نئے معاشی و سیاسی معاہدے کی ضرورت
مغربی جمہوری کلچر کے ساتھ مغربی سرمایہ دارانہ کلچر نے بھی پاکستان کو ’’معاشی قیدی‘‘ بنایا ہوا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر قدرتی وسائل سے بھرپورملک ہے۔ زراعت، معدنیات، سمندری خوراک کی وافر مقدار میں ہونے کے باوجود آج ''غریب قوم'' زندگی کی تمام تر بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ امیر قوم یعنی Status Quo نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے پورے ملک کے وسائل کو غلط پلاننگ کرکے، عوام کو دھوکے میں رکھ کر تمام ملکی ''غریب قوم'' کو بدحالی کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ 1962 کا آئین ہو یا 1973 کا آئین ہو۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ کہنا کہ آئین کے ایک نقطے سے 40 نکات تک 1973 سے آج تک کسی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ یہی کچھ عمران خان بھی کہتا ہے کہ عوام کو اگر عدالتیں انصاف اور تھانے انصاف دیں تو بہت سے مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔
مغربی جمہوری کلچر کے ساتھ مغربی سرمایہ دارانہ کلچر نے بھی پاکستان کو ''معاشی قیدی'' بنایا ہوا ہے۔ سرمایہ کاری میں کم سے کم پر زیادہ سے زیادہ نفع، کم سے کم قرض پر زیادہ سے زیادہ سود حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ 1952-53 سے 2012-13 تک پاکستان نے سامراج سے 88 ارب 95 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا۔ اس میں سے بروقت ہر سال قرض لیتے وقت 59 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سود و اصل زر کی مد میں امیر قوم کے حکمرانوں نے کٹوا کر باقی اس تمام عرصے کے دوران ہر سال کا ٹوٹل ملاکر 29 ارب 68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر نقد وصول کیے یعنی وصول شدہ قرضے کا تین گنا وصول ہی نہیں کیا اور وصول شدہ قرضے کے بدلے 50 ارب 60 کروڑ 90 لاکھ ڈالر عوام کے ذمے ادا کرنا باقی رہا۔
یعنی وصول شدہ قرضے پر 69 فیصد زیادہ ادا کرنا باقی رہا۔ یہ مہنگا ترین قرضہ ''امیرقوم'' نے ''غریب قوم'' کی معاشی بدحالی کو بڑھانے کے لیے اور خود استعمال کیا۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14 کے صفحے 132 پر ملکی اور غیرملکی قرضوں کی تفصیل دی ہوئی ہے۔ 1990 مجموعی قرضہ 8 کھرب ایک ارب روپے 1995 میں 16 کھرب 62 ارب روپے، 2000 میں 30 کھرب 18 ارب روپے، 2005 میں 40 کھرب 91 ارب روپے، 2008 میں60 کھرب 44 ارب روپے، 2009 میں 76 کھرب 29 ارب روپے، 2010 میں 89 کھرب 11 ارب روپے۔2011 میں 107 کھرب روپے، 2012 میں126 کھرب 53 ارب روپے، 2013 میں 143 کھرب 66 ارب روپے لیا گیا۔
اسی کتاب کے صفحے 179 پر پاکستان کی آبادی 2012 میں 18 کروڑ7 لاکھ 10 ہزار تھی۔ 2013 میں 18 کروڑ 43 لاکھ 50 ہزار تھی۔ 2012 میں ہر شہری 70 ہزار روپے سے زیادہ کا مقروض تھا۔ 2013 میں ہر شہری 78 ہزار روپے تک مقروض کردیا گیا۔ ''امیرقوم'' کے حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں اگر ''غریب قوم'' دوست یا مثبت ہوتیں تو آج ہر شہری خوشحال ہوتا۔ لیکن امیر قوم کی پالیسیاں امیر قوم کی معاشی ترقی کے لیے تھیں اور اب بھی ہیں تو اسی وجہ سے امیر قوم کے پاس ''افراط زر'' اور غریب قوم ''قلت زر'' ہے۔
کتاب International Debt Statistics 2013, Page 224, 225 by World Bank. Washington میں لکھا ہے کہ پاکستان سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 1995 میں 30 کروڑ ڈالر کا نفع پاکستان سے باہر بھیجا۔ 2000 میں 42 کروڑ 90 لاکھ ڈالر، 2005 میں ایک ارب 87 کروڑ 10 لاکھ ڈالر، 2006 میں 2 ارب 58 کروڑ ڈالر، 2007 میں 2 ارب 97 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، 2008 میں 3 ارب 20 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، 2009 میں 2 ارب 54 کروڑ 80 لاکھ ڈالر، 2010 میں 2 ارب 14 کروڑ ڈالر، 2011 میں2 ارب 10 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا سرمایہ پاکستان سے باہر گیا۔
