں، میرے پاپا نے میری ماں کو کبھی ملازمت نہیں کرنے دی، انھیں آسائشات سے بھر پور زندگی دی اور میرا شوہر... شادی سے لے کر اب تک کے پانچ سالوں میں پندرہ جگہ پر ملازمت شروع کر کے ایک ماہ سے بھی کم کے عرصے میں چھوڑ چکا ہے... ''
'' تمہارے ماں باپ اتنے آئیڈیل تھے تو تم نے ان کی محبت کا کیا صلہ دیا؟ انھوں نے تمہیں ایک انتہائی صحت مند ماحول میں پالا مگر تم نے اپنے بقول ایک جنونی اور شدت پسند شخص کی خاطر ان کی بات نہ مانی... کیا کوئی اولاد اپنے ماں باپ کو ناراض کر کے خوش رہ سکتی ہے ماریہ؟ ''
'' اسی لیے اب میں واپس اپنے ماں باپ کے پاس آ گئی ہوں ... صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو...''
'' ہر گز نہیں ماریہ... '' میں نے اس کی بات کاٹی، '' اب تم لوٹ کر واپس اپنے گھر جاؤ گی تو صبح کا بھولا ہو گی، اپنے والدین کے گھر لوٹنا ہرگز عقل مندی نہیں... ''
'' یہ آپ کہہ رہی ہیں ؟ ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ میں نے ایک شخص کی خاطر اپنے والدین کی محبت کو تج دیا اور اب جب کہ میں واپس لوٹ کر ان کے پاس آ گئی ہوں تو آپ نے اپنے الفاظ ہی بدل لیے... ''
'' اس لیے کہ اب تم ایک بیٹی نہیں... ایک ماں ہو... مجھے بتاؤ ان بچوں کا کیا قصور ہے جو تمہاری آج کل کے نوجوانوں کی محبت کی شادیوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں ... تم لوگوں کی محبت صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اور ان بچوں کے معصوم دل اور ذہن برباد ہو جاتے ہیں، تم چند دن میں دیکھ لینا کہ سارا کی صحت کس طرح متاثر ہو گی، وہ پیاری سی گول مٹول بچی ، اس کی باتوں میں بھولا پن ختم ہو جائے گا...''
'' میں اس جہنم میں لوٹ کر نہیں جا سکتی... '' اس نے سر کو جھٹکا، '' ویسے بھی اس نے کون سا اپنے کیے کی معافی مانگی ہے مجھ سے...''
'' مجھے یقین ہے ماریہ کہ اگر تم محبت کرنے میں جلدی نہ کرتیں تو تمہارے والدین تمہارے لیے کوئی بہترین فیصلہ کرتے... مگر شاید یہ شادی بھی آسمان پر لکھی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں سارا کی پیدائش بھی، مجھے یقین ہے کہ تمہاری ماں بھی ان حالات کے باوجود کبھی تمہیں یہ نہیں کہتی ہوں گی کہ اپنا گھر چھوڑ کر تم نے عقل مندی کی ہے... وہ بھی تمہیں سمجھاتی ہوں گی... ''
'' آپ کو اتنا یقین کیسے ہے؟ '' اس نے ابرو اچکا کر کہا۔
'' تمہارے ہاں جس وقت سارا پیدا ہوئی تھی، اس وقت صرف سارا نہیں پیدا ہوئی تھی بلکہ ایک لڑکی مری تھی اور ایک ماں پیدا ہوئی تھی... تم!!''
'' ہاں ... آپ درست کہتی ہیں... میری مما بھی میری مخالفت کرتی ہیں اور مجھے لوٹ جانے کو کہتی ہیں، وہ کہتی ہیں اب مجھے صرف اپنی بیٹی کے لیے سوچنا چاہیے ، مگر میں اس سے عمر بھر مار کھاتی رہوں کیا؟ میں پرانے وقتوں کی کوئی جاہل گنوار عورت تو ہوں نہیں ... ''
'' بس پیاری یہی کیڑا ہے نا دماغ میں جو کچھ برداشت نہیں کرنے دیتا... '' میں نے اس کی طرف ہنس کر دیکھا، '' مجھے یقین ہے کہ وہ جنونی ہو گا تو اس کا مقابل بھی برابر کی ٹکر کا ہو گا ... ''
'' آپ خود ایک عورت ہیں... سمجھتی ہیں کہ کام کرکے ، مشقت کر کے کمانے والی عورت ایک گھریلو عورت کی طرح مار کھا کر ، رو کر ، آنسو پونچھ کر، مصنوعی ہنسی ہنس کر زندگی نہیں گزار سکتی ... ''
'' کیا وہ چاہتا ہے کہ تم لوٹ جاؤ... '' میں نے اس کی بات کو نظر انداز کر کے سوال کیا کیونکہ یہ ایک اور طویل بحث تھی۔
'' ہاں ... بہت زیادہ منتیں کر رہا ہے ... ''
'' تو پھر لوٹ جاؤ ماریہ... '' میں نے اصرار کیا۔
'' سوچوں گی... '' کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئی اور میں اس دن سے ہر روز اس امید پر راستے کی طرف دیکھتی ہوں کہ کسی روز دونوں ایک طرف سے سارا کا ہاتھ پکڑے آئیں گے، پہلے کی طرح... مگرجانے کب!!!
