عالمی یوم امن اور باچا خان

باچا خان کی تعلیمات یہی تھیں کہ ’ہماری قربانیوں کی بدولت نہ صرف تشدد کی آگ ٹھنڈی ہوگی بلکہ امن وآشتی کا نیا سورج۔۔۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں امن کا عالمی دن 21 ستمبر کو منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں امن کا 12 واں عالمی دن ہوگا جس کا مقصد شورش کا خاتمہ اور قیام امن کے لیے سخت محنت کرنے والوں کی کاوشوں کا اعتراف کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام امن کے عالمی دن کو 'یوم امن' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، گو کہ پہلا عالمی یوم امن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2001 میں منانے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی فیصلے تحت پہلا عالمی امن 21 ستمبر 2002 کو منایا گیا۔

جنرل اسمبلی نے اس سلسلے میں عالمی یوم امن کے حوالے سے تاریخ مقرر کرنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ یہ دن عالمی سطح پر جنگ بندی اور عدم تشدد کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کا یہ دعوی ہے کہ اس نے عالمگیر سطح پر قیام امن کے لیے خود کو وقف کردیا ہے، اس مقصد کے لیے تعاون کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے، لیکن عملی طور اقوام متحدہ اپنے اس منشور پر قائم نہیں رہ سکی اور امن کے نام پوری دنیا، خاص کر مسلم ممالک میں امن و تشدد کے نام پر بھیانک جنگ کی حوصلہ افزائی کی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کرکے لاکھوں انسانوں کو امن کے نام پر قتل کیا، عراق میں امن کے نام پر لاکھوں انسان جنگ کی بھینٹ چڑھے تو دوسر ی جانب شام، فلسطین، کشمیر، برما، صومالیہ، پاکستان، ہندوستان میں امن کے نام پر تشدد کو فروغ دینے میں اقوام متحدہ کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اگر عدم تشدد کے ذریعے قیام امن کے فلسفے کو بطور مثال پیش کرنا ہو تو عظیم خدائی خدمت گار باچا خان اور بابائے سیاست ولی خان نے متحدہ ہندوستان سے لے کر موجودہ پاکستان تک قیام امن کے لیے ہزاروں جانثاروں اور اراکین اسمبلی کو قربان کردیا۔

موجودہ سیاسی نظام میں عدم تشدد کی سیاست نے فروغ حاصل کیا ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ امن کی خاطر قیام پاکستان سے لے کر آج تک 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کا حصول، صوبے کی اپنی تاریخی پہچان، کالا باغ ڈیم کا خاتمہ، سابقہ آمرانہ دور میں معطل شدہ عدلیہ کی بحالی، پن بجلی منافع کا حصول اور وفاق سمیت چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق اور تشدد کے مقابلے میں عدم تشدد کی سیاست کا مقصد، صرف امن کی سیاست سے ممکن ہوا، امن کی خاطر سوات و ملاکنڈ کے عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا گیا اور امن و عدم تشدد کی سیاست کے ساتھ سماجی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے قوم کو دہشت گردی کی تیسری عالمی جنگ میں فرنٹ لائن پر آکر قربانیوں کی لازوال مثال قائم کی۔


کیونکہ باچا خان کی تعلیمات یہی تھیں کہ 'ہماری قربانیوں کی بدولت نہ صرف تشدد کی آگ ٹھنڈی ہوگی بلکہ امن و آشتی کا نیا سورج طلوع ہوگا'۔ عام طور پر پختونوں کو ان کی جنگجویانہ فطرت اور جنگی تاریخ کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے لیکن بیسویں صدی کی کامیاب ترین عدم تشدد تحریک (خدائی خدمت گار تحریک) نے ثابت کیا کہ عدم تشدد کی سیاست سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شمالی مغربی سرحدی صوبے میں برطانوی نو آبادی نظام کے خلاف پرامن مزاحمت کی۔

موجودہ دور میں جس طرح ملک در ملک اور خاص طور مسلم امہ کے ممالک میں تشدد کی لہر عروج پر ہے باچا خان کے فلسفے کو اپنا کر ہم ان کے قول و فعل کو زیادہ سے زیادہ پرچار کرکے حقیقی معنوں میں قیام امن کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔ باچا خان کے خلاف سرد جنگ کے دوران پیدا ہونے والا تعصب بتدریج ختم ہورہا ہے اور تاریخی و زمینی حقائق ثابت کر رہے ہیں کہ عالمی امن کے خواب کی اگر تعبیر درکار ہے تو پھر باچا خان کے فلسفے کو اپنانا ہوگا اور دنیا کو اس زوایے کے تحت اپنی پالیسیوں کو مرتب کرنا ہوگا۔

پاکستان میں سب سے بڑے اور دوسرے سب سے بڑے لسانی طبقے کے عظیم لیڈر نے 1929 میں خدائی خدمت گار تحریک کے ذریعے پشتون اکثریتی علاقوں اور غیر منقسم ہندوستان کو ہڑتالوں، جلوسوں اور تشدد سے پاک اختلاف کے ذریعے برطانوی تسلط سے آزادی دلانے کے لیے فقیدالمثال کردار ادا کرکے ثابت کردیا کہ قیام امن کے لیے واحد راستہ جنگ نہیں بلکہ امن اور عدم تشدد کی راہ بھی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عدم تشدد کی عظیم تحریک میں تقریباً تین لاکھ ایسے افراد فوج میں شامل ہوئے تھے جن کا فلسفہ عدم تشدد کے ذریعے امن کے قائم کو یقینی بنانا تھا، جس کے نتیجے میں باچا خان اور ولی خان نے غیر منقسم ہندوستان اور پاکستان میں برسوں برس جیل اور مصائب کی بدترین صعوبتیں اٹھائیں۔

باچا خان نے ایک جگہ اپنا مقولہ دہرایا کہ 'وہ پٹھان جو سارا وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ اپنے بھائی کا گلہ کیسے کاٹا جائے، اس جیسے تشدد و طاقت کے ماحول میں پلے پٹھان کو عدم تشدد کا پیروکار بنانا آسان کام نہیں تھا۔' لیکن باچا خان نے ثابت کردیا کہ عدم تشدد کے راہ اپنا کر امن کے قیام کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اقوام متحدہ عالمی یوم امن کا دن تو بارہ سال سے منا رہی ہے لیکن اس کے قول و فعل میں تضاد ہے، فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام پر صہیونیوں کی بمباری، معصوم بچوں اور خواتین، بزرگ مردوں کا قتل عام، لیکن عالمی برداری اور عالمی امن کے دعوے دار مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے نام نہاد عالمی یوم امن منا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ 57 سے زاید ممالک، اربوں مسلمان خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں، کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت نہیں دی جارہی اور مظلوم مسلمانوں کا ناحق قتل عام و بربریت جاری ہے۔

پاکستان میں لاکھوں آئی ڈی پیز امن کے نام پر عالمی سازشوں کے گریٹ گیم کی وجہ سے ہمارے بھائی، بہن دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کو حقیقی معنوں میں تیسری دنیا اور مسلم ممالک میں قیام امن کو یقینی بنانا اور استعماری قوتوں کے بنے جال سے دنیا کو نجات دلانی ہے تو پھر انھیں عالمی امن کے لیے حقیقی معنوں میں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر دنیا، امن کے نام پر خاکستر ہوجائے گی۔ عالمی امن کے قیام کے لیے باچا خان کے فلسفے کو اقوام متحدہ کو اپنے چارٹرڈ میں بلاامتیاز مثبت و اصلاحی کردار ادا کرنا ہوگا۔
Load Next Story