یہ یاد رہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت کی ملی بھگت سے ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں مسلسل بڑھائی گئی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی پروڈکٹس کی قیمتیں بھی اسی نسبت سے بڑھاکر سارا بوجھ ''غریب قوم'' کی قوت خرید پر ڈال دیتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے حکم پر Currency Devaluation Minus Economic Development کا Impact براہ راست تجارت، بجٹ، پرائیویٹ اداروں اور خاص کر توانائی کے تمام شعبوں پر منفی ڈالا گیا ہے۔ 1947-48 میں ایک ڈالر پاکستانی 3.308 روپے کا تھا۔
تجارت 1948-49 سے 1955-56 تک پاکستان کے حق میں تھی۔ لیکن CDMED جولائی 1955 میں 44 فیصد لگایا جانے کے بعد 1956-57 میں تجارت اور بجٹ، دیگر پرائیویٹ پیداواری یونٹ خسارے میں چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور 1972 میں آئی ایم ایف کے حکم پر مئی 1972 میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کردیا گیا۔ 132 فیصد روپے کی قیمت میں کمی سے ملکی تمام ادارے خسارے میں چلے گئے۔ کیونکہ غیرملکی تمام درآمدات Imports کی قیمتیں 132 فیصد زیادہ ادا کرنی پڑیں۔
اگر صنعتکار ایک مشینری اس سے قبل ایک کروڑ روپے کی لے رہا تھا۔ CDMED لگنے کے بعد وہی مشینری 2 کروڑ 32 لاکھ روپے میں خریدنی پڑی۔ لاگتیں بڑھنے سے صنعتی کلچر کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور 1973 کے دوران صنعتی ورکرز نے ہڑتالیں شروع کردیں، بے روزگاری یک دم بڑھتی گئی۔ 1973 کے دوران حکومت نے عرب ملکوں میں ورکرز بھیجنے شروع کردیے۔ اس کے بعد زرمبادلہ آنے لگا۔ اس کے بعد مسلسل ہر حکومت نے ہر وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی جاری رکھی۔ 1947 میں 3.308 روپے کا ڈالر تھا۔ ستمبر 2014 کے پہلے ہفتے میں 102.02 روپے کا ڈالر تھا۔
روپے کی قیمت میں کمی 2984 فیصد کردی ۔ اسCDMED کے نتیجے سے ہی پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز اور دیگر پیداواری شعبے خسارے میں چلے گئے اور مسلسل ہر حکومت نے جانے والی حکومت پر الزام تراشی کی لیکن عملاً کسی حکومت نے بھی ملکی و عوامی معیشت کو تباہ کرنے والوں کو کبھی بھی قانوناً سزا نہیں دی۔ یہ سب لٹیرے ایک دوسرے پر پردہ ڈالتے آرہے ہیں۔ اگر حکمران عوام و ملک کے خیر خواہ ہوتے تو آج وسائل سے بھرپور ملک ایٹمی قوت ہوتے ہوئے معاشی بدحالی کا شکار نہ ہوتا۔
سال 2013 میں امیر قوم کے حکمرانوں نے غریب عوام پر 143 کھرب 66 ارب روپے کا قرضہ چڑھادیا۔ جو ملکی ریونیو 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے کا 482 فیصد زیادہ بنتا ہے۔ ہر حکومت نے ملکی تمام اہم اداروں کو پیچھے دھکیل کر سامراجی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔ جس کے نتیجے میں آج ملکی تمام ادارے بے چینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اگر حکمران سامراج نوازی سے ہٹ کر روپے کو 1947 کی قیمت پر لے آئیں۔ تو آج ہی معیشت بحال ہونا شروع ہوجائے گی۔
آج معاشی غلامی کے نتیجے میں کھربوں روپے کا قرض عوام کی قوت خرید پر ڈال دیا گیا ہے، سڈمڈ کے نتیجے میں آج پاکستانی عوام میں غربت آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔ تمام حکومتوں نے 1955 کے بعد سے بیرونی ملکوں میں اثاثے رکھنے شروع کیے اور آج ہر امیر قوم کا لیڈر باہر اثاثے اور ڈالر کا سرمایہ رکھتا ہے۔