'' بیٹھیں... '' میں نے اسے ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کو کہا، '' خیریت ہے نا سب ... سارا تو ٹھیک ہے نا!!!''میرے ذہن میں تھا کہ کہیں اس کی بیٹی کی کوئی شکایت نہ ہو۔
'' ہاں ... سارا ٹھیک ہے، بس میں ہی کچھ... '' وہ مصنوعی ہنسی ہنسی تھی، '' ایک درخواست تھی، جاننا چاہتی تھی کہ آپ کو زبانی کہہ دوں یا پھر مجھے تحریری درخواست دینا ہو گی؟ ''
'' اچھا... کہیں جا رہے ہیں آپ لوگ، کتنے دن کے لیے؟ '' میں نے سوال کیا۔
'' اصل میں میڈم ... '' وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی، '' مجھے سارا کے لیے چھٹی نہیں چاہیے، میں اسکول کو مطلع کرنا چاہتی ہوں کہ میری اور سارا کے باپ کی... علیحدگی ہو گئی ہے اس لیے سارا کو اس کے باپ کے حوالے نہ کیا جائے... اگر وہ اسے لینے کے لیے اسکول میں آئے تو مجھے فوراً مطلع کر دیا جائے!!''
'' ہوں ... '' میں نے گہری سانس لی، ہاتھ میں پکڑا قلم بند کیا، کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی، اس کے چہرے کو غور سے دیکھا، '' یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے... ''
'' it's okay '' اس نے یوں کہا جیسے محض کسی پرندے کا گھونسلہ تیز ہواؤں کی زد میں آ کر گر جائے... معمولی سی بات ہو، حالانکہ پرندوں کو اپنے گھونسلوں کے ٹوٹنے کا بھی اتنا ہی افسوس ہوتا ہو گا جتنا ہمیں اپنے کسی نقصان پر...'' ایسا تو ہونا ہی تھا ایک نہ ایک دن !!''
'' its not okay my dear at all '' میرے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی سختی آ گئی، میری ملازمت، میری کرسی ،مجھے ایسی جذباتیت کی اجازت نہیں دیتی، مجھے اپنے لہجے پر خود ہی ندامت ہوئی، '' اصل میں آپ لوگ پچھلے برس سارا کا داخلہ کروانے آئے تھے نا ، مجھے تو وہ دن بھی پوری تفصیل سے یاد ہے پیاری، تم نے مجھے بتایا تھا کہ تم اور تمہارے شوہر کی آپس میں محبت کی شادی تھی، اور یہ کہ اپنی بیٹی کے حوالے سے آپ لوگوں کے بہت سے خواب تھے، جن کی تکمیل کے لیے دونوں انتھک محنت کر رہے تھے...''