اگر عوام مل کر پنچایت در پنچایت کے سسٹم کو قائم کرلیتے ہیں تو عوام اپنی معاشی آزادی، ملکی سالمیت کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اگر ہم سیدھی طرح قانون قدرت یعنی لا آف یونیورس پر عمل کریں۔ یہ ناسور تو سرمایہ داری کا پیدا کردہ ہے کیونکہ سرمایہ دار یا امیر قوم کم سے کم پر زیادہ سے زیادہ نفع زر حاصل کرتی ہے۔ ''عوامی راج'' میں زیادہ سے زیادہ پیداوار زیادہ سے زیادہ عوامی خوشحالی کا نظریہ عمل کرتا ہے۔
مغربی جمہوری کلچر کے ساتھ مغربی سرمایہ دارانہ کلچر نے بھی پاکستان کو ''معاشی قیدی'' بنایا ہوا ہے۔ سرمایہ کاری میں کم سے کم پر زیادہ سے زیادہ نفع، کم سے کم قرض پر زیادہ سے زیادہ سود حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ 1952-53 سے 2012-13 تک پاکستان نے سامراج سے 88 ارب 95 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا۔ اس میں سے بروقت ہر سال قرض لیتے وقت 59 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سود و اصل زر کی مد میں امیر قوم کے حکمرانوں نے کٹوا کر باقی اس تمام عرصے کے دوران ہر سال کا ٹوٹل ملاکر 29 ارب 68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر نقد وصول کیے یعنی وصول شدہ قرضے کا تین گنا وصول ہی نہیں کیا اور وصول شدہ قرضے کے بدلے 50 ارب 60 کروڑ 90 لاکھ ڈالر عوام کے ذمے ادا کرنا باقی رہا۔
یعنی وصول شدہ قرضے پر 69 فیصد زیادہ ادا کرنا باقی رہا۔ یہ مہنگا ترین قرضہ ''امیرقوم'' نے ''غریب قوم'' کی معاشی بدحالی کو بڑھانے کے لیے اور خود استعمال کیا۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14 کے صفحے 132 پر ملکی اور غیرملکی قرضوں کی تفصیل دی ہوئی ہے۔ 1990 مجموعی قرضہ 8 کھرب ایک ارب روپے 1995 میں 16 کھرب 62 ارب روپے، 2000 میں 30 کھرب 18 ارب روپے، 2005 میں 40 کھرب 91 ارب روپے، 2008 میں60 کھرب 44 ارب روپے، 2009 میں 76 کھرب 29 ارب روپے، 2010 میں 89 کھرب 11 ارب روپے۔2011 میں 107 کھرب روپے، 2012 میں126 کھرب 53 ارب روپے، 2013 میں 143 کھرب 66 ارب روپے لیا گیا۔
اسی کتاب کے صفحے 179 پر پاکستان کی آبادی 2012 میں 18 کروڑ7 لاکھ 10 ہزار تھی۔ 2013 میں 18 کروڑ 43 لاکھ 50 ہزار تھی۔ 2012 میں ہر شہری 70 ہزار روپے سے زیادہ کا مقروض تھا۔ 2013 میں ہر شہری 78 ہزار روپے تک مقروض کردیا گیا۔ ''امیرقوم'' کے حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں اگر ''غریب قوم'' دوست یا مثبت ہوتیں تو آج ہر شہری خوشحال ہوتا۔ لیکن امیر قوم کی پالیسیاں امیر قوم کی معاشی ترقی کے لیے تھیں اور اب بھی ہیں تو اسی وجہ سے امیر قوم کے پاس ''افراط زر'' اور غریب قوم ''قلت زر'' ہے۔
کتاب International Debt Statistics 2013, Page 224, 225 by World Bank. Washington میں لکھا ہے کہ پاکستان سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 1995 میں 30 کروڑ ڈالر کا نفع پاکستان سے باہر بھیجا۔ 2000 میں 42 کروڑ 90 لاکھ ڈالر، 2005 میں ایک ارب 87 کروڑ 10 لاکھ ڈالر، 2006 میں 2 ارب 58 کروڑ ڈالر، 2007 میں 2 ارب 97 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، 2008 میں 3 ارب 20 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، 2009 میں 2 ارب 54 کروڑ 80 لاکھ ڈالر، 2010 میں 2 ارب 14 کروڑ ڈالر، 2011 میں2 ارب 10 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا سرمایہ پاکستان سے باہر گیا۔