'' کسی حد تک یہ سب سچ تھا اور اب اس میں سے بہت کچھ جھوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے... '' اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا، '' میں تھک گئی ہوں ، میری انگلیاں فگار ہو گئی ہیں اپنے دل کے زخموں کو سیتے سیتے ... ''
'' ارے تم تو بہت اچھا لکھ سکتی ہو... '' میں نے اس کے دکھ کو کم کرنے کی خاطر کہا۔
'' لکھتی ہوں ... '' اس نے میری طرف دیکھا، '' میں لکھاری ہی تو ہوں ، اور آپ کو علم ہے کہ لکھاریوں کی کیا وقعت ہے، کیا معاوضے ملتے ہیں اور کیا قدر ہے... ایک کال سینٹر میں رات بھر کام کرتی ہوں ، دن کو دو کالجوں میں انگریزی کی کلاسز لیتی ہوں ،بیٹی کو اسکول لانا اور واپس لے کر جانا، میں خودکو کتنا خرچ کرتی ہوں ، تین کام کرتی ہوں ، کیا میں انسان نہیں، کیا میں جرم محبت کی سزا بھگتنے کو اکیلی رہوں ... ''
'' سارا کا باپ تو بہت اچھی جاب کرتا تھا نا ... '' میں نے حیرت سے پوچھا۔
'' وہ کوئی کام ٹک کر نہیں کرتا، اگر میں کام نہ کروں تو ہمارے گھر میں فاقوں تک نوبت آ جائے... وہ ایک بے حس آدمی ہے، اسے میری کوئی پروا نہیں، میں سارا کی پیدائش سے ایک دن پہلے تک بھی کام کر رہی تھی، کیونکہ اس کی ملازمت نہیں تھی اور ہمیں ایک ایک پائی کی ضرورت تھی... میں نے سب کچھ برداشت کیا مگر اب برداشت کی حد ختم ہو گئی ہے... وہ مجھ پر ہاتھ اٹھانے لگا ہے، سارا کے سامنے بھی، میں اپنی بیٹی کو ایک ذہنی طور پر بیمار شخص کے ساتھ رہ کر نہیں پال سکتی!! '' وہ اپنے دل کے پھپھولے میرے سامنے پھوڑ رہی تھی۔
'' ہاتھ اٹھاتا ہے تم پر ... واقعی؟ '' میں شدید حیران تھی، '' مجھے تو وہ بہت مہذب لگتا ہے... ''
'' I know '' اس نے طنز سے کہا، '' میں بھی اسے دیکھ کر ہی تو دھوکہ کھا گئی تھی، مجھے بھی لگا کہ وہ مہذب ہو گا، میرے ماں باپ نے مخالفت بھی کی... مگر میرے دماغ پر تو اس کی محبت کا بھوت سوار تھا... ''
'' تم اسے کہاں ملی تھیں پہلی بار... '' میں نے سوال کیا،کیونکہ میں ایک گھر بچانا چاہتی تھی۔
'' ساتویں جماعت میں ... '' وہ ہنسی، '' ہم دونوں کلاس فیلو تھے... دس سال تک ہم تعلیم کے دوران ہر جگہ کلاس فیلو رہے ... پھر ہم نے فوراً شادی کر لی، میرے والدین کے مخالفت کے باوجود... ایک مقام پر میرے دل میں والدین کی محبت غالب آ گئی تھی مگر پھر اس نے کہا کہ اگر میں نے اس سے شادی نہ کی تو وہ مجھے مار دے گا یا میرے چہرے پر تیزاب پھینک دے گا تا کہ میںکسی کے قابل بھی نہ رہوں ... اس وقت پاپا نے کہا بھی کہ وہ بہت شدت پسند اور بد تمیز ہے مگر اس وقت مجھے پاپا کے ریمارکس برے لگے، پاپا اس کی دھمکیوں کی رپورٹ پولیس کو کروانا چاہتے تھے مگر میں ڈٹ گئی، اس کی محبت والدین کی محبت پر پھر غالب آ گئی اور میں نے اس سے شادی کر لی، اس کے گھروالوں نے بھی مجھے اول دن سے ہی بتا دیا کہ میں فقط ان کے بیٹے کی پسند تھی اور اس سے بڑھ کر مجھے کوئی توقع نہیں کرنا چاہیے تھی... مگر مجھے کس کی پروا تھی!!!'' وہ رکی۔
'' خرابی کہاں ہوئی؟ اب کیا مسئلہ ہے، اب وہ محبت کیا ہوئی اور اس جنون کے عالم کا کیا ہوا؟ ''
'' میں تھک گئی ہوں ! '' اس نے گہری سانس لی، '' وہ جنونی ہو گیا ہے، میں سارا کو ایک ایسے ماحول میں نہیں پلنے دینا چاہتی جس میں ماں اور باپ دونوں میں محبت کی بجائے اختلافات ہو ں، میں نہیں چاہتی کہ اسے ہم سے نفرت ہو جائے... ''
'' تمہیں اپنے ماں باپ سے نفرت تھی کیا ماریہ؟ '' میں نے سوال کیا۔
'' نہیں ... ہرگز نہیں ، وہ تو ایک بہت پیاری جوڑی ہیں ، ابھی تک، محبت کی علامت... '' اس کے لہجے میں اپنے ماں باپ کے لیے ستائش تھی، '' میرا شوہر تو میرے باپ کے پاسنگ بھی نہیں، میرے پاپا نے میری ماں کو کبھی ملازمت نہیں کرنے دی، انھیں آسائشات سے بھر پور زندگی دی اور میرا شوہر... شادی سے لے کر اب تک کے پانچ سالوں میں پندرہ جگہ پر ملازمت شروع کر کے ایک ماہ سے بھی کم کے عرصے میں چھوڑ چکا ہے... ''
'' تمہارے ماں باپ اتنے آئیڈیل تھے تو تم نے ان کی محبت کا کیا صلہ دیا؟ انھوں نے تمہیں ایک انتہائی صحت مند ماحول میں پالا مگر تم نے اپنے بقول ایک جنونی اور شدت پسند شخص کی خاطر ان کی بات نہ مانی... کیا کوئی اولاد اپنے ماں باپ کو ناراض کر کے خوش رہ سکتی ہے ماریہ؟ ''
'' اسی لیے اب میں واپس اپنے ماں باپ کے پاس آ گئی ہوں ... صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو...''