یہ یاد رہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت کی ملی بھگت سے ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں مسلسل بڑھائی گئی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی پروڈکٹس کی قیمتیں بھی اسی نسبت سے بڑھاکر سارا بوجھ ''غریب قوم'' کی قوت خرید پر ڈال دیتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے حکم پر Currency Devaluation Minus Economic Development کا Impact براہ راست تجارت، بجٹ، پرائیویٹ اداروں اور خاص کر توانائی کے تمام شعبوں پر منفی ڈالا گیا ہے۔ 1947-48 میں ایک ڈالر پاکستانی 3.308 روپے کا تھا۔
تجارت 1948-49 سے 1955-56 تک پاکستان کے حق میں تھی۔ لیکن CDMED جولائی 1955 میں 44 فیصد لگایا جانے کے بعد 1956-57 میں تجارت اور بجٹ، دیگر پرائیویٹ پیداواری یونٹ خسارے میں چلے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور 1972 میں آئی ایم ایف کے حکم پر مئی 1972 میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کردیا گیا۔ 132 فیصد روپے کی قیمت میں کمی سے ملکی تمام ادارے خسارے میں چلے گئے۔ کیونکہ غیرملکی تمام درآمدات Imports کی قیمتیں 132 فیصد زیادہ ادا کرنی پڑیں۔
اگر صنعتکار ایک مشینری اس سے قبل ایک کروڑ روپے کی لے رہا تھا۔ CDMED لگنے کے بعد وہی مشینری 2 کروڑ 32 لاکھ روپے میں خریدنی پڑی۔ لاگتیں بڑھنے سے صنعتی کلچر کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور 1973 کے دوران صنعتی ورکرز نے ہڑتالیں شروع کردیں، بے روزگاری یک دم بڑھتی گئی۔ 1973 کے دوران حکومت نے عرب ملکوں میں ورکرز بھیجنے شروع کردیے۔ اس کے بعد زرمبادلہ آنے لگا۔ اس کے بعد مسلسل ہر حکومت نے ہر وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی جاری رکھی۔ 1947 میں 3.308 روپے کا ڈالر تھا۔ ستمبر 2014 کے پہلے ہفتے میں 102.02 روپے کا ڈالر تھا۔
روپے کی قیمت میں کمی 2984 فیصد کردی ۔ اسCDMED کے نتیجے سے ہی پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز اور دیگر پیداواری شعبے خسارے میں چلے گئے اور مسلسل ہر حکومت نے جانے والی حکومت پر الزام تراشی کی لیکن عملاً کسی حکومت نے بھی ملکی و عوامی معیشت کو تباہ کرنے والوں کو کبھی بھی قانوناً سزا نہیں دی۔ یہ سب لٹیرے ایک دوسرے پر پردہ ڈالتے آرہے ہیں۔ اگر حکمران عوام و ملک کے خیر خواہ ہوتے تو آج وسائل سے بھرپور ملک ایٹمی قوت ہوتے ہوئے معاشی بدحالی کا شکار نہ ہوتا۔
سال 2013 میں امیر قوم کے حکمرانوں نے غریب عوام پر 143 کھرب 66 ارب روپے کا قرضہ چڑھادیا۔ جو ملکی ریونیو 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے کا 482 فیصد زیادہ بنتا ہے۔ ہر حکومت نے ملکی تمام اہم اداروں کو پیچھے دھکیل کر سامراجی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔ جس کے نتیجے میں آج ملکی تمام ادارے بے چینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اگر حکمران سامراج نوازی سے ہٹ کر روپے کو 1947 کی قیمت پر لے آئیں۔ تو آج ہی معیشت بحال ہونا شروع ہوجائے گی۔
آج معاشی غلامی کے نتیجے میں کھربوں روپے کا قرض عوام کی قوت خرید پر ڈال دیا گیا ہے، سڈمڈ کے نتیجے میں آج پاکستانی عوام میں غربت آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔ تمام حکومتوں نے 1955 کے بعد سے بیرونی ملکوں میں اثاثے رکھنے شروع کیے اور آج ہر امیر قوم کا لیڈر باہر اثاثے اور ڈالر کا سرمایہ رکھتا ہے۔
اگر عوام مل کر پنچایت در پنچایت کے سسٹم کو قائم کرلیتے ہیں تو عوام اپنی معاشی آزادی، ملکی سالمیت کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اگر ہم سیدھی طرح قانون قدرت یعنی لا آف یونیورس پر عمل کریں۔ یہ ناسور تو سرمایہ داری کا پیدا کردہ ہے کیونکہ سرمایہ دار یا امیر قوم کم سے کم پر زیادہ سے زیادہ نفع زر حاصل کرتی ہے۔ ''عوامی راج'' میں زیادہ سے زیادہ پیداوار زیادہ سے زیادہ عوامی خوشحالی کا نظریہ عمل کرتا ہے۔