'' ہر گز نہیں ماریہ... '' میں نے اس کی بات کاٹی، '' اب تم لوٹ کر واپس اپنے گھر جاؤ گی تو صبح کا بھولا ہو گی، اپنے والدین کے گھر لوٹنا ہرگز عقل مندی نہیں... ''
'' یہ آپ کہہ رہی ہیں ؟ ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ میں نے ایک شخص کی خاطر اپنے والدین کی محبت کو تج دیا اور اب جب کہ میں واپس لوٹ کر ان کے پاس آ گئی ہوں تو آپ نے اپنے الفاظ ہی بدل لیے... ''
'' اس لیے کہ اب تم ایک بیٹی نہیں... ایک ماں ہو... مجھے بتاؤ ان بچوں کا کیا قصور ہے جو تمہاری آج کل کے نوجوانوں کی محبت کی شادیوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں ... تم لوگوں کی محبت صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اور ان بچوں کے معصوم دل اور ذہن برباد ہو جاتے ہیں، تم چند دن میں دیکھ لینا کہ سارا کی صحت کس طرح متاثر ہو گی، وہ پیاری سی گول مٹول بچی ، اس کی باتوں میں بھولا پن ختم ہو جائے گا...''
'' میں اس جہنم میں لوٹ کر نہیں جا سکتی... '' اس نے سر کو جھٹکا، '' ویسے بھی اس نے کون سا اپنے کیے کی معافی مانگی ہے مجھ سے...''
'' مجھے یقین ہے ماریہ کہ اگر تم محبت کرنے میں جلدی نہ کرتیں تو تمہارے والدین تمہارے لیے کوئی بہترین فیصلہ کرتے... مگر شاید یہ شادی بھی آسمان پر لکھی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں سارا کی پیدائش بھی، مجھے یقین ہے کہ تمہاری ماں بھی ان حالات کے باوجود کبھی تمہیں یہ نہیں کہتی ہوں گی کہ اپنا گھر چھوڑ کر تم نے عقل مندی کی ہے... وہ بھی تمہیں سمجھاتی ہوں گی... ''
'' آپ کو اتنا یقین کیسے ہے؟ '' اس نے ابرو اچکا کر کہا۔
'' تمہارے ہاں جس وقت سارا پیدا ہوئی تھی، اس وقت صرف سارا نہیں پیدا ہوئی تھی بلکہ ایک لڑکی مری تھی اور ایک ماں پیدا ہوئی تھی... تم!!''
'' ہاں ... آپ درست کہتی ہیں... میری مما بھی میری مخالفت کرتی ہیں اور مجھے لوٹ جانے کو کہتی ہیں، وہ کہتی ہیں اب مجھے صرف اپنی بیٹی کے لیے سوچنا چاہیے ، مگر میں اس سے عمر بھر مار کھاتی رہوں کیا؟ میں پرانے وقتوں کی کوئی جاہل گنوار عورت تو ہوں نہیں ... ''
'' بس پیاری یہی کیڑا ہے نا دماغ میں جو کچھ برداشت نہیں کرنے دیتا... '' میں نے اس کی طرف ہنس کر دیکھا، '' مجھے یقین ہے کہ وہ جنونی ہو گا تو اس کا مقابل بھی برابر کی ٹکر کا ہو گا ... ''
'' آپ خود ایک عورت ہیں... سمجھتی ہیں کہ کام کرکے ، مشقت کر کے کمانے والی عورت ایک گھریلو عورت کی طرح مار کھا کر ، رو کر ، آنسو پونچھ کر، مصنوعی ہنسی ہنس کر زندگی نہیں گزار سکتی ... ''
'' کیا وہ چاہتا ہے کہ تم لوٹ جاؤ... '' میں نے اس کی بات کو نظر انداز کر کے سوال کیا کیونکہ یہ ایک اور طویل بحث تھی۔
'' ہاں ... بہت زیادہ منتیں کر رہا ہے ... ''
'' تو پھر لوٹ جاؤ ماریہ... '' میں نے اصرار کیا۔
'' سوچوں گی... '' کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئی اور میں اس دن سے ہر روز اس امید پر راستے کی طرف دیکھتی ہوں کہ کسی روز دونوں ایک طرف سے سارا کا ہاتھ پکڑے آئیں گے، پہلے کی طرح... مگرجانے کب!!!